دعا کرو میں تمہارے حصار سے نکلوں رہ جمال کے زریں غبار سے نکلوں میں گرم جوش ہوں نفرت میں اور محبت میں میں کیسے جذبہ جاں کے بخار سے نکلوں یہ حصار بڑی ظالم شے ہے پہلے ایک نہایت دلچسپ اور مضحکہ خیز ویڈیو کا سن لیں کہ ایک مسلمان ملک کے سربراہ ایک حفاظتی روبوٹ کے زیر نگرانی دبئی کی کسی کانفرنس میں شرکت کے لئے جا رہے ہیں۔ بندہ سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہے کہ کوئی مسلمان سربراہ اپنا دماغ استعمال نہیں کرتا۔ جیسے ان کو بریف کر دیا جاتا ہے وہ اس کو مان لیتے ہیں نپولین بونا پاٹ نے کہا تھا کہ سب سے بڑا احمق وہ ہے جو حجام سے شیو کرواتا ہے کہ اس کے ہاتھ میں آلہ قتل دے کر خود اس کے سامنے گردن رکھ دیتا ہے۔ ایک لمحے کے لئے سوچیں کہ بات تو کچھ کچھ درست لگتی ہے۔ آپ ذرا سوچئے کہ ایک روبوٹ کسی کی کیا حفاظت کر سکتا ہے۔ اس نے تو وہی کرنا ہے جو اس میں فیڈ کیا جائے گا اور فیڈ کرنے والے کی نیت اور ارادے کا کسے معلوم ،پھر روبوٹ آخر ایک مشین ہے اس میں کوئی ایرر بھی آ سکتا ہے اس کے ہاتھ سے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ آپ کسے قصوروار ٹھہرائیں گے۔ بس روبوٹ تو روبوٹ ہے۔ اس روبوٹ میں بم بھی تو فکس کیا جا سکتا ہے۔ وہ تو کسی کو مارنے پر آئیں تو اپنے ایمبیسڈر کی بھی پروا نہیں کرتے۔ سب سے اہم بات کہ روبوٹ کی تو کوئی سوچ ہوتی ہی نہیں وہ عین موقع پر فیصلہ کرنے پر قدرت نہیں رکھتا۔ سب سے اہم بات کہ روبوٹ تو خود حفاظت کروانے والے کے بھی کہنے پر نہیں ہو گا۔وہ تو اپنی مرضی کرے گا۔ روبوٹ بالکل سیاسی کارکنوں کی طرح ہوتا ہے جو اپنا دماغ نہیں رکھتے۔وہ صرف نعرے لگانے یا لگوانے اور وقت آئے تو جوتے کھانے کے لئے ہوتے ہیں۔ میں غلط نہیں کہتا اسی لئے تو اکثر حیران ہو کر سوال کرتے ہیں کہ یار ان لوگوں کو نظر نہیں آتا کہ ان کا لیڈر کرپٹ ہے اربوں کھربوں کھایا‘ باہر جائیدادیں بنا لیں اور اپنا علاج تک بھی ملک میں نہیں کروا سکتا۔ تو آپ اسی کو پھر لانا چاہتے ہیں۔ کارکن کے پاس بڑی دلیلیں ہونگی۔آپ اسے رومانس بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس نے کہا تو جی اٹھے اس نے کہا تو مر گئے۔محبوب تو محبوب ہی ہوتا ہے۔ خواہ وہ لیڈر ہو: ہاں ہاں نہیں ہے کچھ بھی مرے اختیار میں ہاں ہاں وہ شخص مجھ سے بھلایا نہیں گیا میں جانتا تھا آگ لگے گی ہر ایک سمت مجھ سے مگر چراغ بجھایا نہیں گیا ویسے یہ روبوٹ والی مذاق کی بات نہیں یہ کٹھ پتلی کے مماثل ہی ہے۔ یہ سوچ کر تکلیف ہوتی ہے کہ آپ کو شرمندگی تو دور کی بات ذرا سا احساس ہی نہیں کہ آپ کر کیا رہے ہیں۔ انصاف بھی نہیں اور اوپر سے ظلم۔ کوئی آپ کے ساتھ نہیں کھڑا۔ وہ جو باہر سے آئے تھے واپس جانے کو ہیں۔ ایک مریم نواز نے آپ کی ساری گڈ گورننس کو تہس نہس کر کے رکھ دیا۔ بزدار پلس کی بجائے ڈبل مینس نظر آ رہے ہیں۔ مجھے لگتا ہے پولیس بھی آپ کے ساتھ نہیں یہ روبوٹ ہی تو ہیں۔ اپنی ذمہ داریوں اور فرائض سے ماورا سیاسی وابستگیوں میں جکڑے ہوئے۔ یہ بات کون پوچھے کہ محترمہ آپ نے تو کہا تھا میری پاکستان میں بھی کوئی جائیداد نہیں تو پھر یہ سب کیا۔ انہوں نے اپنے شیروں کو بیدار کر دیا نیب پر سنگ باری ایک عجوبہ نہیں۔ انتشار میں ایسا ہی ہوتا ہے۔ محرک تلاش کر کے بندوبست کرنا پڑتا ہے۔ دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجیے۔ خالد احمد یاد آتے ہیں: شہر جاگے تو ہمیں خون میں تر دیکھیں گے سنگ آنکھیں نہیں رکھتے ہیں کہ سر دیکھیں گے مریم نواز کہتی ہیں کہ طاقتوں نے سروے کروایا تو پتہ چلا ہے کہ ن لیگ پہلے سے کہیں مقبول ہو گئی ہے تو انہوں نے انہیں نیب بلوا کر حملہ کروایا۔ ویسے سروے کی کیا ضرورت پڑی ہے کسی کو یہ تو حکومت کی مکمل ناکامی سے ایک عام آدمی کو بھی سمجھ آسکتی ہے کہ عوام اس وقت بہت تپے بیٹھے ہیں کہ انہیں مہنگائی کے باعث جان کے لالے پڑے ہوئے ہیں۔ ظاہر ان کے پاس چوائس نہیں ہے۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں تو پہلے ہی صاف ہو چکی تھی اب سندھ کو بھی اس نے برباد کر کے رکھ دیا ہے خاص طور پر کراچی۔ پنجاب کے لوگ اپنی توہین محسوس کر رہے ہیں کہ انہیں کوئی جاندار حکمران دیا جاتا کہ لوگ شہباز شریف کو بھول جاتے۔ غالباً خان صاحب پنجاب کا بڑا صوبہ کسی مقبول اور تجربہ کار کو نہیں دینا چاہتے کہ انہیں انڈر شیڈو نہ کر دے۔ خاص طور پر لاہور میں تو سارے کام ہی رکے ہوئے ہیں۔ ویسے اندر کی بات بعض اوقات کوئی بھی نہیں جان سکتا۔ اس وقت تو یہی ہو رہا ہے کہ روبوٹس ہی سے مدد فراہم کی جا رہی ہے روبوٹس تو اسی کے ہوتے ہیں جو ان کو فیڈ کرتا ہے۔ کیا خان صاحب نہیں سمجھتے تھے کہ یہ الیکٹی بلز کون ہیں یہ لوٹے کیا ہوتے ہیں یہ بھی تو روبوٹس ہی ہوتے ہیں۔ یہاں سوچ رکھنے والوں کو کون پوچھتا ہے ضمیر کی بات کرنے والوں کو پاگل سمجھا جاتا ہے۔ آپ تھوڑا سا ہی غور کریں گے تو ڈر جائیں گے کہ اکثر مسلمان حکمرانوں کی ساری حرکات و سکنات روبوٹس والی ہیں وگرنہ کیا وہ مصر میں السیسی کی مالی اعانت کرتے۔ یہ جو امریکہ کے روبوٹ ہیں انہوں نے اپنی پبلک حتیٰ کہ مذہبی پیشوائوں کو بھی روبوٹ بنا کر رکھا ہوا ہے۔ کہ خطبے میں یہ کہنا ہے اور یہ نہیں کہنا۔ کون سرتابی کرے کہ اس میں سر جاتا ہے۔ چلیے چھوڑیے ہم سب بھی تو مقدر کے ہاتھ میں روبوٹ ہیں کب ہمارا خود پر اختیار ہیں: گردش میں ہم رہے ہیں تو اپنا قصور کیا تونے ہمیں کشش سے نکلنے نہیں دیا