وزیراعظم جناب عمران خان کو داد دینا پڑے گی کہ وہ قائداعظمؒ کی قائم کی گئی ’’ ریاستِ پاکستان‘‘ کو ’’ ریاستِ مدینہ‘‘ بنانے میں کافی سنجیدگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں ؟۔ 7 دسمبر کے روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ کے صفحہ اوّل پر شائع ہونے والی قاضی ندیم اقبال کی خبر کے مطابق ’’ جنابِ وزیراعظم ریاستؔ پاکستان کو ریاستؔ مدینہ کی طرز پر چلانے کے عزم کو تکمیل تک پہنچانے کے لئے ’’ قومی عُلماء و مشائخ کونسل‘‘ قائم کرنا چاہتے ہیں چنانچہ حکومتِ پنجاب نے ’’ قومی عُلماء و مشائخ کونسل‘‘ کے لئے پنجاب سے دو عُلماء اور دو مشائخ کے نام تجویز کردئیے ہیں۔ محکمہ اوقاف پنجاب نے ( ظاہر ہے کہ بذریعہ صوبائی وزیر اوقاف سیّد سعید اُلحسن) ، وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار کی منظوری سے ، یعنی۔ "Through Proper Channel") چھان پھٹک اور تحقیق و تفتیش کے بعد ، جیّد عُلماء میں سے جنوبی پنجاب (ڈیرہ غازی خان کے ) سردار محمد خان لغاری اور (رحیم یار خان کے ) مولانا عبداُلرزاق ربّانی اور مشائخ میں سے پاکپتن شریف میں درگاہ حضرت فریداُلدّین مسعود المعروف بابا فرید شکر گنج ؒ کے گدّی نشین دیوان مودود مسعوؔد چشتی اور مِٹھن کوٹ میں حضرت غلام فرید ؒ کی درگاہ کے گدّی نشین صاحبزادہ مُعین اُلدّین کوریجہ کے نام تجویز کردئیے ہیں‘‘ ۔ معزز قارئین!۔ سردار محمد خان لغاری ، مولانا عبدالرئوف ربّانی سے متعلق تو ، میری معلومات بہت ہی کم ہے لیکن، 18 اکتوبر 2018ء کو جب روزنامہ ’’ 92 نیوز‘‘ کے صفحہ اوّل پر جب، خبر نگار خصوصی ، آن لائن اور آئی این پی کی رپورٹ شائع ہُوئی ،جس میں کہا گیا تھا ’’چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس اعجاز اُلاحسن اور جسٹس فیصل عرب پر مشتمل تین رُکنی بنچ نے ’’پاکپتن میں بابا فریدشکر گنج ؒ کی وقف زمین کو نجی ملکیت میں دینے سے متعلق کیس ‘‘ کی سماعت ہُوئی تو سابق وزیراعظم میاںنواز شریف اور دیگر فریقین کو دوبارہ نوٹسز جاری کرتے ہُوئے فریقین کے وُکلاء کو ایک ہفتے کی مہلت دے دِی گئی ۔ خبر کی تفصیلات یوں بیان کی گئی تھی کہ ’’ میاں نواز شریف نے وزیراعلیٰ پنجاب کی حیثیت سے 1986ء میں پاکپتن دربار کی اراضی مزار کے گدّی نشین دیوان مودود مسعود چشتی کے نام منتقل کرنے کا نوٹیفکیشن جاری کرایا تھا ‘‘۔ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے کہا تھا کہ ’’ سمری میں وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کو بتا دِیا گیا تھا کہ ’’ آپ کو اِس طرح کا نوٹیفکیشن جاری کرنے کا اختیار نہیںہے !‘‘۔ چیف جسٹس صاحب نے 17 اکتوبر کو کیس کی سماعت کے دَوران یہ ریمارکس بھی دئیے تھے کہ ’’ دیوان مودود مسعود چشتی کو زمین کا مالک کیا بنایا گیا کہ اُنہوں نے تین دِن میں سب کچھ بیچ دِیا‘‘۔ کیس کی سماعت کے دَوران چیف جسٹس صاحب نے پوچھا تھا کہ ’’ جن لوگوں کو نوٹسز جاری کئے گئے کیا وہ سب لوگ حاضر ہیں تو وکیل نے جواب دِیا کہ ’’ جنابِ والا !۔ سب لوگ تو نہیں آئے لیکن عدالت سے باہر 8 ہزار لوگ بسوں میں بیٹھے ہیں ‘‘۔ اِس پر چیف جسٹس صاحب نے کہا تھا کہ ’’ ہمارے پاس اتنی جگہ نہیں ، سب اپنے اپنے وکیل مقرر کر یں ہم نے اِس کیس میں میاں نواز شریف کو بھی نوٹس بھجوا دِیا ہے ‘‘۔ 18 اکتوبر 2018ء کو شائع ہونے والی روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ کی خبر کے مطابق ’’ سپریم کورٹ نے پاکپتن دربار اراضی کیس کا از خود نوٹس 2015ء میں لیا تھا لیکن زمینوں کا معاملہ 1969ء سے چل رہا ہے ‘‘۔ معزز قارئین! ۔ الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر مختلف اینکر پرسنز اور خبر نگاروں نے اپنے اپنے تبصرے اور خبروں میں بتایا تھا کہ’’ پاکپتن دربار کی اراضی 14 ہزار کنال ہے اور جب چیف جسٹس صاحب نے بھری عدالت میں یہ کہا کہ ’’ دیوان مودود مسعود چشتی کوزمین کا مالک کیا بنایا گیا کہ اُنہوں نے تین دِنوں میں سب کچھ بیچ دِیا ‘‘۔ تو اُن کے اِن ریمارکس سے پنجابی زبان کے پہلے شاعر بابا فریدشکر گنج ؒ کی روح کو کس قدر تکلیف ہُوئی ہوگی؟۔ حضرت بابا فرید شکر گنج ؒکی زندگی کا خاص پہلو یہ ہے کہ ’’ آپ ؒ ہندوستان میں خاندانِ غُلاماں کے بادشاہ سُلطان غیاث اُلدّین بلبن (1266–1286ء ) کے داماد تھے لیکن آپ نے اپنے سُسر بادشاہ سے کوئی مراعات حاصل نہیں کی تھیں۔ بابا جیؒ کی اہلیۂ محترمہ ؒنے بھی اپنے درویش شوہر کے ساتھ سادگی سے زندگی گزار دی۔ آج کے دَور میں میرا اور آپ کا ۔ ہم سب کا واسطہ مرحوم وزیراعظم جناب ذوالفقار علی بھٹو کے دامادؔ ۔ آصف علی زرداری اور نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف کے داماؔد کیپٹن ( ر) محمد صفدر سے پڑا ہے۔ کمال یہ ہے کہ جنابِ زرداری نے اپنے دورِ صدارت میں اپنی ہمشیرہ فریال تالپورؔ کو ’’ مادرِ مِلّت ثانی‘‘ مشہور کر رکھا تھا اور کیپٹن ( ر) محمد صفدر نے اپنی ’’خُوش دامن‘‘ بیگم کلثوم نواز کو بھی یہی خطاب دے رکھا ہے ۔ بابا فرید شکر گنج ؒ نے اپنے کلام میں مسلمانوں اور عام انسانوں کی راہنمائی کے لئے بہت کچھ کہا اور لِکھا۔ سکھوں کے پانچویں گرو ۔ گرو انگد دیو جی نے بابا فرید شکر گنج ؒ کا کلام سِکھوں کی مقدس کتاب ’’ گرنتھ صاحب‘‘ میں شامل کرلِیا تھا۔ پاکستان کے سماجی اور سیاسی حالات پر بابا فرید شکر گنج ؒ نے بہت پہلے بہت کچھ کہا تھا ۔ مَیں پاکستان کے حکمران طبقہ کی رہنمائی کے لئے بابا جی ؒ کا صِرف ایک دوہا پیش کر رہا ہُوں فرماتے ہیں کہ … فریدا !جے تُوں عقل لطیف ،کالے لِکھ نہ لیکھ! آپنے گریوان میں ،سِر نِیواں کر دیکھ! یعنی۔ ’’ اے فرید !۔ اگر تو باریک بین ، عقل رکھتا ہے تو سیاہ ’’ لیکھ‘‘ (تحریریں ) نہ لِکھ بلکہ اپنے گریبان میں جھانک کر دیکھ ‘‘ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ’’ جو حکمران یا مختلف شعبوں کے سربراہ ’’عقلِ لطیف ‘‘ کے بجائے ’’ عقلِ کثیف ‘‘ رکھتے ہوں وہ توسیاہ ؔلیکھ ہی لکھیں گے ۔ بھلا وہ اپنے اپنے گریبان میں جھانکنے کا تکلف کیوں کریں گے؟‘‘۔ 4 دسمبر کو، نااہل وزیراعظم سپریم کورٹ میں پیش ہُوئے تو سماعت کے دَوران چیف جسٹس صاحب نے اُن سے پوچھا کہ ’’ آپ کے تحریری مؤقف کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے‘‘ ۔ اِس پر اُنہوں نے جواب دِیا کہ’’32 سال پرانا واقعہ میرے علم میں نہیں کہ مَیں نے اِس طرح کا کوئی حکم جاری کیا ہو‘‘۔ چیف جسٹس صاحب نے کہا کہ ’’ اوقاف پراپرٹی کے دعویداروں نے عدالت میں کیس کیا ، ہائیکورٹ نے بھی کہہ دِیا کہ زمین محکمہ اوقاف کی ہے لیکن آپ نے ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف زمین نجی ملکیت میں دے دِی‘‘۔ چیف جسٹس صاحب نے مزید ریمارکس دئیے کہ ’’ زمین نجی خریداروں کی ملکیت تب ہوگی جب دیوان (مودود مسعود چشتی) کی اپنی جائیداد ہوگی؟‘‘۔ معزز قارئین!۔ لفظ دیوان ؔ کے معنی ہیں ۔’’ وزیر ، حاکم ، داراُلعدالت ، کچہری اور کسی شاعر کی غزلوں یا نظموں کا مجموعہ ‘‘ ۔ متحدہ پنجاب کے سِکھ حکمران مہاراجا رنجیت سنگھ کے دَور میں ’’ دیوان خالصہ‘‘ بھی مشہور تھا ۔ مَیں حیران ہُوں اور یقیناً آپ بھی حیران ہوں گے کہ ’’ ریاست ِ مدینہ جدید‘‘ میں دیوان مودود مسعود چشتی کی گنجائش کہاں سے نکل آئی؟۔ بابا فرید شکر گنج ؒ کا ایک شلوک ( شعر) یوں ہے کہ … جَے جاناں تِل تھورڑے ، سنبھل بُکّ بھریں! جَے جاناں شوہ نڈھڑا ( تاں ) تھوڑا مان کریں! یعنی۔ ’’ اے فرید !۔ اگر مَیں جانتا کہ تِل (زندگی کے سانس) بہت تھوڑے ہیں تو زندگی کے لمحے سوچ سمجھ کر گزارتا اور اگر مَیں جانتا کہ میرا مالک بے پرواہ ہے تو اپنی خوبیوں پر اتنا فخر نہ کرتا؟‘‘۔ وزیراعلیٰ پنجاب سردار عثمان بزدار ، وزیر اوقاف پنجاب سیّد سعید اُلحسن اور محکمہ اوقاف کے افسروں نے تو دیوان مودود مسعود چشتی کے سر پر ’’یکے از مشائخ ‘‘ کی دستار فضیلت باندھ کر اُن کے نام کو ’’ نامِ نامی اور اسم گرامی‘‘ بنا دِیا ہے ۔ محترم وزیراعظم عمران احمد خان نیازی صاحب!۔ کسی اُستاد شاعر نے نہ جانے کسے مخاطب کرتے ہُوئے گِلہ کِیا تھا کہ … وفائوں کے بدلے ، جفا کر ّرِیا ہے؟ مَیں کیا کرّ رِیا ہُوں، تو کیا کرّ رِیا ہے؟