جیفری رابرٹسن کے تحریک انصاف کے وکیل کے طو ر پر تعیناتی کا فیصلہ ، اگر چہ اخباری اطلاعات کے مطابق شدید رد عمل کے بعد واپس لے لیا گیا ہے تا ہم اس مشق سے چند اہم سوالات پیدا ہوتے ہیں جن کا تعلق کسی ’ مذہبی کارڈ‘ سے نہیں بلک عصری سیاست سے ہے۔ سوالات سے پہلے اس پس منظر کا مختصر ترین جائزہ لے لیتے ہیں: یہ محض کوئی خبر نہیں تھی کہ پاکستان تحریک انصاف اس کی تردید کر دے اور بات ختم ہو جائے۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کے ٹوئٹر ہینڈل ( ایکس) سے یہ خبر شیئر کی گئی کہ تحریک انصاف کے چیئر مین عمران خان نے ڈائوٹی سٹریٹ چیمبرز کے بیرسٹر جیفری رابرٹسن کی خدمات بطور مشیر حاصل کر لی ہیں اور وہی اب عالمی عدالتوں میں ( عمران خان کی ) حراست اور حقوق انسانی کا مقدمہ پیش کریں گے۔ یہی خبر ڈائوٹی سٹریٹ چیمبرز کے ایکس یعنی ٹوئٹر ہینڈل سے بھی شیئر کی گئی۔اتفاق ہے یا حسن اتفاق ہے ، جو بھی ہے ، دل چسپ بات یہ ہے کہ دونوں اکائونٹس سے ایک جیسا پیغام شیئر کیا گیا ۔ ایک جیسے الفاظ ، ہو بہو نقل۔ یہی نہیں بلکہ زلفی بخاری نے فوری طور پر جیفری رابرٹسن کے تفصیلی تعارف پر فضائل نما ٹویٹ بھی کر دیا۔ اس پر شور اٹھا ، جیفری رابرٹسن کے پس منظر پرسوال اٹھائے جانے لگے تو اگلے روز کے اخبارات میں دو خبریں پڑھنے کو ملیں۔ پہلی خبر یہ تھی کہ سوشل میڈیا پر شدید تنقید کے بعد یہ فیصلہ واپس لے لیا گیا ہے۔ دوسری خبر یہ تھی کہ تحریک انصاف نے اس بات کی تردید کی ہے اور اس کا کہنا ہے کہ جیفری رابرٹسن کی خدمات لینے کی خبر میں کوئی صداقت نہیں۔ اس ساری مشق سے بہت سے سنگین سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ سر دست ہم ان سوالات سے صرف نظر کر لیتے ہیں جن پر’ مذہبی کارڈ ‘ کی دہائی دی جا رہی ہے اور دیگر سوالات کا جائزہ لے لیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ تحریک انصاف کے فیصلے کون کرتا ہے اور یہ فیصلے کہاں ہوتے ہیں؟فیصلہ سازی کے اس عمل کا مرکز پاکستان میں ہے یا پاکستان سے باہر؟ ملک میں ہے تو کون ہے ؟ ملک سے باہر ہے توکون ہے؟ اگر یہ فیصلے سنٹرل ایگزیکٹو کرتی ہے تو کیا وجہ ہے کہ پہلے ڈائوٹی سٹریٹ چیمبر ٹویٹ کرتا ہے ا ور پی ٹی آئی آفیشل اسی ٹویٹ کو آگے بڑھا دیتا ہے۔ یعنی پی ٹی آئی آفیشل کو یہ خبر ڈائوٹی سٹریٹ چیمبر کے ٹویٹ سے ملی۔ اور اس نے اسی کے الفاظ بعینہ نقل کر دیے۔ یعنی پی ٹی آئی آفیشل کے پاس اس سے پہلے یہ خبر نہیں تھی۔ سوال یہ ہے کہ فیصلہ کہاں ہوا اور کس نے کیا ؟ نیز یہ کہ پی ٹی آئی آفیشل والوں کو کیسے معلوم تھا کہ ڈائوٹی سٹریٹ کوئی ٹویٹ کرتا ہے تو اسے آگے پھیلا دینا ہے؟ کسی نے تو انہیں بتایا ہو گا اور انہیں علم ہو گا کہ اس سے ہمارے تعلقات کی نوعیت کیا ہے تبھی تو فورا اسے آگے پھیلا دیا۔ عمران خان تو جیل میں ہیں۔ ان کے لیے تو یہ ممکن نہیں کہ عوامی رد عمل پر اس فیصلے کو واپس لیں۔ جیل میں قید شخص پارٹی کے ساتھ لمحہ لمحہ رابطے میں نہیں ہوتا کہ اسے پل پل کی خبر مل رہی ہو کہ سوشل میڈیا پر کیا رد عمل آ رہا ہے اور وہ اس کے مطابق ہدایات دیتا پھرے۔ پھر کون ہے جس کی ہدایت پر پی ٹی آئی آفیشل نے پہلے اپنا ٹویٹ ڈیلیٹ کیا اور اب اس کی سرے سے تردید کی جا رہی ہے؟ تحریک انصاف نے بیرون ملک لابنگ فرم کی خدمات لے رکھی ہیں ۔ یہ کوئی انہونی نہیں، سبھی ایسا کرتے ہیں۔ سوال مگر یہ ہے کہ یہ فرم صرف لابنگ کرتی ہے یا یہ تحریک انصاف کی پالیسی کو سٹریٹجائز بھی کر رہی ہے اور ریاست کو سینگوں پر لینے کی پالیسی پاکستان میں بن رہی ہے یا ملک سے باہر؟ محترمہ جمائما مدت سے عمران خان سے الگ ہو چکی ہیں لیکن تحریک انصاف اور پاکستان کے معاملات میں ان کی دلچسپی حیران کن ہے ا ور اب بھی باقی ہے۔ تو بیرون ملک جو لابنگ ہو رہی ہے یا جو پالیسی سٹریٹجائز ہو رہی ہے اس میں کیا محترمہ جمائما اور ہائوس آف گولڈ سمتھ کا بھی کوئی کردار ہے؟ نیز یہ کہ اس حساسیت کا مرکز صرف عمران خان ہیں یا اس کے اہداف کچھ اور ہیں؟ پی ٹی آئی آفیشل اور ڈائوٹی سٹریٹ چیمبرز کے ٹویٹ میں سنگین ترین چیز صرف یہ نہیں تھی کہ جیفری رابرٹسن جیسا آدمی عمران خان کا مشیر اور وکیل بنا یا گیا۔ سنگین اور پریشان کن چیز یہ بھی تھی کہ وہ پاکستان کے خلاف عالمی عدالت میں جانے کے لیے وکیل اور مشیر بنایا گیا۔ تو کیا عمران خان اور پی ٹی آئی ریاست پاکستان کے خلاف مقدمہ کرنا چاہتی ہے؟ یعنی دوسروں پر مقدمات بنیں تو قانون کا نفاذانصاف کے اصولوں کے عین مطابق ہوتا ہے لیکن آپ پر مقدمات بنیں تو آپ سیدھا ریاست پاکستان کے خلاف بین الاقوامی عدالتوں میں جانے پر تل جاتے ہیں۔ یہ تو ممکن نہیں کہ جیفری رابرٹسن کو معلوم نہ ہو کہ انفرادی مقدمات کو بین الاقوامی عدالتوں میں لے جایا جا سکتا ہے یا نہیں تو کیا مقصد صرف ریاست پاکستان کے خلاف ایک تماشا لگانا ہے تا کہ ملک کٹہرے میں کھڑا رہے ؟ نیز یہ کہ اصل ہدف عمران کا دفاع ہے یا ریاست کا بازو مروڑنا؟ سید علی گیلانی کینسر کے مرض میں مبتلا تھے ، علاج کی سہولیات نہ ملیں ، گھر پر انتقال ہو گیا ۔یسین ملک دھیرے دھیرے مقتل کی طرف دھکیلے جا رہے ہیں ، ہزاروں ایکڑ اراضی کشمیر کی بھارت ہتھیا چکا ، شبیر شاہ سینتیس سال سے جیلوںمیں پڑے ہیں ، قاسم فکتوکو بھارتی قید میں تیس سال ہو گئے ، ڈاکٹر فکتو کی اہلیہ آسیہ انداربی کو قید میں اکیس سال ہو گئے ، یہ ایک لمبی فہرست ہے مگر عمران خان اس معاملے کو کسی عالمی عدالت نہ لے جا سکے، وہ اس وقت وزیر اعظم تھے لیکن کسی جیفری رابرٹسن کی خدمات نہ لے سکے۔ جب خود گرفتار ہوئے تو اب ریاست کے خلاف حقوق انسانی کی پامالی کی فرد جرم عائد کروانے پر تل گئے ہیں؟ یہ سیاست ہے یا کوئی تزویراتی چاند ماری ہے؟ سوالات کی ایک طویل فہرست ہے۔ ہر سوال اپنے اندر جہان معنی رکھتا ہے ۔ ان سوالات میں ، دانستہ طور پر میں نے وہ سوالات شامل نہیں کیے جن پر ’ مذہبی کارڈ ‘ کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔ اگر چہ معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ جب آپ مذہب کی بنیاد پر سیاست کر سکتے ہیں ، جب آپ مذہب کا نام استعمال کرتے ہوئے اپنی حکومت کو ریاست مدینہ کی جدوجہد کا نقیب قرار دے سکتے ہیں تو پھر آپ کو مذہب کی بنیاد پر اٹھتے سوالات کا جواب بھی دینا ہوتا ہے۔ پھر یہ یہ مذہبی کارڈ نہیں رہتا ۔یہ کوئی قانونی معاملہ نہیں کہ جرم قرار پائے البتہ یہ ایک سماجی معاملہ ضرور ہے۔ ہر معاشرے کی کچھ مبادیات ہوتی ہیں اور کچھ حساسیت ہوتی ہے ، اہل سیاست کو ان کا احترام کرنا ہوتا ہے۔ تاہم سر دست ، مذہبی کارڈ سے ہٹ کر ، جو سوالات اٹھائے گئے ہیں ، کیا تحریک انصاف کے پاس ان کا کوئی جواب ہے؟