پاکستان میں انتخابات کی تاریخ قیام پاکستان سے قبل شروع ہوتی ہے جب 1945ء میں مسلمانوں کو مخصوص نشستوں پہ جداگانہ انتخابات کی آزادی حاصل ہوئی ۔بعد ازاں 1946 ء میں صوبائی انتخابات کے نتائج نے قیام پاکستان کی بنیاد رکھ دی۔ دیکھا جائے تو مسلمانان ہند نے اپنے اس خالص جمہوری حق کا استعمال خالص مذہبی بنیاد پہ کیا ۔مسلم ہے تو مسلم لیگ میں آ،اس وقت کا مقبول بیانیہ تھا ۔تبھی مسلم لیگ نے مسلمانوں کے لئے مخصوص تمام تیس نشستیں اور صوبائی 495 نشستوں میں سے 434 نشستیں جیت کر گویا کلین سوئپ کیا۔ دوسری طرف کانگریس کے ساتھ مسلمانوں کی ہی جمعیت علمائے ہند، مجلس احرار اور دیگر مسلم جماعتوں کا انتخابی اتحاد موجود تھا اورمسلمانوں میں سے ہی ایک معقول تعداد ان کی بھی ہوگی جنہوں نے کانگریس کو ووٹ دیا لیکن مسلمانوں کی اکثریت یا اجتماعی شعور نے ایک سوراخ سے دوبارہ ڈسے جانے سے انکار کر دیا اور مسلم لیگ کے حق میں فیصلہ دیا۔ کہا جاسکتا ہے کہ مسلم ووٹ تقسیم ضرور ہوا لیکن مسلمانوں کی اکثریت نے جو اپنے اکابرین کی کانگریس کے ساتھ اتحاد کو پسند نہیں کرتی تھی ، صرف مذہب کے نام پہ ووٹ دینے کی بجائے ماضی کے تجربوں سے سیکھا اور محمد علی جناح کے کردار پہ اعتماد کا اظہار کیا۔کانگریسی علما کرداراور مذہبی عملیت کے اعتبار سے محمد علی جناح سے زیادہ باعمل اور بہتر مسلمان تھے جو ان کی وضع قطع سے بھی ظاہر تھا۔جناح لندن کا سلا ہوا عمدہ سوٹ زیب تن کرتے اور سگار پیتے تھے۔ شنید ہے کہ کتے بھی پالتے تھے لیکن مسلمانان ہند کو ان کے اخلاص ، قابلیت اور مسلمانوں کے مفادات کا تحفظ کرنے کے معاملے میں ان مذہبی رہنماوں سے زیادہ بھروسہ تھا جو اچکن پہنتے اور فر فر عربی بولتے تھے۔اس وقت کے مسلمان ووٹر کا نفسیاتی تجزیہ کرنے کے لیے ،جس کی نبض پہ ہاتھ رکھنے میں کانگریس کی اتحادی مسلم جماعتیں ناکام رہیں افلاطون ہونا ضروری نہیں ہے۔ یہ ایک سیدھی سادی نفسیات تھی۔ مذہبی بنیاد پہ مسلم لیگ کو ووٹ اور اپنے لیڈر محمد علی جناح پہ مکمل اعتماد۔ اس دور کی تاریخ اپنے اندر ایک علیحدہ تشخص رکھنے والی مسلم قومیت کی جداگانہ نفسیات کے اعلی ترین مظاہرے کے سوا کچھ نہیں ہے۔اس مسلم اقلیت نے ہر وہ راستہ اختیار کیا جو اس کے علیحدہ تشخص کو مذہبی بنیاد پہ بقا عطا کرسکے۔ مسلمانان ہند کو اچھی طرح اندازہ ہوگیا تھا کہ کانگریس ان کے مفادات کا تحفظ کرے گی نہ ہی ان کے علیحدہ تشخص کا اہتمام اس لئے انہوں نے کانگریس سے برات کا جمہوری اعلان کردیا ۔ وہی کانگریس جس کے ساتھ وہ علما کھڑے تھے جو اس حقیقت کا ادراک ہی نہیں کرسکے کہ آئندہ کیا ہونے والا ہے۔ یہ دانش محمد علی جناح کے حصے میں آئی تھی۔مسلمانان ہند اپنے اس اجتماعی شعور کے لئے اسی ایک شخص کے ممنون احسان ہیں جس نے نہ صرف ہوا کا رخ پہچان لیا تھا بلکہ انہیں یہ باور کرادیا تھا کہ کانگریس کے ساتھ ان کا کسی بھی قسم کا اتحاد انہیں کولہو کے بیل کی طرح ایک دائرے میں گھماتا رہے گا۔