تحریک انصاف نے بہت سے لوگوں کی توقعات کے برعکس پندرہ نشستیں جیت کر سب کو حیران کر دیا۔ پندرہ نشستیں جیتنا تو ایک بات ہے جس مارجن سے یہ سیٹیں تحریک انصاف نے جیتیں وہ اور بھی حیران کن تھا ۔ مثلا پندرہ میں سے چار سیٹیں تحریک انصاف نے پچیس ہزار سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے جیتیں ۔ اعظم چیلہ نے تو حیران ہی کر دیا، فیصل حیات جبوآنہ کو انہوں نے تیس ہزار سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے شکست دی۔ ان کے علاوہ سیف الدین کھوسہ ، نواز بھروانہ اور قیصر عباس خان مگسی نے بھی اپنے مخالف امیدواروں کو پچیس پچیس ہزار ووٹوں کے فرق سے شکست دی۔ اتنی بڑی لیڈ کے ساتھ سیٹ نکالنے کی توقع شاید خود تحریک انصاف کے ان امیدواروں نے بھی نہ کی ہو گی۔ اس کے علاوہ فیصل آبادسے علی افضل ساہی، لودھراں سے پیرعامر اقبال شاہ، مظفر گڑھ سے معظم جتوئی، بھکر سے عرفان اللہ خان نیازی اور لاہور سے شبیر گجر نے اپنے مخالف امیدواروں کو دس دس ہزار سے زیادہ ووٹوں کے فرق سے شکست دی۔ کچھ نشستوں پر تو نتیجہ حیران کن رہا۔ مثلا کوئی یہ توقع نہیں کر رہا تھا کہ بھکر میں عرفان اللہ خان نیازی سعید اکبر نوانی جیسے طاقتور امیدوار کو شکست بھی دے سکتے ہیں ، توقع کے برعکس انہوں نے صرف شکست ہی نہیں دی بلکہ گیارہ ہزار ووٹوں کی لیڈ بھی لی۔ سعید اکبر نوانی کے اعتماد کا عالم یہ تھا کہ انہوں نے کھیل کھیل میں اپنی مہم کا آغاز کیا جس کا اعتراف خود انہوں نے نائنٹی ٹو پر چلنے والے میرے پروگرام میں کیا۔ وہ اتنے پر اعتماد تھے کہ انہوںنے مریم نواز کو وہاں جلسہ کرنے سے بھی منع کر دیا اور کہا اس کی کوئی ضرورت نہیں ۔ انتخابی مہم کے دوران جلسوں میں نوانیوں نے ن لیگ کے ترانے چلانے کی بجائے اپنے خاندان کی تعریف میں بنے نغمے چلائے اور شہر بھر میں خوب چرچا کیا۔ انہیں لگتا تھا وہ ن لیگ کی مدد کے بغیر ہی باآسانی جیت سکتے ہیں ۔ لیکن پھر جب عمران خان کا جلسہ ہوا، عرفان اللہ نیازی زور پکڑنے لگے تو انہیں کچھ تشویش ہوئی اور الیکشن کو سنجیدہ لینا شروع کیا۔نوانیوں کا خاندان کافی بڑا ہے ۔ سعید اکبر نوانی کے بھائی، چچا، بیٹے اور بھتیجے بیک وقت مختلف علاقوں میں جلسے کرنے لگے ۔ مقامی بیورو کریسی پر ان کا بہت کنٹرول ہے اور زمانے سے ہے ۔ غرض ہر طرح کی طاقت انہوں نے استعمال کی۔ تحریک انصاف کی مہم جاندار ہوجانے کے باوجود لگتا یہی تھا کہ نوانی تھوڑے مارجن سے ہی سہی مگر یہ سیٹ جیت جائیںگے۔ نتیجہ آیا تو سب حیران رہ گئے ، خود عرفان اللہ نیازی کو بھی گیارہ ہزار کی لیڈ کی توقع نہ ہو گی۔ ڈیرہ غازی خان میں بھی بہادر گڑھ گروپ بہت طاقتور ہے ۔ موجودہ ایم این اے سردار امجد فاروق کھوسہ نے اپنے بیٹے سردار عبدالقادر کھوسہ کو میدان میں اتارااور خوب مہم چلائی۔ کئی مقامی دھڑے ان کی حمایت میں کھڑے تھے۔کانٹے دار مقابلہ تھا۔ یوں لگتا تھا کہ یہاں جو بھی جیتے گا محض چند سو یا ایک دو ہزار ووٹوں کے فرق سے جیتے گا مگرنتیجہ حیران کن تھا ۔ سردار سیف الدین کھوسہ پچیس ہزار ووٹوں کے فرق سے جیت گئے ۔ جھنگ کے دونوں حلقوں میں مجموعی طور پر تحریک انصاف نے پچپن ہزار ووٹ زیادہ لیے۔ لیہ میں بھی ایسی آندھی چلی کہ مخالف امیدواروں کو بہا لے گی۔ سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کی آندھی چلی کیسے ۔ اس کی چار بڑی وجوہات معلوم ہوتی ہیں ۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ عمران خان اپنا بیانیہ لوگوں کے ذہنوں میں اتارنے میں کامیاب رہے ۔ انہوں نے عوام کو بتایا کہ ان کے خلاف امریکی ایما پر ایک سازش ہوئی اور ان کے مخالف امیدوار اس سازش کا ایک کردار تھے۔ انہوںنے عوام کو بتایا کہ اپنی خودداری اور حقیقی آزادی کی خاطر انہیں ووٹ دیا جائے ۔صاف نظر آتا ہے عوام نے عمران خان کے اس بیانیے کو قبول کر لیا۔ دوسری بڑی وجہ مہنگائی ثابت ہوئی۔ متوسط طبقہ مہنگائی سے بہت متاثر نظر آیا۔ پیٹرول کی قیمتیں بڑھنے کے بعد پیدا ہونے والی مہنگائی کی لہر نے صرف مڈل کلاس کو ہی متاثر نہیں کیا بلکہ اپر مڈل کلاس اور خوشحال طبقہ بھی بہت پریشان ہے۔ اس سب کا ذمہ دار انہوں نے موجودہ حکومت کو قرار دے دیا۔ انہیں یہ بھی لگتا تھا کہ عالمی مہنگائی کے باوجود عمران خان نے کسی نہ کسی طریقے سے مہنگائی کو کافی حد تک روک رکھا تھا مگر موجودہ رجیم نے مہنگائی کا سارا بوجھ عوام پر ڈال دیا۔یہی وجہ ہے کہ لوگوں نے اپنے غصے کا اظہار بیلٹ پیپر پر کر دیا۔ تیسری بڑی وجہ عوام کا منحرف اراکین کے لیے غصہ بھی تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ ن لیگ کا ٹکٹ لینے والوں نے اپنے مفاد کے لیے وفاداری تبدیل کی اور عوام کو دھوکہ دیا۔انہیں یہ بھی لگتا تھا کہ عمران خان کے ساتھ زیادتی ہوئی۔ چوتھی وجہ یہ تھی کہ ن لیگ کو مجبورا اپنے مضبوط امیدواروں کو نظر انداز کر کے منحرف اراکین کو ٹکٹ دینا پڑا۔اکثر جگہوں پر ان کے پاس منحرف رکن سے بہتر امیدوار موجود تھا مگر وہ انہیں ٹکٹ نہ دے سکتے تھے۔ مثلا لودھراں میں ن لیگ اگر اپنے امیدوار رفیع الدین بخاری کو ٹکٹ دیتی تو یہ سیٹ ان کی ہوتی۔مگر منحرف رکن نذیر بلوچ تیسرے نمبر پر رہے ۔ اسی طرح خوشاب میں ن لیگ کو امیر حیدر سنگھا کو ٹکٹ دینا پڑا ،یہاں اگر وہ ملک آصف بھا کو ٹکٹ دیتے تو سیٹ ان کی ہوتی۔ اس طرح فیصل آباد میں ن لیگ کے ٹکٹ کے حقدار آزاد تبسم تھے مگر ٹکٹ اجمل چیمہ کو ملا جس کی وجہ سے انہیں بدترین شکست ہوئی۔ ان تمام حقائق کو ملا کر دیکھیں تو عمران خان کی جیت کی وجوہات آسانی سے سمجھ میں آ جاتی ہیں ۔ اب شہباز شریف سخت مشکل میں آ چکے ہیں ۔پنجاب گنوا کر حکومت کرنے کا فائدہ نہیں اور اگر وفاقی کی حکومت چھوڑ کر دوبارہ انتخابات میں جاتے ہیں تو نتائج اس سے مختلف نہیں ہوں گے جو اب نکلے ۔