اردو پاکستان کی قومی زبان ہے، اس کا استعمال بھی قومی وقار کے ساتھ ہونا چاہیے۔بدقسمتی سے پاکستانی اشرافیہ نے قومی زبان کو سرکاری سرپرستی اور ذریعہ تعلیم بننے سے محروم رکھا ہے یہ کیفیت ایسی ہی ہے، جیسے انگریزی ادبیات کے آفاقی شاعر اور ادیب ولیم شیکسپئر کے ساتھ ہوا۔شیکسپیئر نے انگریزی زبان کو رواج دینے کے لئے برطانیہ کے عام عوام کے استعمال کی زبان انگریزی میں لکھا جبکہ برطانوی اشرافیہ انگریزی کو عامی اور عوامی زبان گردانتے تھے اور انگریزی میں بات کرنا اپنی توہین جانتے تھے۔برطانوی اشرافیہ کی محبوب مقبول اور علمی ‘ ادبی اور زبان لاطینی اور یونانی تھی مگر وقت نے ثابت کیا کہ قومی اور عوامی زبان ہی زندہ رہتی ہے‘ اشرافیہ کی زبان وقت کے غیر متعمل ہو جاتی ہے اردو زبان صرف پاکستانی عوام کی زبان نہیں بلکہ برصغیر کے ہر خاص و عوام کی زبان ہے حقیقت یہ ہے کہ اردو زبان پاک بھارت سرزمین میں بسنے والی مختلف بلکہ متصاد اور متصادم ‘ نسلوں ‘ قوموں‘ قبیلوں علاقوں اور مذہبوں کے ماننے والوں کی دولت مشترکہ ہے۔یہ سب کی زبان ہے اور یہ ساری قوموں کے درمیان رابطے کی زبان ہے جسے سب بولتے اور سمجھتے ہیں البتہ لکھنے میں رسم الخط کا فرق آ جاتا ہے مگر انگریز کے ابتدائی اور مغل حکمرانوں کے دور آخر میں اردو کا رسم الخط بھی ایک تھا جو فارسی زبان سے ماخوذ تھا اور قرآنی زبان اور رسم الخط کے قریب تر تھا۔فی الحقیقت اردو زبان عربی‘ فارسی ‘ ہندی اور علاقائی زبانوں اور لہجوں کی لہذیت و تمدن اور تعلیم یافتہ ہونے کی عکاس اور مظہر ہے اردو زبان نے مسلمان حکمرانوں کی آمد سے فروغ پایا اور یہ مسلم اشرافیہ اور ہندی عوام کے میل جول کا نتیجہ اور ثمر ہے اس کی ابجد ہندی حروف اور الفاظ کے لئے نامکمل ہے۔تقریباً موجودہ پاکستان بشمول سرہند اور پانی پت‘ مسلمانوں کا برصغیر میں اولین حکمرانی مسکن ہے جبکہ محمد بن قاسم سندھ سے برصغیر میں آئے اور مسلمان تاجر دکن یعنی جنوبی ہند سے برصغیر میں وارد ہوئے۔ان دونوں خطوں نے اردو کی ابتدائی حیثیت میں کردار ادا کیا ہے مگر متحدہ پنجاب نے اردو زبان کی آفرینش میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔یہ حقیقت ہے کہ پنجاب یعنی موجودہ پاکستان میں مسلمان وسط ایشیا سے براستہ افغانستان آئے اور محمود غزنوی نے سرہند اور پانی پت کا علاقہ بھی فتح کر کے برصغیر میں غزنوی سلطنت کا داغ بیل ڈالی،جو تقریباً سو سال رہی اور بعدازاں غوری اور سلاطین کا دور آ گیا، برصغیر کے غزنوی دور میں سرکاری زبان عربی اور تہذیبی زبان وسط ایشیائی فارسی رہی ہے۔یہ بھی حقیقت ہے کہ 1835ء تک برصغیر کے مسلمانوں اور ہندی عوام کی رابطے کی زبان فارسی رہی ہے۔مغل دور میں ایرانی فارسی کو رسوخ حاصل ہوا تو یہ فارسی زبان ترکوں اور ایرانیوں کی مشترکہ میراث بن گئی لارڈ میکالے نے 1935ء میں اصلاحات نافذ کیں جس میں ذریعہ تعلیم فارسی کی بجائے اردو زبان کو اپنایا گیا۔انگریز بخوبی جانتے تھے کہ برصغیر کے عوام و خواص میں اردو مروج ہے اور باہمی رابطے کی واحد زبان ہے اردو کی عوامی مقبولیت کو برطانوی ہندی راج نے تسلیم کیا تھا، برطانوی بادشاہت نے 1857ء کی جنگ آزادی کے بعد برصغیر میں باضابطہ انگریزی راج کا آغاز کیا۔