4جنوری پیر کے دن مشتاق صاحب کا فون آیا۔ سلام دعا کئے بغیر کہا‘ ایک افسوسناک خبر ہے۔ کیا ہوا؟ رئوف طاہر انتقال کر گئے۔ ایک دھچکا زور دار بدن سے روح تک، پورے وجود میں درد کی لہر اٹھی۔ مرد حضرات میں ایک بڑی خرابی ہے‘ شریک حیات پہلے رخصت ہو جائے تو جنرل حمید گل اجلال حیدر زیدی اور رئوف طاہر کی طرح اس کی جدائی زیادہ دن سہہ نہیں پاتے۔ جبکہ بیویاں شوہر کے بعد اپنے بچوں‘ پوتے‘ پوتیوں‘ نواسے ‘ نواسیوں کے سہارے ‘ برسوں بعض اوقات عشروں جئے جاتی ہیں، ویسے بھی جو سن وسال میں ہم ہیں وہں اَگا آ گیا نیڑے ‘ تے پچھارہ گیا دور‘ رئوف طاہر دیکھنے میں عام سا آدمی تھا لیکن ایسا بھی نہیں کہ اسے نظر انداز کیا جا سکے۔ گزشتہ کالم کی تکمیل کا ارادہ تھا، قلم سنبھالا تو اس کے ساتھ ہی یار دیرینہ کی یاد بھی چلی آئی۔ رئوف طاہر سے پہلی ملاقات آج سے باون برس پہلے ہوئی، جب اس کی عمر سترہ ‘ سولہ برس رہی ہو گی۔ الوداع کہتا لڑکپن‘ استقبال کرتی جوانی، جھجکتا ہوا شرمیلا نوجوان، سادہ نقوش، سادہ تر طور اطوار کالج میں پہلے سال کا طالب علم‘ بہاولنگر کے معروف وکیل کی بیٹھک میں کوئی درجن بھر طالب علم حاضر تھے۔ اگرچہ یہ پہلی ملاقات تھی لیکن یہ سرسری یا رسمی ہرگز نہ تھی۔ ان دنوں سوشل ازم اور اسلام کا زبانی معرکہ زوروں پر تھا‘ ذوالفقار علی بھٹو کی پیپلز پارٹی بننے اور ٹوبہ ٹیک سنگھ میں مولانا بھاشانی کی کسان کانفرنس کے بعد سیاست میں تشدد اور زور زبردستی فروغ پانے لگی تھی‘ جماعت اسلامی کی تربیت اور کالج یونیورسٹیوں میں اسلامی جمعیت طلبہ کا عدم تشدد‘ سرخوں کے حوصلے بڑھا رہا تھا، تب لاہور میں نعمان بٹ اور خلیق ارشد کی قیادت میں ڈیمو کریٹک یوتھ فورس کی بنیاد رکھی گئی، زرعی یونیورسٹی لائل پور کے پروفیسر الطاف الرحمن برق کی قیادت میں مختلف کالجوں کے چند طالب علم لاہور آئے، پرانی انارکلی رانا چیمبر کے پہلو میں یوتھ فورس کا دفتر تھا۔ وہاں پر خلیق ارشد نعمان بٹ سے ملاقات کی اور انہیں پنجاب بھر میں یوتھ فورس کی شاخیں کھولنے کے لئے کہا مگر وہ لاہور سے باہر نکلنے پر آمادہ نہیں تھے۔ان کی اجازت سے ہم نے ازخود فیصل آباد میں اس کام کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ لائل پور کمپنی باغ کے سبزہ زار میں پہلا اجلاس ہوا‘ جلد ہی اخبارات کے ذریعہ اس کی شہرت ملک بھر میں ہونے لگی۔ راقم کو ضلع لائل پور کا پہلا چیئرمین مان لیا گیا، جلد ہی دوسرے شہروں اور قصبوں سے دورے کی دعوت اور تنظیم بنانے پر اصرار ہونے لگا۔ جماعت اسلامی ضلع لائل پور کی قیادت‘ زرعی یونیورسٹی کے ہمدرد اساتذہ اور ڈسٹرکٹ بار کے سرپرست وکلا نے اس تنظیم کو فیصل آباد سے پنجاب بھر میں پھیلانے کا فیصلہ کیا۔ فیصل آباد میں طلبہ کی بہترین متحرک اور منتخب قیادت ہمارے ساتھ شامل ہونے لگی۔ جمیل گل‘ ظفر اقبال‘ نعمت اللہ‘ ثناء اللہ ‘ چودھری شفیق اور بہت سے نامور طلبہ اس کا حصہ بنے‘ یہ صرف طالب علموں تک محدود نہیں تھی۔ دائیں بازو کے غیر طالب علم بھی بڑی تعداد میں اس کا حصہ تھے۔ چنانچہ پنجاب کی تنظیم سازی ہمارے حصے میں آئی اور ضلع فیصل آباد کی قیادت ثناء اللہ خاں کو سونپ دی گئی۔ جمیل گل‘ ظفر اقبال‘ نعمت اللہ خاں‘ ثناء اللہ خان عرف بادشاہ‘ چودھری شفیق اور بہت سے نامور طالب علم ہمارے ہم سفر بنے۔ یوتھ فورس طلبہ کے لئے مخصوص نہیں تھی۔ دیگر شعبہ ہائے زندگی کے نوجوان بھی شریک تھے۔ چنانچہ پنجاب میں تنظیم سازی راقم کی ذمہ داری ٹھہری اور ضلع لائل پور کی قیادت ثناء اللہ خاں کو سونپ دی۔ یوتھ فورس کی سرگرمیاں اخبارات کی زینت بنیں‘ دائیں بازو کے اخبار نویسوں نے اس کی شہرت ملک کے ہر کونے تک پھیلا دی۔ تنظیم سازی کے لئے مختلف اضلاع کے دورے شروع ہوئے‘ ٹوبہ ٹیک سنگھ‘ جھنگ‘ سرگودھا‘ میانوالی ‘ ملتان‘ مظفر گڑھ‘ بہاولپور‘ رحیم یار خاں سے بہاولنگر ۔ رئوف طاہر بہاولنگر یوتھ فورس کے پہلے اجلاس میں شریک تھے‘ نکلتا ہوا قد‘ دبلا پتلا مہین جسم و جان، بدن پر اس زمانے کے طالب علموں والا عمومی لباس، کھلا پائجامہ،اونچی قمیص ،پائوں میں ہوائی چپل‘ تعارفی تقریب ،اغراض و مقاصد کا بیان‘ تنظیم سازی کے طریقہ کار کے بعد ضلع بہاولنگر کے عہدیداروں کی نامزدگی عمل میں آئی تو رئوف طاہر کا نام سیکرٹری اطلاعات کے لئے پیش ہوا، اس لئے کہ وہ شرکاء میں لکھنے پڑھنے سے زیادہ دلچسپی رکھنے والے محنتی نوجوان تھے۔ قریب کے قصبوں اور تحصیلوں کے دورے میں وہ ہمارے شریک سفر رہے۔ وہ بعض دوسرے اضلاع کے عہدیداروں کے برعکس اپنے ضلع میں تنظیمی سرگرمیوں کی اطلاعات اور خط و کتابت میں بڑے باقاعدہ تھے۔ اس طرح ہماری ابتدائی ملاقات نظریاتی ہم آہنگی اور دوستی میں ڈھل گئی۔ ہماری ابتدائی ملاقاتوں کا زمانہ پاکستان اور پاکستانیوں کے لئے بڑا پرتشدد ہنگامہ خیز اور المناک زمانہ تھا، پاکستان میں بھارت کی خفیہ جنگ (پراکسی وار) کے سبب بے گناہوں کا خون بہتا رہا،مدہوش فوجی حکمران عقل و ہوش سے بے گانہ تھے۔ ملک دو ٹکڑے ہو گیا، دونوں حصوں میں بدترین جاہ طلب اور سفاک لوگوں کی حکمرانی کا دور شروع ہوا، مگر پاکستان میں یونیورسٹیوں کے طالب علم مایوس پاکستانیوں کے لئے ڈھارس اور امید کا سبب بن گئے گزشتہ برس کے ہنگامی واقعات کی وجہ سے تعلیمی سال تاخیر سے شروع ہوا، گریجویشن کے بعد پنجاب یونیورسٹی پہنچے تو رئوف طاہر سے ملاقات ہو گئی اور اگلے تمام برسوں میں مستقل اور مسلسل یارانہ رہا۔ بیچ میں کچھ عرصہ کے لئے وہ جدہ سعودی عرب کے اردو اخبار کے ساتھ وابستہ رہے،جدہ جہاں ہمارے بڑے بھائی خالد پہلے سے مقیم تھے اس طرح ان کی پاکستان سے غیر حاضری کا زمانہ بھی غیر حاضر شمار نہ ہوا۔ گزرے سن و سال اور عشروں کی مسافت نے رئوف طاہر کا کچھ نہیں بگاڑا، جیسا اسے بہاولنگر کی پہلی ملاقات میں دیکھا وہ آخر تک ویسا ہی تھا۔ عاجزی انکساری سادگی کے ساتھ شرمیلا مگر بے تکلف پرجوش اور مخلص‘ مجموعی شخصیت کے برعکس اس کی آواز بڑی واضح بلند اور پاٹ دار تھی۔ وہ ان خوش قسمت لوگوں میں تھا جو تقدیر خود بناتے اور اپنی سرنوشت اپنے قلم سے لکھتے۔ اپنی سرنوشت کو اپنے قلم سے لکھ رکھی ہے خامہ حق نے خالی تیری جبیں اس گمنامی اور غربت میں آنکھ کھولی مگر دیانت داری محنت اور ریاضت سے اپنے لئے وہ مقام پیدا کیا کہ پاکستان کے ہر شعبہ زندگی کا قابل ذکر آدمی رئوف طاہر کی شخصیت سے بڑی حد تک جان پہچان رکھتا ہے۔ وطن عزیز میں کتنے لوگ ہیں جن کو سیاست اور صحافت کے ناموروں نے اس چاہت اور شدت سے یاد کیا جس سے رئوف طاہر کا ذکر ہو رہا ہے۔ صحافت اس کی پہلی محبت تھی، پہلی محبت سے اس نے وفاداری سے نبھاہ کی کارکن صحافی کے طور پر اس نے غیر معمولی ریاضت اور جفا کشی سے کام لیا، اس کی یادداشت غیر معمولی تھی، گزرے واقعات کو صحت اور ترتیب سے مرحلہ وار بیان کرنے میں ملکہ حاصل تھا۔ وہ ان واقعات سے نتائج اخذ کر کے موجودہ حالات پر ان کے اثرات اور انطباق کی صلاحیت بھی رکھتا تھا، وہ بیک وقت سیاسی کارکن تھا اور صحافی بھی۔ اس دہری ذمہ داری سے اسے فائدہ پہنچا اور نقصان بھی۔ وہ اپنی یادداشتیں لکھنا چاہتا تھا۔ خیال ہے کہ وہ جلدی میں انہیں ادھورا چھوڑ کے چلا گیا۔ وہ اس لحاظ سے خوش قسمت تھا کہ اسے اپنے زمانے کے بہترین لوگوں سے ربط و ضبط رہا، اسے مشرقی اور مغربی پاکستان کے بڑوں سے براہ راست ملاقات کا شرف ہوا۔ صحافت کے بہترین شخصیات سے فیض پایا اور ان کا ہم رکاب ہوا۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے ساتھ وابستگی نے بھی ان کی تربیت اور اسلوب میں اہم کردار ادا کیا۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی جیسے عبقری اور زمانوں کے استاد سے براہ راست ملاقاتیں کرتا رہا ۔نوابزادہ نصراللہ ‘ پیر پگارہ ‘ ظہور الٰہی ‘ چٹھہ ،پروفیسر غلام اعظم‘ خواجہ خیر الدین سے ملا کرتا، ایس ایم ظفر‘ کے کے بروہی‘ پیرزادہ جیسے جادوگر وکلاء سے ہم کلام ہوا۔ پاکستان کی تاریخ کے بہترین بلکہ اساطیری طالب علم رہنمائوں کے ہم رکاب رہا۔ انہں بنانے سنوارنے میں بھی اس کا حصہ تھا۔ وہ رخصت ہوا،واپس نہ آنے کے لئے، وہاں گیا جہاں سے کوئی رہ جانے والوں سے ملنے نہیں آتا لیکن رہ جانے والے ایک ایک کر کے خود چل کر ملاقاتی ہوں گے۔