پہلی دلیل : یہ ملک چونکہ مکمل طور پر اسلامی فلاحی ریاست نہیں ہے لہذا یہاں ہر ناجائز طریقے سے مال بنانا اور بدعنوانی کرنا حرام کے زمرے میں نہیں آتا ۔ دوسری دلیل : یار،قومی خزانے کے بارے میں اتنامحتاط رہنے کی ضرورت نہیںہے ، ویسے بھی کوئی دوسرا طاقتور بندہ اس پر ہاتھ صاف کرے گا،سواس سے بہتر یہ ہے کہ آپ خود یہ کام کرلیں ۔ تیسری دلیل: اس ملک میں قانون صرف کاغذات تک ہے،پوچھنے والا کوئی نہیں ہے بلکہ قانون بنانے والے خود بھی قانون کی گرفت میں نہیں آتے ہیں، لہذا قانون کی دھجیاں اڑانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے، وغیرہ وغیرہ ۔یہ وہ الٹی سوچ اور بھونڈی دلیلیںہیںجو آج کل ہمارے ہاں لوگوں کے ذہنوں میں ٹھونسی جارہی ہیں۔کیا آپ نے کبھی غور کیا ہے کہ اس نوع کے بھونڈے دلائل کا سہارا کس طرح کے لوگ لیتے ہیں؟ سچ بات یہ ہے کہ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں سرکاری ملازمین کی شکل میںقومی خزانے تک یاتوبراہ راست یابالواسطہ رسائی حاصل ہے ۔بدعنوانی اور لاقانونیت کو جواز فراہم کرنے والے یہ لوگ حقیقت میں اُن بلے اور بلیوں کی مانند ہیں جواپنے حصے کے گوشت پر قناعت نہیں کرتے بلکہ دوسروں کاحصہ بھی کھاجانے کے عادی ہیں۔ اس حوالے سے مجھے سب سے زیادہ افسوس اُن پر ہوتا ہے جو جاننے کے باوجود بھی صریح بدعنوانی، خیانت اور کھلی چوری پر جوازکے مہر ثبت کرتے ہیں۔ملک میں بدعنوانی ، لاقانونیت اور اقرباپروری کوجواز بخشنے والے ان لوگوں کی اس دلیل کو ہم مان لیں گے کہ چلیں یہاں پر اسلامی نظام مکمل نافذنہیں ہے لیکن بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا ریاست کا نیم اسلامی یامکمل غیراسلامی ہونے کی صورت میں اسلام کی رٹ بھی ایک مومن بندے سے رفع ہوجاتی ہے ؟ کیا اسلام اپنے پیروکار سے صرف اس وقت چوری ، ڈاکے اور دیگر جرائم کا ارتکاب نہ کرنے کا مطالبہ کرتا ہے جب بندہ مدینہ جیسی ریاست کا شہری ہو یا دین محمدیؐ کا ہر حکم انفرادی صورت میں بھی ہر عاقل اور بالغ مسلمان کو مخاطب ہے؟ طویل عرصے کے بعد پچھلے دنوں مجھے ایک پرانے دوست کے ساتھ بیٹھنے کا موقع ملا ۔باتوں باتوں میں بات ان کے بھائی کی ملازمت تک جا پہنچی ۔ فرمایا کہ الحمدللہ میرا فلاں بھائی آج کل فلاں ضلع میں ایک بڑے عہدے پرتعینات ہے۔ پھر پوچھا ’’کیا خیال ہے جناب! ایک بڑے آفیسریا وزیرکیلئے اپنی معلوم تنخواہ کے علاوہ کسی دوسرے طریقے سے پیسہ اکٹھا کرناکیساہے ؟ میںاس دوست کو اپنے محدود معلومات کی روشنی میںسمجھارہاتھا کہ بیچ میں انہوںنے ایک نامی گرامی مولوی کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ چنددن قبل اس مولوی صاحب کے ساتھ ایک نشست میں کرپشن کے بارے میں بات چھڑ گئی تو ان کاکہناتھاکہ اس ملک میں ’’ جس کی لاٹھی اس کی بھینس‘‘ والامعاملہ ہے ،سو ایسے میں ایک سرکاری آفیسر، وزیر یہاں تک کہ ایک عام ملازم بھی موقع پاتے ہی قومی خزانے میں غبن کرسکتاہے۔ اپنے دوست کی زبان سے مولوی صاحب کی یہ نرالی منطق اور دلیل سن کر میں نے ان کو مخاطب کیا کہ جناب! مسئلہ اس طرح قطعاً نہیں ہے جس طرح آپ کو اس مولوی صاحب نے سمجھایا ہے ۔ اس پر میرے دوست نے کہا کہ پھر اس مولوی نے حرام چیز کو حلال کاحکم کیوں کیا، آخر وہ بھی کسی دارالعلوم کے فاضل تو ہونگے ؟ بعد میں اپنے دوست کی غلط فہمی دور کرنے کیلئے میں نے پیغمبر اسلام ؐ کے مدنی دور کی چند قابل رشک مثالیں پیش کیں اور کہاکہ’’ آپؐ کے زمانے میں مدینہ کے شمال میں خیبر کے نام سے یہودیوں کا ایک بڑا شہر آباد تھا۔مدینہ کی اسلامی ریاست اور مسلمانوں کے خلاف جب ان یہودیوں کی ریشہ دوانیاں حدسے بڑھ گئیں تو سات ہجری میں آپ ؐ نے ان کے خلاف ایک فیصلہ کن کاروائی کی ٹھان لی۔خیبر کو اپنے حصار میں لے کر یہودی ایک قلعے کے اندرسے مسلمانوں سے لڑتے رہے۔اس زمانے میں خیبر کے یہودیوں نے اپنی بکریاں چروانے کیلئے اسودراعی نامی ایک سیاہ فام باشندے کو چرواہارکھاتھا۔ مسلمان فوج کے محاصرے کے دوران ایک دن اسودراعی اپنی بکریوں کو باہر لے گئے تھے تو آپؐ کوملے اور آپؐ کی باتوں سے اتنے متاثر ہوئے کہ اسلام قبول کرلیا۔اسلام قبول کرنے کے ساتھ ساتھ اسود راعی کے دل میں مسلمانوں کے اسی لشکر ہی کی صف سے یہودیوں کے خلاف لڑنے کی تمنابھی پیداہوئی ۔آپؐ نے اسے ایسا کرنے کی اجازت تو دے دی لیکن ان سے فرمایا کہ جہاد میں حصہ لینے سے پہلے آپ کا اولین فریضہ یہ بنتاہے کہ آپ ان بکریوں کو اپنے یہودی مالکوں کے سپرد کردیں جو کہ آپ کے پاس ان کی امانت ہے ۔اسودراعی نے بکریوں کی اس امانت ریوڑ کوقلعے کی طرف ہانک کر اپنے مالکوں کے حوالے کیا اور واپس آکر جنگ میں شامل ہوئے ''۔ اپنے دوست کو میں نے مزید سمجھاتے ہوئے کہاکہ جب اُن دشمن یہودیوں کا مال بھی پیغمبراسلام ؐ نے اپنے لئے اور اپنے مفلوک الحال اصحاب کیلئے ناجائز قرار دیاتھا جن کے خلاف وہ دوبدو برسرپیکار تھے ، تو اس ملک کے قومی خزانے سے چوری اور فراڈ کے ذریعے پیسہ لینا کس طرح جائز ہوگا جس ملک کے بیس کروڑ کلمہ گو بندے سب اس میں شریک ہوں۔ میری بات شاید میرے دوست کو سمجھ آگئی ہوگی کیونکہ سچی بات یہ ہے کہ اسلام اپنے ماننے والوں کیلئے وہ مال قطعاً جائز قرار نہیں دیتاجس میں کسی دوسرے بندے کے حق کا استحصال لازم آتاہو اگرچہ وہ بندہ عیسائی ، یہودی یا بدھ مت کا پیروکارہی کیوں نہ ہو۔ وماعلینا الاالبلاغ المبین