انگریزوں نے ہندی حکومت مسلمان حکمرانوں سے حاصل کی تھی لہٰذا انہوں نے مسلمانوں کو معتوب اور ہندوئوں محبوب بنا کر باہمی چپقلش کی راہیں اپنائیں جب انگریز سرکار نے ہندوستان میں عوامی رابطہ مہم کا آغاز کیا، تو ہندوئوں کی لسانی عصبیت کو بھی خوب خوب ابھارا اور انگریز سرکار کی سرپرستی میں اردو ہندی جھگڑے کی آبیاری کی۔شہر بنارس کے اندر ابتداء میں اردو کے ساتھ سنسکرت (براچینہند کی زبان) رسم الخط کے ساتھ ہندی زبان کو بھی سرکاری زبان تسلیم کیا۔مسلمان عوام و خواص اسلامی تہذیب و تمدن اور زبان کے خلاف انگریز ہندو گٹھ جوڑ کو بخوبی جان گئے اور سرسید احمد خان نے اردو زبان کے تحفظ کے لئے عوامی تحریک کا آغاز کیا۔سرسید احمد خان کے بعد نواب محسن الملک اور نواب وقار الملک نے اردو زبان تحریک کو پروان چڑھایا اور آل انڈیا مسلم لیگ کے قیام میں تقسیم بنگال 1905ء اور اردو زبان کی حفاظت کی تحریک نے کلیدی کردار ادا کیا اردو زبان کا رواج اور تحفظ تحریک و قیام پاکستان کی مرکزی شق رہی ہے۔یہی سبب ہے کہ قائد اعظم نے قیام پاکستان کے بعد اردو زبان کو مشرق کی مشترکہ قومی زبان قرار دیا تھا۔قومی زبان کا مطلب علاقائی زبانوں کا خاتمہ نہیں ہے بلکہ علاقائی زبانوں کے رواج کو قومی زبان کے وسیع تر مفاد کے ساتھ قائم رکھنا تھا۔قیام پاکستان کے بعد مشرقی پاکستان کے ہندو عوام نے بھارتی بنگال کی اشیر باد سے مشرقی پاکستان میں اردو بحیثیت قومی زبان کے خلاف محاذ آرائی کی اور بنگالی زبان اور تہذیب و تمدن کے حق میں منظم اور موثر تحریک چلائی جس نے مشرقی پاکستان کی مغربی پاکستان سے علیحدگی میں اہم کردار ادا کیا۔یاد رہے کہ بھارتی بنگال میں بنگالی زبان اور بنگالی کلچر کی کوئی تحریک نہ تھی۔اردو زبان کو بھارتی سرکار نے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کیا یاد رہے کہ اردو زبان اور رسم الخط کا جھگڑا 1957ء کی جنگ آزادی سے شروع ہوا اور اب تک جاری ہے۔تحریک پاکستان کے دوران کانگریس کے قائد کرم داس گاندھی کہا کرتے تھے کہ ہم اردو کے حامی ہیں۔اردو ہم سب کی زبان ہے۔مگر ہم چاہتے ہیں کہ اردو سنسکرت رسم الخط میں لکھی جائے موجودہ اردو رسم الخط قرآنی ہے اور مسلمان اردو کے ساتھ قرآن کے قریب ہو جاتے ہیں اور قرآنی زبان اور قرآنی تہذیب و تمدن بدیسی ہے۔ہندی نہیں ہے۔لہٰذا ہمیں قبول نہیں لیکن بدقسمتی یہ ہے تحریک پاکستان کے دوران گاندھی نہرو اور برطانوی سرکار اردو زبان اور قرآن رسم الخط کو تبدیل نہ کر سکی مگر آج پاکستانی عوام اردو زبان انگریزی رسلم الخط میں لکھ رہے ہیں اور قومی لسانی نقصان کا احساس بھی نہیں ہے۔اگر اردو رسم الخط بدل گیا،تو ہماری نوجوان تحریک پاکستان ہندوستان پاک و ہند میں اسلامی تہذیب و تمدن کے اثاثے اور تاریخ سے نابلد ہو جائے گی۔ اقبال اور غالب تمام اردو شعراء و ادیب بیگانے بن جائیں گے۔اتنا بڑا نقصان ہے جس کا لفظوں میں بیان کرنا مشکل بلکہ ناممکن ہے: وائے ناکامی متاعِ کارواں جاتا رہا! کارواں کے دل سے احساس زبان جاتا رہا ہزاروں سال سے برصغیر کی محروم ترین قوم اچھوت ہے جو آج دلت کہلاتی ہے دلت مفکرین و مؤرخین کا متفقہ فیصلہ ہے کہ ہم ہندوستان کے براجین(قدیم) حکمران ہیں مگر ہندو برہمن نے ہمیں ہماری دلت زبان (دراوڑی) سے محروم کیا تو ہم سب کچھ سے محروم ہو گئے اردو زبان اور قرآنی رسم الخط باقی ہے تو ہم بھی باقی رہیں گے زندہ زبان ہی قوم کو زندہ رکھتی ہے اور یہی زندہ قوم کی نشانی ہے کہ ان کی زبان ان کی تاریخ کی حفاظت کرتی ہے۔ ٭٭٭٭٭