علامہ اقبال ایک روز راوی کے کنارے تشریف لے گئے ۔دریا میں جتنا پانی بہہ رہا تھا اقبال کی فکر کا بہاو اسی قدر تند : سکوت شام میں محو سرود ہے راوی نہ پوچھ مجھ سے جو ہے کیفیت مرے دل کی سامنے جہانگیر کے فرزند کامران سے منسوب بارہ دری۔اقبال کے زمانے کا راوی اب باقی نہیں۔یہاں کے کنارے اجڑ چکے ۔ بارہ دری کی باقی ماندہ عمارت نظر آ رہی ہے۔پانی کا بہاو شدید ہو تو بارہ دری کو کاٹنے لگتا ہے ،کم ہو تو گندگی کی سطح چڑھنے لگتی ہے ۔اب جو سیلابی ریلہ آیا تو راوی پارک کی گھاٹی اور راوی پل کے اردگرد ہمیشہ نظر آنے والی گندگی اور تعفن دریا چڑھنے سے بہہ گیا ہے۔ عام دنوں میں بدرو کی شکل اختیار کرنے والا راوی آج کل جوبن پر نظر آتا ہے۔پھر سے دریا نظر آتا ہے ۔یہ وہی راوی ہے جس کے کنارے رگ وید لکھے گئے‘1500 سے 1000 قبل مسیح کا زمانہ ،آج سے ساڑھے تین ہزار پہلے کی بات کر رہا ہوں۔آخر کوئی تو بستی یہاں تھی جہاں کے مہاتماوں نے وید لکھے ،لاہور نہ سہی کوئی اور نام دے دیں۔ ابتدائی ویدک دور کو رگ ویدک دور کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس دور میں، ہند آریائی لوگ زیادہ تر گلہ بانی سرگرمیوں، چھوٹی معیشت کے ساتھ محدود زراعت سے منسلک تھے۔ ان کی دولت کا حساب ان کے مویشیوں کی تعداد کی بنیاد پر کیا جاتا تھا۔ انہوں نے شمالی ہندوستان میں مستقل طور پر آباد ہونے کے بعد زراعت شروع کی۔راوی کے گیت اور کہانیاں شائد اسی زمانے میں تخلیق ہونے لگی تھیں ، زبان کا اثاثہ بھارت منتقل ہوا تو پچھلی پون صدی میں راوی اور لاہور کو کچے پکے مورخین نے نشانے پر لے لیا۔ پرانی روایت کے مطابق، وید ویاس نے مہابھارت اور پرانوں کے ساتھ چاروں ویدوں کو بھی مرتب کیا۔ ویاس نے پھر پائلا کو رگ وید پڑھائی، پائلا نے اس کی زبانی روایت شروع کی۔ابتدائی ویدک آریوں کا مذہب بنیادی طور پر فطری مظاہر کی پوجا کا تھا ۔ وہ فطری قوتوں کی تعظیم کرتے تھے۔راوی کنارے سورج دیوتا کے مندر کی روایت کو اس تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے، اچھرہ میں چاند کا مندر تھا۔ویدک دیوتا بنیادی طور پر اندرا، اگنی ، سوما، مترا ، ورون، آریمان، بھاگا اور امسا تھے۔ وہ قدرتی دیوتاؤں جیسے سوریہ (سورج)، وایو (ہوا) اور پرتھوی (زمین) کی پوجا کرتے تھے۔ ندیوں خاص طور پر سرسوتی کو دیوی کے طور پر پوجا جاتا تھا۔پارُشنی دریائے راوی کا رگ ویدک نام ہے۔ راوی کو ویدک زمانے میں ہندوستانیوں کے لیے پارشنی یا اروتی کے نام سے جانا جاتا تھا ۔ قدیم یونانی راوی کو ہائیڈروٹس کے نام سے جانتے تھے۔راوی مذکر نام ہے اور اس کا مطلب سورج ہے۔ رگ ویدوں والے قدیم اور مقدس راوی کی موت ہمارے سامنے ہو رہی ہے لیکن آج بھی خوشونت سنگھ اور کلدیپ نائر جیسے قدردان اپنے لواحقین کو وصیت کرتے ہیں کہ ان کی خاک لاہور جا کر راوی میں بہائی جائے۔ راوی ہما چل پردیش کے ضلع کانگڑہ کی تحصیل ملتھن سے شروع ہوتا ہے۔ مادھو پور کے مقام پر ضلع پٹھانکوٹ پنجاب میں داخل ہونے سے پہلے راوی بارہ بھنگل ‘ بارہ بنسواور چمبہ کے ضلعوں سے گزرتا ہے۔راوی وادی سندھ کی تہذیب کا سرچشمہ ہے۔تہذیب کوجانے سندھ کا نام کیوں دیا گیا حالانکہ ہڑپہ راوی کنارے ہے۔ راوی اور جہلم چناب میں ملتے ہیں‘ بیاس ستلج میں ملتا ہے‘ ستلج پھر چناب میں پنجند کے مقام پر ملتا ہے۔ میں نے دریائے راوی کا ایک عاشق تلاش کر رکھا ہے۔ یاسین رضا شاعر ہیں ،جماعت اسلامی کے خیر خواہ ہیں،پچھلے پچپن سال سے روزانہ دریا کنارے نشست کررہے ہیں۔ میری ایک کتاب میں ان کی نظم شامل ہے: ’’سمندی بلائیں تھیں جو خشکیوں پہ آ گئیں‘‘۔یاسین رضا بتا رہے تھے کہ دنیا کے جتنے خوبصورت شہر ہیں وہ دریا کنارے آباد ہیں۔ساٹھ کی دہائی تک راوی کاپانی صاف تھا۔ آبی پرندوں کا یہ مسکن تھا، یاسین رضا کے توجہ دلانے پر میں نے تلاش کی تو معلوم ہوا راوی کا کنارہ دو سو پرندوں، درندوں،چرندوں اور کیڑوں کا ٹھکانہ تھا۔ یہ کنارہ کبھی آریاوں کے پروہتوں ،کبھی بدھو گیانیوں اور کبھی ہندو جوگیوں کا ڈیرہ رہا۔یہاں مسلمان فقرا کی نشست گاہیں ہیں‘ کئی درویش چراغی جلائے بیٹھے رہے۔ایک نظر دیکھتا ہوں تو سب تاریخی منظر گم ہو جاتے ہیں،بس کیچڑ، بد بو اور ویرانی کے ماحول میں کچھ ملاح رہ جاتے ہیں جن کے تھکے کندھے روزی روٹی کی مشقت اٹھاتے ہیں۔ یاسین رضا بتا رہے تھے کہ بابایوسف فالودے والے نے یہاں 25سال ڈیوٹی دی‘بابا ریڑھا بھر کر کلیجی، پھپھرے روز کھچوئوں کو ڈالتا‘ مٹھائی کیڑوں کو ڈالتا اور پھولوں کے ہار دریا کے پانی کے گلے ڈالتا۔ دریائے راوی 3 محکموں کی ذمہ داری میں آتا ہے۔ریت نکالنے کا ٹھیکہ محکمہ معدنیات لیتا ہے۔یہ ٹھیکہ کروڑوں روپے سالانہ کا ہوتا ہے،کئی بار اس منافع بخش ٹھیکے پر نوبت قتل و غارت تک آ جاتی ہے ۔کنارے کے قریب درختوں کے ذخیرے جنگلات کے ماتحت ہیں‘محکمہ جنگلات کا کام اب درخت لگانا نہیں رہا ۔ذخیرے اجڑ چکے ،جو چند پیڑ رہ گئے انہیں کاٹنے والے بے خوف ہو کر اپنا کام کر رہے ہیں۔زمین بے شجر کر کے قبضہ گروپوں کے لئے صاف کر دی جاتی ہے،دریا کی حدود میں آبادیاں بننے میں اسی محکمہ کا قصور ہے۔ کشتیوں کا ٹھیکہ کارپوریشن لیتی ہے۔راوی سے محبت کرنے والے پوچھ رہے ہیں کہ کیا کروڑوں کے ٹھیکے راوی میں گندا پانی پھینکنے کے لئے ہوتے ہیں۔کھوکھر ٹائون کے پاس گندے پانی کو پراسس کرنے کا ایک منصوبہ تھا جو مدت سے ادھورا پڑا ہے۔ راوی میں قانونی طور پر فیکٹریوں کا پانی نہیں گرایا جا سکتا‘ لیکن شاد باغ سے لے کر ستوکتلہ ڈرین تک فیکٹریوں کا کیمیکل ملا پانی آبی جانوروں کو مار رہا ہے۔یاسین رضا بتاتے ہیں کہ لاہور کے قریب راوی میں سیلاب کا کبھی خطرہ نہیں ہوتا ، مدتوں پہلے اس خطرے سے بچاو کر لیا گیا ۔حالیہ دنوں پانی کی سطح بلند ہوئی ،سرکاری لوگوں نے سیلاب کا شور مچا دیا۔ایسا فراڈ ہر سال کیا جاتا ہے کہ سیلاب نہیں آتا لیکن محکمے فلڈ کا شور مچا کر فنڈز ہڑپ کر لیتے ہیں۔دریا کنارے کچھ ٹینٹ لگا کر لوگ بٹھا دئے جاتے ہیں۔دریا اس وقت بھی اپنے کناروں کے اندر ہے۔(جاری ہے)