زیادہ ٹرینیں چلانے کا شوق شیخ رشید اور ریلوے کو لے ڈوبا۔ریل کے نظام کی بنیادی سمجھ رکھنے والے بھی جانتے ہیں کہ شیخ رشید ریلوے کے ساتھ کیا ظلم کر رہے ہیں۔شیخ رشید کے دل میں 136 ٹرینیں چلانے کا شوق پیدا ہوا۔نئی ٹرینیں چلانے کے لیے کوچز اور انجن دستیاب نہیں تھے مگر ریلوے کو ٹرینیں چلانی تھیں ۔ سٹاف نہیں تھا مگر ٹرینوں کی تعداد بڑھانا تھی۔ انفراسٹرکچر نہیں تھا۔ اب سمجھنے کی بات یہ ہے کہ 136 ٹرینیں چلانے کے لیے ریلوے نے کیا کیا اور اس سے ریلوے کا نظام کیسے تباہ ہوا۔ پہلے ہر ٹرین کی ایک اضافی گاڑی ہوا کرتی تھی۔ مثلا تیز گام ایکسپریس کو ہی لیجیے ۔ایک پشاور سے کراچی جارہی ہے ، دوسری کراچی سے پشاور آ رہی ہے جبکہ بیک اپ میں ایک گاڑی موجود رہتی تھی ۔ منزل پر پہنچنے کے بعد ہر گاڑی روٹین چیک اپ کے لیے ورکشاپ چلی جاتی ہے اور انجن کو انجن شیڈ بھجوا دیا جاتا ہے تاکہ سفر کے دوران پیدا ہونے والی خرابی کو دور کیا اور اگلے سفر کے لیے فٹ قرار دیا جا سکے۔ اس کے علاوہ اگر کسی گاڑی میں کوئی مسئلہ رپورٹ ہوا ہے ، بجلی کے تاروں سے بدبو آنے کی اطلاع ہے ، ایمرجنسی زنجیر ٹھیک سے کام نہیں کر رہی یا دروازے جام ہوگئے ہیںجو کسی نا گہانی صورت میں باہر نکلنے میں رکاوٹ بن سکتے ہیں، ورکشاپ میں ان سب مسائل کو دور کیا جاتا ہے۔ پہلے یوں تھا کہ اگر گاڑی کو مکمل فٹنس کے لیے وقت درکار ہے تو پہلے سے تیار اضافی ٹرین کو مقررہ وقت پر روانہ کر دیا جاتا تھا۔ لیکن زیادہ ٹرینیں چلانے کے شوق کا پہلا شکار ہوئیں یہی اضافی ٹرینیں جنہیں نئے نام دے کر نئے روٹ پر چلا دیا گیا اور بڑی ٹرینوں کا بیک اپ ختم کر دیا گیا۔ اس سے ہو ا یہ کہ جو گاڑی کراچی سے آئے گی، جھاڑ پونچھ کے بعد وہی واپس جائے گی، چیک اپ کا ٹائم نہیں ہے تو بھی اسی کو وقت پر جانا ہے۔ زنجیر کام نہیں کر رہے تو بھی اسی کو وقت پر جانا ہے ۔بریک پوری طرح چیک نہیں ہو سکے تو بھی اسی کو جانا ہے۔مسافر گھنٹوں سے اسٹیشن پر کھڑے ہیں ، ٹرین کی فٹنس جانچنے والے عملے پر دباؤ ہے کہ مسافر ہنگامہ کر رہے ہیں، جلدی ٹرین نکالو، اسے روانہ کرنا ہے۔ یوں عملے کے لیے عملی طور پر ممکن نہیں رہا ہے کہ گاڑیوں کی فٹنس کو یقینی بنائے لہذا بہت سے مسائل نظر انداز ہونے لگے اور گاڑی اپنے مسائل کے ساتھ ہی اگلی منزل کی جانب روانہ ہونے لگی۔اس سے یہ بھی ہو ا کہ ایک گاڑی اگر ایک بار آٹھ گھنٹے لیٹ ہو گئی تو اگلے کئی ہفتے تک اوقات درست نہ ہوسکے اور تاخیر معمول بن گئی۔ دوسرا مسئلہ یہ ہوا کہ جب بیک اپ گاڑیاں بھی 136ٹرینوں کو پورا نہ کر سکیں تو مزید کوچز کی تلاش ہوئی،ڈھونڈ کر لائی گئیں وہ 137 کوچز جو بے نظیر کی شہادت کے موقع پر جلادی گئی تھیں ۔ جل جانے کے باعث ان کی سسپنشن شدید متاثر ہوئی تھی، لچک ختم ہوگئی تھی اور ٹھیک ہونے کے بعد بھی وہ پورے اعتماد کے ساتھ پٹڑی پر دوڑنے کے قابل نہ تھیں ۔ایسی گاڑیوں کے پٹڑی سے اترنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیںجن کی سسپنشن ٹھیک نہ ہو ۔