دین کے سامنے مکمل خود سپردگی کے عمل کو ایمان کہا جاتا ہے اور جب مومن خدا کے سامنے خود سپردگی اختیار کرتا ہے تو ایمان اس کے قلب میں راسخ ہو جاتا ہے ۔ایمان کی جڑیں نفس کی گہرائیوں میں مضبوطی سے جم جاتی ہیں ۔ تو انسان کی وہ خفیہ صلاحتیں قوتیں بیدار ہو جاتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کو عطا فرمائی ہیں ۔ پوشیدہ صلاحیتوں کے اس اظہار کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ انسان خیر کی طرف بڑی محبت سے لپکتا ہے اور شر سے نفرت کے ساتھ دور بھاگتا ہے ۔ اس کے اندر تقوی پیدا ہوتا ہے اور تقویٰ کی صفت سے متصف صرف وہی لوگ ہو سکتے ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے تقویٰ کے لئے آزما لیا ہو۔ یہ مرتبہ و مقام حاصل کر لینا کوئی آسان بات نہیں ہے لیکن بندہ خلوص دل سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے تو اللہ تعالیٰ خود اس کی رہنمائی فرما کر اس کی کوشش کو کامیاب بنا دیتا ہے۔تا ہم ا س منزل تک پہنچنے کے لئے ضروری ہے کہ انسان اپنی مرضی سے اپنی نفسانی خواہشات اور شہوات سے دستبردار ہو۔ عبادت کا مطلب ہی یہ ہے کہ اللہ ہی کی اطاعت، اسی کے لئے عجزو نیاز اورجو اس نے دین عطا فرمایا اس کے احکام پر بلا چوں و چراںعمل کیا جائے۔ عبادت اس مفہوم میں انسان کو اس قابل کر دیتی ہے کہ وہ صرف اس ذات کے سامنے سر تسلیم خم کرے۔ اسلام کے پانچ بنیادی فرائض میں سے ایک فریضہ صوم ہے اور یہ ایک پوشیدہ، خاموش اور بے ریا عبادت ہے ۔ جس میںنمود و نمائش کی کوئی گنجائش نہیں جب تک خود انسان اس کا اظہار نہ کرے ۔ دوسروں پر اس کا راز افشاں نہیں ہو سکتا۔ ریا سے بچنا ہی تمام عبادات کی جڑ اور اخلاق کی بنیاد ہے ۔ روزہ ،روزہ دار کے اندر تقویٰ پیدا کرتا ہے ۔ تقویٰ دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کے حاصل ہونے کے بعد دل کو گناہوں سے جھجھک محسوس ہونے لگتی ہے اور نیک باتوں کی طرف حد درجہ رغبت پیدا ہو جاتی ہے ۔ روزہ کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ انسان میں یہی کیفیات پیدا ہوں ۔ روزہ انسان کے ان جذبات کی شدت کو کمزورکرتا ہے اور اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان نوجوانوں کو جو اپنی مالی مجبوریوں کے باعث نکاح کرنے سے معذور ہوں یہ مشورہ دیا کہ وہ روزہ رکھیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’’ روزہ شہوت کو توڑنے اور کم کرنے کے لئے بہترین علاج ہے‘‘ روزہ کے قانونی پہلو پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام اس کے ذریعہ انسان کے شعور میں اللہ کی حاکمیت کے اقرار و اعتراف کو مستحکم کرنا چاہتا ہے تا کہ احکام ِ خداوندی کو بجا لاتے وقت انسان اپنی آزادی اور خود مختاری سے دست بردار ہو جائے کفر اس کے سوا کچھ نہیں کہ انسان خدا کے مقابلے میں اپنے آپ کو خود مختار محسوس کرے اس کے علی الرغم اسلام یہ ہے کہ انسان ہر آن اپنے آپ کو اس کا بندہ اور محکموم محسوس کرے ۔ سال میںایک مرتبہ رمضان کے روزے ۷۲۰ گھنٹے پیہم اس شعور کو ذہن پر قائم رکھتے ہیں تا کہ سال بھر انسان کے ذہن پر اس کے اثرات بدستور قائم رہیں ۔ احساس بندگی کے ساتھ ساتھ روزہ داری سے جو چیز لازمی طور پر پیداہو تی ہے وہ یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو جس خدا کا بندہ سمجھ رہا ہے اس کی اطاعت کرے ۔ ان مبارک دنوں میں فطری طور پر بندے کا اپنے رب سے ایسا ربط رہتاہے کہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہو سکتے ۔ اس دوران انسان میں خود بخود احساس پیدا ہوتا ہے کہ آپ جس کی خداوندی کا اعتراف کریں گے۔ لازماً اطاعت بھی اسی کی کریں گے ۔ احساس بندگی کی یاد ہانی کے ساتھ ساتھ اطاعت امیر کی تربیت دینا بھی ضروری ہے۔ روزے میں اگرچہ بظاہر (غذا اور جنسی خواہشات) پر پابندی لگائی گئی ہے لیکن اس کی اصل روح یہ ہے کہ انسان پر پابندی پوری طرح حاوی ر ہے ۔روزہ داری سے ضبط نفس میں کمال پیدا ہوتا ہے اس تربیت کے ضابطہ میں کسنے کے لئے خواہشات پر مکمل طور پر پابندی لگادی گئی ہے۔ تراویح پڑھنے اور سحری کے لئے اٹھنے سے راحت پسندی اورعیش پرستی پر بھی کافی ضرب پڑتی ہے ۔جس سے انسان سنبھل جاتا ہے۔ اگر انسان کامطمع نظر یہ بن جائے کہ کسی بھی طرح ان خواہشات کی تسکین ہو تو یہ خواہش انسان پر سوار ہو جاتی ہیں ۔ اس کے برخلاف اگر انسان ارادے کی باگیں مضبوطی سے تھامے رکھے تو پھر وہ خواہشات کو اپنے پیچھے اور مرضی کے مطابق چلا سکتا ہے اسی لئے روزہ خواہشات کو قابو میں رکھنا سیکھاتا ہے ۔ روزہ امیروں کو اس بات کا احساس دلاتا ہے کہ فاقہ کشی کیسی اذیت ناک اورتکلیف دہ شئے ہوتی ہے ۔ اس وقت اسے اپنے غریب اور فاقہ سے نڈھال بھائی یاد آتے ہیں اور دل میں یہ احساس کروٹ لیتا ہے کہ چند لقموں سے ان کی تکلیف کو دور کرنا کتنا ثواب ہے ۔ جو خود بھوکا نہ ہو، اور جو خود پیاسا نہ ہو۔ اس کو پیاس کی تکلیف کا احساس کیونکر ہو سکتا ہے ۔ بقول حافظ ابن قیم ’’سوز جگر سمجھنے کے لئے پہلے سوختہ جگر کا ہونا ضروری ہے‘‘ روزہ اسی احساس کو زندہ اور ایثار ، رحم اور ہمدردی کے جذبہ کو بیدار کرتا ہے ۔ چنانچہ خودرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حال یہ تھا کہ رمضان میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت ’’سحاب رحمت‘‘ کی طرح ہوتی تھی۔اسی مبارک اور پاکیزہ سنت کا اثر ہے کہ آج تک مسلمانوں کے یہاں اس مہینہ میں غریبوں اور فقیروں کی امداد و اعانت کی جاتی ہے اور انہیں جی بھر کر کھانا کھلایا جاتا ہے ۔ یادرہے کہ طبی ہدایت بھی ہے کہ کم از کم ہفتہ میں ایک وقت کھانے کا ناغہ کیا جائے ۔ اس لئے سال بھر میں ایک ماہ کے روزے رکھتے ہیں تا کہ انسان کو ذاتی تجربہ ہو گا کہ ایک مہینہ کا روزہ کتنی بیماریوں سے دور کر دیتا ہے ۔ اس لئے یہ ایک قسم کا سالانہ جبری جسمانی علاج بھی ہے ۔