ڈیرہ غازی خان کی ادبی فضا قیام پاکستان کے بعد بڑے عروج پر رہی حضرت مومن خان مومن جو غالب کے ہم عصر تھے اُن کے سلسلہ شاگردی سے تعلق رکھنے والے عامل مھتراوی جب ہندوستان کے علاقہ متھرا سے ہجرت کر کے آئے تو اُنہوں نے یہاں پر آکر اپنی شاعری کو پوری آب تاب کے ساتھ جاری رکھا ۔ڈیرہ غازی خان ہی نہیں بلکہ ملک کے نامور شاعر کیف انصاری عامل متھراوی کے شاگرد تھے ۔کیف انصاری ادبی دف بندی میں ڈاکٹر وزیر آغا کے ساتھی تھے کیونکہ آج سے کچھ عرصہ قبل لاہور میں شعراء حضرات اور دانشوروں کی دو دف بندیاںپورے عروج پر تھیں جن میں ڈاکٹر وزیر آغا اور احمد ندیم قاسمی مد مقابل ہوا کرتے تھے۔ ڈاکٹر وزیر آغا سرگودھا میں بیٹھ کر اوراق نکلا کرتے تھے ۔ جبکہ احمد ندیم قاسمی لاہور سے فنون جاری کیا کرتے تھے یہ دونوں اپنے زمانہ میں بڑے ادبی پرچے شمار ہوتے تھے اِن دونوں حضرات کی وجہ سے مختلف شہروں میں رہنے والے شعراء حضرات بھی انہی کے نیچے دف بندی بنا کر رہتے تھے۔ ڈیرہ غازی خان میں مقامی بڑے شعرا میں شفقت کاظمی حضرت حسرت موہانی کے شاگرد تھے ۔ حسر ت موہانی برصغیر میں رئیس الغزل مشہور تھے جبکہ ہندوستان کی آزادی کیلئے بھی اُن کی خدمات ناقابل فرامواش ہیں۔ حسرت موہانی شاعر ہو کر ایک انقلابی رہنما بھی تھے اور اُنہوں نے ہندوستان کی آزادی کیلئے سب سے زیادہ جیل کاٹی تھی۔ بابائے قوم حضرت قائد اعظم بھی حسرت موہانی کا بہت زیادہ احترام کیا کرتے تھے۔ آپ آئے تو سہی گورے غربیاں کی طرف بے کسی بڑھ کر بتا دے گی پتہ میرا سید شفقت کاظمی ڈیرہ غازی خان ادب کی بہت خدمت کرتے رہے پھر ندیم جعفری ، سید مخدوم صاحب، شاہ مرحوم واقف قادری ،رفیع خاور جسکانی جو تحصیلدار ہونے کے ساتھ بڑے شاعر بھی تھے۔ مرحوم محسن نقوی اور رفیع خاور جسکانی کی آپس میں نہ بن سکی حالانکہ ایک زمانہ میں محسن نقوی رفیع خاور جسکانی کے ساتھ بڑی عقیدت رکھتے تھے لیکن بعدمیں یہ ادبی دشمنی میں تبدیل ہو گئی۔ محسن نقوی نے 1978ء میں ڈیرہ غازی خان کو خیر باد کہ دیا تھا ۔ مرحوم محسن نقوی کہا کرتے تھے کہ جینا لاہور کا اور مرنا ڈیرہ غازی خان کا۔ محسن نقوی بلا شبہ ایک بڑے شاعر تھے ۔ لاہور میں وہ مختلف اخبارات کے ساتھ وابستہ صحافیوں کے ساتھ بڑے ا چھے تعلقات بنا کر رکھتے تھے۔ حسن رضوی جو ایک بڑے اخبار کے ادبی صفحہ کے ا نچارج تھے وہ اُن کے ذاتی دوست تھے محسن نقوی گروہ بندی کا شکار بھی رہے۔ ڈیرہ غازی خان میں اُن کے مد مقابل کیف انصاری تھے کیف انصاری کا اصل نام خیر محمد تھا جن کے آبا و اجداد جراح گری کے پیشہ سے وابستہ تھے وہ ان پڑھ ہونے کے ساتھ اُردو ادب پر گہری نظر رکھنے والے ا یک بڑے ذہین شاعر تھے۔ قرآن پاک پڑھے ہوئے تھے پھر اِسی کی برکت سے اُردو ادب میں بھی نامور ہو گئے۔ ڈیرہ غازی خان میں غرب اخبار کے مقامی دفتر میں بانی غرب مرحوم عبدالرحیم غوری اور اُن کے فرزندہ مرحوم افتخار غوری نے مشاعروں کی روایت کو زندہ رکھا۔ دفتر غرب میں ہر ہفتے مشاعرے ہو اکرتے تھے جبکہ محسن نقوی اِن مشاعروں کے روح رواں ہوا کرتے۔ اُن کے ساتھ پروفیسر شریف اشرف بھی اِن مشاعروں میں شرکت کیا کرتے ۔ پروفیسر شریف اشرف بھی اُردو اور فارسی ادب کے ایک نامور شاعر ہیں ۔ ڈیرہ غازی خان میں آج سے 30 برس قبل راجپوت ہوٹل کا بڑا نام تھا جہاں پر صحافی اور شعراء حضرات اکٹھے ہوا کرتے تھے ڈیرہ غازی خان کے نامور صحافی فیاض چوہدری مرحوم جو کہ شاعر بھی تھے اُن کا اصل نام محمد عظیم خان لاشاری تھا جبکہ پہلا تخلص عاصی تھا بعد میں فیاض حیدری بن گئے اُنہوں نے بھی1970ء کی دہائی میں راجپورت ہوٹل میں بڑے مشاعرے منعقد کرائے جن میں خانزادہ ایک بڑی دولت مند ادبی شخصیت کا تعاون ہوا کرتا تھا۔ راجپوت ہوٹل کے اِن مشاعروں میں مقامی شعرا میں سے کیف انصاری ، سلیم فراز ، انجم صہبائی ، آغا اعجاز اکرم ، محسن نقوی ، وحید تابش وغیرہ شرکت کیا کرتے تھے ا سی طرح سرائیکی شعراء کا مرکز موٹا بازار (پتھر بازار) تھا کہ جہاں پر نور محمد سائل ، اُستاد رفینا ، علامہ غلام حسین زاہد ،نور محمد فیضی، رمضان طالب ، کاشف چوہان ، عزیز شاہد ، واجد محمود واجد ، شفیع شہرت وغیرہ جیسے شعراء اپنی شاعری کے رنگ نکھارا کرتے تھے۔ پتھر بازار میں سرائیکی شعرا اکٹھے ہو کر اپنا کلام سنایا کرتے تھے جہاں پر بلوچی جھومر کا مظاہرہ بھی کیا جاتا وہ خوشیوں کا زمانہ تھا یہاں کے لوگ تھوڑے سے رزق پر راضی بہ رضا ہوا کرتے تھے۔ ساون کا مہینہ شروع ہوتے ہی لاہوریوں کی طرح ڈیرے وال بھی دریائے سندھ کے ساتھ چلنے والی نہر دھینگا اور شوریہ کا رخ کیا کرتے جہاں پر شعر و شاعری کے ساتھ دیسی کشتیوں کے مقابلے بھی ہوا کرتے لاہوری بھی اِسی ساون کے مہینے میں دریائے راوی کا رخ کیا کرتے تھے ویسے بھی لاہور میں بارش بہت زیادہ ہوتی ہے اور ساون کے مہینہ میں تو لاہور میں ہر دوسرے روز بارش ہوتی ہے۔ ڈیرہ غازی خان میں 1995ء میں میونسپل کمیٹی کے حال راقم المعروف نے اپنے اُستاد محترم پروفیسر ڈاکٹر امتیاز بلوچ کے ساتھ مل کر پروفیسر شریف اشرف کے ساتھ دن کے 2 بجے ایک ا دبی شام بھی منا چکے ہیں اِس ادبی تقریب میں ملتان سے روزنامہ نوائے وقت کے ریذنڈنٹ ایڈیٹر مرحوم شیخ ریاض پرویز نے خصوصی شرکت کی تھی جبکہ ا ُن کے ساتھ ا دبی صفحہ کے انچارج سید عارف معین بلے بھی آئے تھے۔ پروفیسر شریف اشرف کے ساتھ یہ ایک بھرپور ادبی تقریب تھی جس میں اُنہوں نے اپنی مشہور غزل ’’سندر ہاتھ سنہری زلفیں ‘‘ بھی سنائی تھی ۔ اسی طرح مرحوم طاہرہ سوز اور کیف انصاری کے ساتھ یہ ایک شام اُستاد فیاض حیدری کے دفتر میں بھی منائی گئی تھی جبکہ اِس سے قبل اِسی دفتر سلیمان میں فیاض حیدری نے سید محسن نقوی کے ساتھ بھی ایک محفل مشاعرہ کی نشست رکھی تھی۔ سٹی ہائی سکول میں بھی بڑے مشاعرے ہو چکے ہیں جس میں سٹیج سیکرٹری خادم حسین شہزاد صاحب ہوا کرتے تھے لیکن اب یہ سلسلہ ختم ہو چکا ہے کاش کوئی تونئی نسل کو اِس بہترین ادبی دور کی طرف لانے کی کوشش کرے ۔ (ختم شد)