مگران فٹ گاڑیوں کو رنگ و روغن کر کے ، سجا سنوار کے اچھے اچھے نام رکھے گئے اور پٹڑی پہ ڈال دیا گیا ۔اب ان کی مرضی وہ جب چاہیں پٹڑی سے اتریںاور جب چاہیں بریک لگانے سے انکار کر دیں ۔زنجیروں اور بجلی کے نظام کا بوسیدہ ہونا ، ایمرجینسی راستوں کا نہ کھلنا اور فائر فائٹینگ آلات کا نصب نہ ہونا تو بہت بعد کی بات ہے ۔ بجائے اس کے کہ وہ گاڑیاں جو اپنی 35 سالہ طبعی عمر پوری کر چکی ہیں انہیں تبدیل کیا جاتا ، فائر فائٹنگ آلات نصب کیے جاتے،خطرناک ساما ن ساتھ نہ لے جانے کے لیے چیکنگ کا مربوط نظام بنایا جاتا، ان سب کی بجائے ٹرینوں کی تعداد بڑھا کر پہلے سے کمزور نظام کو مزید کمزور کر دیا گیا۔ ایک اور مسئلے کو ریلوے نے بالکل نظر انداز کر دیا۔ نئی ٹرینیں چلانے کے لیے نئے عملے کی ضرورت تھی۔ یہاں تک کہ ماضی میں ریٹائرہو جانے والے عملے کا متبادل بھی ریکروٹ نہیں کیا گیا۔گینگ مینوں کو ہی لیجئے۔ یہ بیس بیس آدمیوں کی وہ گینگ ہوتی ہے جس کی ذمہ داری ٹریک کو درست حالت میں رکھنے کی ہے۔یہ لوگ ٹریک کی مرمت ، گاڑیوں کی تھرتھراہٹ کو جذب کرنے والے پتھروں کی مناسب مقدار میں موجودگی اور اس جیسی دوسری چیزوں کا خیال رکھنے کا کام کرتے ہیں۔ خان پور سے ٹنڈو آدم کے بیچ یہ گینگ مین کم ہوتے ہوتے تقریبا ختم ہو کر رہ گئے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ زیادہ تر حادثات بھی اسی راستے پر ہو رہے ہیں۔کم ہیومن ریسورس کے ساتھ زیادہ ٹرینیں چلانے کے باعث ڈرائیورز ، اسٹیشن ماسٹرز، ٹیکنیشنز، انجینئرز، گارڈ ز اور مزدوروں کا کام بھی بڑھ گیا ہے جس کی وجہ سے ہیومن ایررز پیدا ہو رہے ہیں ۔ اسٹیشن ماسٹرنے کام کی زیادتی کی وجہ سے پروٹوکول پر گرفت ڈھیلی کی ، کانٹا چیک نہ ہوا ، گاڑی دوسری پٹڑی پہ چڑھ گئی اور ہیومین ایرر پیدا ہو گیا۔یہ جو کسی حادثے کے بعد سادگی سے فرما دیتے ہیں کہ یہ ہیومن ایرر یعنی انسانی غلطی ہے ، یہ انسانی غلطی زیادہ کام کی وجہ سے ہی وقوع پذیر ہو رہی ہے۔ بغیر کسی انکوائری کے فیصلہ صادر کر دیا گیا ہے۔ فرما دیا ہے کہ ریلوے کا نہیں، سلنڈر لانے والے مسافر کا قصورہے ۔ گویا اب وزیر ریلوے کے ماتحت ہونے والی اس انکوائری کا نتیجہ اس کے سوا نکلنا ممکن نہیں۔ٹی وی پرخبر چلی کہ وزیر اعظم عمران خان نے وزیر ریلوے کو فون کر کے افسوس کا اظہار کیا۔ وزیر اعظم صاحب! افسوس ہے آپ کے اس اظہار افسوس پہ اور افسوس ہے آپ کی ٹیم کے انتخاب پہ۔ شیخ رشید باتوں کے ماہر ہیں، بھانت بھانت کی بولیاں بلوا لیجیے ، مخالفین پر طرح طرح کے جملے کسوا لیجیے، لوگوں کا مذاق اڑوا لیجیے ، یہ کام ان سے اچھا کوئی نہیں کر سکتا ۔ریلوے ایک ایسی وزارت ہے جہاں کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ باتیں بنانے سے کافی کام چل جائے گا۔مگر ریلوے کاٹ دار جملوں اور لچھے دار گفتگوسے نہیں چلتا ۔ آپ بیٹنگ آرڈرمیں تبدیلی کی بات کرتے ہیں ۔ریلوے کو تباہ ہونے سے بچائیے۔