قدسیہ ممتاز کا سوال تھا‘ آپ آنے والے انتخابات کو کس طرح دیکھتے ہیں؟ میرا مطلب الیکشن انجینئرنگ کے بارے میں ہے‘ وہ بھی اس صورت میں اگر انتخابات کا انعقاد ممکن ہو سکے؟ بات دراصل یہ نہیں کہ سوال پوچھنے والے کو اس کا جواب معلوم نہیں۔وہ خود غور و فکر کی عادی‘ وسیع المطالعہ اور حالات کو اچھی طرح جانتی اور سمجھتی ہیں۔یقینا ان کے پاس اس سوال کا جواب بھی موجود ہے‘ شاید وہ مزید تصدیق یا کسی متبادل نقطہ نظر کو دیکھنا چاہتی ہونگی۔ بہرحال یہ ایسا سوال ہے جو کثرت سے پوچھا جا رہا ہے‘ ہر ایک کسی حتمی جواب کی تلاش میں ہے۔ بظاہر آنے والے انتخابی معرکے دو فریق۔ایک عمران خان کی قیادت میں تحریک انصاف‘ دوسرا پی ڈی ایم نامی‘ سولہ سترہ چھوٹی چھوٹی جماعتوں کا اتحاد ۔ اس اتحاد میں نمایاں دو سابق ادوار کی حکمران جماعتیں مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی بھی شامل ہیں‘ اپنے اپنے دور کی دونوں بڑی سیاسی پارٹیاں سمٹ سمٹا کے علاقائی پارٹیاں بن چکی ہیں‘ انتخابی حریفوں کو سادہ نظر سے دیکھا جائے تو اس سوال کا جواب کچھ بھی مشکل نہیں لیکن اس سوال کے جواب کو مشکل بنا دیا ہے‘ ایک تیسرے فریق نے ’’جو صاف چھپتے بھی نہیں‘ سامنے نظر آتے بھی نہیں‘‘ اس تیسرے ’’منہ چھپائے‘‘ کردار نے سب کو الجھا رکھا ہے اسی کردار کی انجینئرنگ کا ذکر بلکہ فکر قدسیہ ممتاز کو بھی ہے۔ یہاں میں قارئین کو ایک چھوٹی سی کہانی سنانا چاہتا ہوں ’’ٹروجن ہارس کی کہانی‘‘ اندر سے خالی بہت بڑے لکڑی کے گھوڑے کی کہانی ہر پڑھے لکھے شخص نے پڑھ یا کم از کم سن ضرور رکھی ہے۔ اس پر لگ بھگ دو دہائی قبل ہالی ووڈ نے فلم بھی بنائی تھی جو بہت بڑی تعداد میں دنیا بھر کے شائقین نے دیکھی‘ ٹرائے کی جنگ حضرت عیسیٰ کے زمانے سے بارہ سو سال پہلے لڑی گئی۔ٹرائے بہت ہی مضبوط فصیلوں میں گھرا ہوا محفوظ شہر تھا‘ ترکی کے اس شہر کو فتح کرنے کے لئے یونانیوں نے بار بار حملے کئے لیکن ہر بار انہیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا‘ کہتے ہیں یونانیوں کا ایک محاصرہ دس برس سے زیادہ عرصہ تک جاری رہا لیکن یونانی فوجیں شہر میں داخل نہ ہو سکیں‘ یونانیوں نے جنگی چال کے طور پر ایک بہت بڑا لکڑی کا گھوڑا بنایا‘ اسے محاصرے کے دوران میدان جنگ میں رکھا گیا‘ ہر کوئی اسے دیکھ سکتا تھا‘ ٹرائے کے شہری بھی فصیل کے اوپر سے اس عجوبے کو دور سے دیکھ کر اس کے عادی ہو گئے۔ایک رات یونانیوں نے اپنے بہترین جنگ جو‘ گھوڑے کے اندر بھر دیے اور اسے میدان جنگ میں چھوڑ کر خود پیچھے ہٹ گئے‘ صبح شہر کے لوگوں نے دیکھا کہ یونانی افواج پسپا ہو گئی ہیں اور وہ میدان جنگ سے بھاگتے وقت اپنا گھوڑا ساتھ نہیں لے جا سکے اور اسے فصیل کے باہر چھوڑ دیا گیا ہے۔وہ اس عجیب و غریب مال غنیمت کو کھینچ کھاچ کر شہر کے اندر لے آئے اور بڑے چوک میں رکھ دیا‘ رات کو جب ہر طرف سکون ہو گیا اور محافظ بھی آرام کرنے لگے تو گھوڑے کے اندر چھپے جنگجو باہر نکل آئے اور انہوں نے اندر سے شہر کے دروازے کھول دیے منصوبے کے مطابق اس وقت تک یونانی سپاہ بھی پہنچ چکی تھیں جو شہر میں آسانی سے داخل ہو گئیں اور انہوں نے ناقابل شکست ٹرائے کو شاید نصف صدی کے بعد آسانی سے فتح کر لیا۔ ہمارے ہاں بھی لکڑی کے گھوڑے میں چھپے جنگجو رات کے اندھیرے میں ہماری سیاسی فصیل میں داخل ہو کر اندر سے دروازہ کھولتے رہے ہیں‘ اب کے بار یہ ہوا کہ جب لکڑی کے گھوڑے کو فصیل کے باہر رکھا گیا تو عمران خان کو اسی وقت شک گزر گیا تھا‘ لکڑی کا گھوڑا شہر کے اندر لے آیا گیا اور محافظوں نے اسے رکھ کر بھول جانے کی بجائے‘ گھوڑے کے نیچے آگ دہکا دی ہے‘ اندر چھپے جنگجوئوں کی حالت بے چارے خود ہی جانتے ہیں جو ان پر گزر رہی ہے۔ ضابطے میں ایک ترمیم کے بعد ایک افسر خود چل کر وزیر اعظم کے پاس آئے اور وزیر اعظم کوانہیں ذمہ داری سے سبکدوش کرنا پڑا‘ راز کھل جانے کے بعد یہ کھیل کھیلنے والوں کے لئے اتنا آسان نہیں رہا۔چھپ کے کھیلنے والے کھلاڑیوں کی بدقسمتی یہ ہے کہ ان کی ’’شیلف لائف ‘ بہت تھوڑے دنوں کی باقی رہ گئی ہے۔تین چار ماہ کے اندر انہیں شیلف سے ہٹا کر ڈبوں میں بند کر دیا جائے گا‘ اس کی جگہ لینے کے لئے نئی مصنوعات تیاری کے آخری مراحل میں ہیں۔ عمران خان کی مقبولیت اور اس کے حریفوں کی بے چارگی ہر کوئی جانتا ہے‘ نتیجہ جاننے کے لئے کسی برہمن کے پاس جانے کی ضرورت نہیں ہے۔ میرا ہاتھ دیکھ برہمنا میرا بچھڑا یار ملے گا کب تیرے منہ سے نکلے خدا کرے اسی ماہ میں اسی سال میں تحریک انصاف اور اس کی قیادت کے لئے ضمنی انتخاب اتنے اہم نہیں جتنے سیاسی حریفوں اور ان کے سہولت کاروں کے لئے ہیں۔ضمنی انتخابات عمران کے لئے ایسا موقع ہے جو وہ اپنے نظریے کو پھیلانے اور اپنے کارکنوں کی تربیت اور انتخابی معرکے کے دائو پیچ سکھانے کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ اسے کوئی جلدی نہیں ہے نہ آنے والے دنوں میں حاصل ہونے والی غیر معمولی کامیابیوں میں کوئی شک ہے۔ حکومت کو چلتا کرنے کے لئے آخری معرکہ اکتوبر میں برپا کرے گا‘ وقت اور میدان کا انتخاب عمران خاں کی صوابدید پر ہے‘ سیاسی حریفوں کے ہاتھ میں پہل کاری ہے نہ سہولت کاروں کے ہاتھ میں۔ رہ گئے دور دراز سمندر بار کے سازشی وہ سب سے زیادہ ہوشیار اور موقع پرست ہیں وہ پیچھے مڑ کر دیکھنے کو بھی تیار نہیں۔انہوں نے نام نہاد حکمرانوں کو بھول بھال کر عمران خاں سے راہ و رسم بڑھانا شروع کر دی ہے کہ قریب تر ہے نمود جس کی۔اسی کا مشتاق ہے زمانہ۔ اکتوبر کے بعد انجینئروں کے پاس انجینئرنگ کا کوئی موقع نہیں ہو گا‘ دبائو اس قدر ہو گا کہ الیکشن کمشنر کو استعفیٰ دینا ہو گا یا عدالتی حکم سے اسے بے دست و پا کر دیا جائے گا۔ابھی سے حکومت اور سہولت کار اس قدر دبائو میں ہیں کہ ان کے حواس مختل اور اعصاب ٹوٹے جاتے ہیں۔ ایاز امیر اور عمران ریاض کے واقعات اعصاب شکن اور ہوش و حواس سے بیگانہ ہو جانے کی زندہ مثالیں ہیں۔ پنجاب اسمبلی کے بیس حلقوں میں ہونے والے انتخابات کے مناظر و نتائج نہیں بلکہ اگلے عام انتخابات کی ایک جھلک سب کو دکھا دیں گے‘ پرجوش ‘ تازہ دم عمران خاں اور ستر (70) فیصد پاکستانیوں کے ساتھ معرکہ آرائی شروع ہونے سے پہلے ہی وکلاء کی سرپرستی میں رجیم چینج نامی سیمینار کی پانچ چھ تقریروں نے ماتھے پر شکست لکھ دی تو مشکل دنوں میں ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے‘ وہ اسی سے پوچھیے جو کھوکھلے گھوڑے میں محصور ہوں اور ان کے نیچے الائو سلگا دیا جائے۔ ’’حساب کتاب جاری ہے اور رہے گا‘‘