محمد علی جناح نے اس سٹیٹس کو کو توڑا تھا جس میں ایک طویل عرسے سے مسلمان مبتلا تھے اور آج آزاد ہندوستان میں مسلم اور دیگر اقلیتوں کی حالت زار اس کی گواہ ہیں کہ محمد علی جناح کو اللہ نے کیسی نگاہ عطا کی تھی۔ ادھر جنگ عظیم دوم کے خاتمے کے بعد سامراجی برطانیہ اور سپر پاورامریکہ دونوں کی عافیت اسی میں تھی بر صغیر میں ابلتے ہوئے اس آتش فشان کو انتخابات کا راستہ دکھا دیا جائے۔مسلم خون میں خلافت کی خوشبو تو آج تک باقی ہے وہ تو پھر تحریک خلافت کا دور تھا اوررستے ہوئے زخم ابھی تازہ تھے۔ سونے پہ سہاگہ یہ کہ مسلم امہ ابھی قحط الرجال کا شکار نہیں ہوئی تھی۔ مولانا ابو الکلام آزاد اور جمعیت علمائے ہند کے بھاری بھرکم عالموں کی موجودگی میں بھی مسلما ن شاید اگلی کئی صدیاں اس غلامی میں گزار دیتے اگر محمد علی جناح نے عوامی شعور کو کانگریس سے علیحدگی کی راہ نہ دکھائی ہوتی۔ یہ ایک حیرتناک مظاہرہ تھا۔ مسلم لیگ کی واضح کامیابی نے اس علیحدہ راستے پہ ووٹ کی مہر لگادی تھی۔ اگر مسلمانان ہند اپنے علما کی طرح کسی خوش فہمی کا شکار رہتے تو آج متحدہ ہندوستان میں دلتوں سے بدتر زندگیاں گزار رہے ہوتے جبکہ وقت نے ثابت کیا کہ آئندہ آنے والے برسوں میں قحط الرجال اپنے عروج کو پہنچا۔ بڑے لیڈر فنا ہوگئے اور بونے ان کی قبروں کے مجاور بن بیٹھے۔ایسا ہم نے قیام پاکستان کے فورا بعد دیکھا جب 1951 ء میں مارچ میں صوبہ پنجاب کے اور اسی سال دسمبر میں صوبہ سرحد کے انتخابات ہوئے جن میں لٹے پٹے مہاجروں اور اپنے پیروں پہ کھڑے ہونے کی مساعی کرنے والے ووٹروں کی قلیل تعداد موجود تھی ۔ اس وقت کس نام پہ ووٹ مانگے گئے یا ووٹر کس موڈ میں تھا اس کا مجھے علم نہیں لیکن اپنے قیام کے صرف چار سال بعد ایک ایسی مملکت میںجہاں ایک بڑی آبادی خون کے دریا عبور کرکے آئی ہو، محدود انتخابات کی بھی کیا ضرورت تھی، یہ کوئی بتا سکے تو ضرور بتائے۔ سن تریپن میں سندھ اسمبلی کے انتخابات میں مسلم لیگ کو اکثریت حاصل ہوئی۔اس کے بعد سن چون میں جو انتخابات ہوئے اس نے ووٹرو ں کی نفسیات کھول کر رکھ دی کیونکہ مشرقی پاکستان میں بنگلہ قومیت کے نام پہ بننے والے جگنو فرنٹ کو کامیابی حاصل ہوئی اور مسلم لیگ کو پہلی بار جھٹکا لگا۔ یہیں بنگلہ کو قومی زبان کا درجہ دینے یا نہ دینے کاجھگڑا اٹھا اور قیام پاکستان سے قبل مسلم قومیت کی بنیاد پہ ووٹ دینے والے قومیت اور زبان کے نام پہ ووٹ دینے لگے۔ کیا وہ ووٹر جو اپنے مذہبی تشخص کے بارے میں قیام پاکستان سے قبل حساسیت کا شکار تھا اب اس خوف سے باہر آگیا تھا اور اپنی قومیت کے تشخص کے متعلق خوف میں مبتلا ہوگیا تھا؟ابھی سانحہ مشرقی پاکستان بہت دور تھا لیکن تقسیم کا زہر اگلا جاچکا تھا۔ یہ عجیب بات ہے کہ سن چھپن میں بننے والے سرکاری انتخابی کمیشن نے اعتراف کیا کہ قیام پاکستان کے بعد سات سال تک ہونے والے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی۔اس طرح کہا جاسکتا ہے کہ جگنو فرنٹ کی مسلم لیگ کے مقابلے میں کامیابی اسی جھرلو کا نتیجہ تھی اور ہاں یادش بخیر، پاکستا ن میں سب سے صاف ستھرے اور متفق علیہ انتخابات ایک جنرل نے سن ستر میں کروائے جس کے صرف ایک سال کے اندراندر پاکستان ٹوٹ گیا۔ایک طرف ووٹر کے لئے روٹی کپڑا اور مکان کا نعرہ تھا تو دوسری طرف بنگلہ قومیت کا فریب۔بعد از خرابی بسیار سن ستتر میں قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے جو عام انتخابات کروائے اس میں بدترین دھاندلی ہوئی اور متحدہ اپوزیشن نے صوبائی انتخابات کا بائیکاٹ کردیا۔ پانچ جولائی کو تاریخ کا بدترین دن کی دہائیاں دینے والے بھول گئے کہ ستتر کے انتخاب میں قائد جمہوریت نے کیسا جھرلو پھیرا تھا کہ آج تک الیکشن کمیشن ایک مذاق بنا ہوا ہے اور پانچ جولائی کی بنیاد تو انہوں نے خود رکھی تھی۔ آج بھٹو کو اپنا پسندیدہ رہنما قرار دینے والے سراج الحق صاحب غالباً بھول گئے ہیں کہ ان کے اکابرین میاں طفیل محمد ، جان محمد عباسی اور ڈاکٹر نذیر شہید کے ساتھ ان کے ممدوح نے کیا سلوک کیا تھا ۔ ان کی پسندیدگی کی وجہ یہی رہی ہو تو الگ بات ہے۔اس کے بعد گیارہ سالہ مارشل لا کی ایک تاریخ ہے جس میں دم توڑتی مسلم لیگ کو جنرل ضیاء الحق نے گود لے کر نئے سرے سے پروان چڑھایا جس کا بھگتان آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ اس دوران پاکستانی ووٹر کے اندر تقسیم در تقسیم کی نفسیات نے جنم لیا۔ برادری، ذات، مسلک ، سرمایہ ووٹر کو راغب کرتے رہے۔ سندھ میں مہاجر ووٹ اسی بنیاد پہ الگ ہوگیا جس بنیاد پہ سن ستر میں ہوا تھا۔ یعنی قومیت اور لسانیت۔برسوں گزر گئے لیکن ووٹر کی حالت میں کوئی فرق نہ آیا کیونکہ اس کی نفسیات میں فرق نہیں آیا تھا۔ اس بار کچھ ٹھنڈی ہوا چلی ہے۔ ووٹر کی نفسیات بدلی ہے۔ اب وہ سوال کرنے لگاہے ۔ اب اسے روٹی کپڑا اور مکان کے پرفریب نعرے پہ نہیں ٹرخایا جاسکتا ۔ اسے تعلیم انصاف اور صحت درکار ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بلاول بھٹو کو اپنا نعرہ بدلنا پڑا ہے۔اپنے حلقوں میں جانے والے امیدوار انڈے اور ٹماٹر کھا کر واپس آرہے ہیں۔نان جویں پہ بک جانے والے ووٹر کو آج زبانی یاد ہے کہ اس کے نومولود پہ کتنا غیر ملکی قرضہ ہے اور کس کی وجہ سے ہے۔ اسے یہ بھی علم ہے کہ ڈالر اڑان کیوں بھر رہا ہے اور لندن میں بیٹھا مفرور مجرم اسحاق ڈار اس کا ذمہ دار ہے۔ وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اس کے ٹیکس کا پیسہ کس کی جیب میں جاتا ہے۔ ووٹر کے اس شعور کی اس بیداری کا سہرا ایک ہی شخص کو جاتا ہے اور وہ عمران خان ہے۔آپ مانیں یا نہ مانیں۔ ووٹر آپ منوا لے گا۔