میں چند روز پہلے بڑی صراحت کے ساتھ عرض کر چکا ہوں کہ کہیں مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست سے آپ کی مراد خدانخواستہ سکینڈے نیویائی ماڈل تو نہیں ہے۔ دنیا میں ان ریاستوں کو ویل فیئرسٹیٹ یا فلاحی ریاست کہا جاتا ہے۔ اب وہی ہوا ناکہ جناب وزیراعظم نے اس ماڈل کو آئیڈیل ماڈل کے طور پر پیش کیا ہے۔ یہ بات درست ہے کہ ان ممالک نے چند قوانین ایسے اختیار کئے ہیں جنہیں یہ عمر لاء کہتے ہیں لیکن مدینے کی ریاست اور جدید فلاحی ریاست میں بہت بڑا بنیادی اور جوہری فرق ہے۔ یہ فرق بھی میں پہلے بیان کر چکا ہوں۔ دوبارہ چند گزارشات بانداز دیگر عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں۔ آج کی فلاحی ریاست صرف اقتصادی فریم ورک کے اندر ہے۔ اس کی ہیت اور ضرورت سراسر معاشی ہے۔ یہ موجودہ نظام زر کا حصہ ہے اور بس۔ گزشتہ صدی دنیا میں سرمایہ داری کے خلاف بغاوت کی صدی تھی۔ سب سے بڑا علم بغاوت تو مارکس نے بلند کیا اور اس کے مشرف بہ کمیونزم ہونے کے بعد یہ ایک متبادل نظام کے طور پر دنیا کے سامنے ابھر کر آیا۔ یہ ایک الگ بحث ہے کہ لینن کا بالشویک انقلاب پہلے کمیونزم کا نام نہیں لیتا تھا بلکہ ایک طرح کی سوشل ڈیموکریسی تھا۔ ایک آدھ برس پہلے جب ہم نے لینن کے انقلاب کی صد سالہ برسی منائی تو یہ سب بحثیں ایک بار پھر تازہ ہو گئیں۔ سرمایہ داری کی مخالفت میں دنیا نے فاشزم تک کو گلے لگا لیا۔ اس لحاظ سے دنیا کی تاریخ خاص کر یورپ اور لاطینی امریکہ کی تاریخ کا مطالعہ بہت دلچسپ ہے کس طرح انسان سرمایہ داری کے استحصالی شکنجے سے نکلنا چاہتا تھا۔ دوسری طرف وہ جبر کے نظام سے بچنا بھی چاہتا تھا۔ سوشلزم، سوشل ڈیموکریسی، ویل فیئر سٹیٹ ازم جانے کتنے تجربے ہوئے۔ کیسے کیسے دانش ور کہاں کہاں کی کوڑیاں لاتے رہے۔ ہمارے بچپن میں ہم نے بھی برناڈ شا کی فیبئن سوشلزم اور سارتر کی وجودی اشتراکی فکر کو بڑے غور سے پرکھا۔ اقبال بھی ان تحریکوں سے خط اٹھاتے رہے۔ عرض کیا یہ زندگی کا صرف اقتصادی پہلو ہے اور مدینے کی ریاست صرف اقتصادیات کو درست کرنے نہیں آئی تھی۔ برناڈ شا نے ایک بڑے مزے کی بات کی ہے کہ اگر محمد مصطفی ﷺکو اس عہد کا حاکم بنا دیا جائے تو وہ چٹکی بچاتے ہی آج کے انسان کے سب گھمبیر مسائل کو حل کردیں گے۔ اسلامی فلاحی ریاست ان تمام مسائل سے آنکھیں چار کرتی ہے جن کا سامنا کرتے ہوئے آج کا انسان ڈرتا ہے۔ ایک چھوٹی سی بات عرض کی تھی کہ اسلام میں چوری کی سزا تو ہاٹھ کاٹنا تھا مگر اسلامی معاشرے میں اس سے بھی بڑے جرم میں جن کی سزا مثلاً سنگسار کرنا ہے۔ کیا سیکنڈے نیوین ممالک میں اس سنگساری والے جرم کو جرم سمجھا جاتا ہے۔ وہ جو کہا گیا ہے کہ دین میں پورے کے پورے داخل ہو جائو، تو اس کا مطلب یہی ہے کہ ٹکڑے ٹکڑے کر کے آپ دین کی لاش کو تو اٹھا سکتے ہیں، زندہ دین اس سے حاصل نہیں ہوا کرتا۔ یقینا اسلام ایک معاشی، معاشرتی اور تہذیبی انقلاب تھا۔ یہ بھی درست ہے کہ حضور کے وصال کے بعد مدینے کی ریاست کو دو بڑے چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک تو جھوٹے مدعیان نبوت پیدا ہوئے جنہوں نے گویا ریاست مدینہ کی حاکمیت اعلیٰ کو چیلنج کیا اور دوسرے منکرین زکوٰۃ کا فتنہ کھڑا ہوا۔ انہوں نے اپنے حصے کے دینی واجبات بیت المال یا سرکاری خزاے میں جمع کرانے سے انکار کردیا۔ حضور نبی کریمؐ کے جلیل القدر جانشین حضرت صدیق اکبرؓ جنہیں امت نے ریاست مدینہ کی امارت سونپی تھی، نے ان دونوں طبقوں کے خلاف اعلان جہاد کیا۔ مورخین کہتے ہیں اسلامی ریاست قائم نہ رہتی اگر ان غداروں کی سرکوبی نہ کی جاتی۔ چلتے چلتے ایک بات اور عرض کردوں کہ حضورؐ نے اپنا لشکر دشمن کی سرزمینوں کی طرف روانہ کرنے کا جو فیصلہ کیا تھا، اسے بھی ان غیر معمولی حالات میں روکا نہ گیا۔ مدینے کی ریاست میں اس حوالے سے کوئی نرمی کی گنجائش نہ تھی۔ یہ بڑی معنی خیز بات ہے جسے ہم صرف عقیدت کے ترازو میں تول کر چھوڑ دیتے ہیں۔ مدینہ کی ریاست جب تک مدینے میں رہی، اس میں یہ روح زندہ تھی، پھر جب اسے کوفہ جانا پڑا اور وہاں سے دمشق اور بغداد کا رخ کیا تو بھی وہی بنیادی جذبہ معیار ٹھہرا جس کی بنیاد اسلام کے اولین برسوں میں رکھ دی گئی تھی۔ اس عہد میں جو قوانین بنے، دنیا کے نظام سیاست نے اس سے پہلے اس کی جھلک تک نہ دیکھی تھی۔ ایک مغربی مورخ نے جسے ویسے تو میں اسلام کے حوالے سے شقی القلب ہی کہتا ہوں، یہاں تک کہا ہے کہ اسلام کی کامیابی کی وجہ یہ تھی کہ وہ اس وقت دنیا کا تازہ ترین سیاسی Freshest Political System نظام تھا اگر آپ نے قانون سازی اور انداز جہانگیری و شہرباری کے اصول وضع کرنا ہوں تو اس عہد کا مطالعہ کیجئے۔ کس طرح اسلام دوسری سرزمینوں تک پھیلتا گیا اور کس طرح اس کے بازوئوں میں کشادگی آتی گئی۔ یہ جو دوچار باتیں مغرب نے اس عہد سے سیکھیں ہیں وہ پورے اسلام کا احاطہ نہیں کرتیں اور صرف اقتصادیات تو اس کا ایک ادنیٰ سا حصہ ہے اگرچہ اسلام نے معاشی استحصال کے خلاف بڑی قوت سے وار کیا ہے مگر یہ مکمل اسلام نہیں ہے۔ گزشتہ بار غالباً ایسے چار یا پانچ نکات گنوائے تھے جن کے خلاف اسلام صف آرا ہوا۔ ان میں اقتصادی، استحصال یقینا ایک اہم پہلو ہے۔ سود کے خلاف جنگ کو خدا نے اپنی جنگ قرار دیا ہے۔ اتنا سخت حکم ہے کہ آدمی کانپ اٹھتا ہے مگر یہ کہنا کہ اسلام امیروں سے لے کر غریبوں کو تقسیم کرتا ہے، بات کو بہت سادہ کرنے کے مترادف ہے۔ ہر کو معاف کرنا، سلطانہ ڈاکو بھی کرتا تھا امیروں کو لوٹ کر غریبوں کی مدد کرتا تھا نا۔ معاف کیجئے اسلام کوئی رابن ہڈ نہیں ہے نہ سلطانہ ڈاکو۔ یہ آج کے زرنہاد معاشرے کی بحثیں ہیں۔ ان بحثوں کے بطن سے سٹالن اور ہٹلر پیدا ہونے کا ڈر ہوتا ہے۔ میں مزید تفصیل میں نہیں جاتا۔ سود کا خاتمہ، زکوٰۃ کا نفاذ، چوری پر سخت سزا، کاروبار اور وراثت کے قوانین اسلام میں کیا کچھ نہیں ہے جو اقتصادی استحصال کے خلاف عملی اعلان جنگ ہے مگر اس کے علاوہ بھی اور بہت کچھ ہے۔ عرب معاشرے میں اور بہت سی برائیاں تھیں جنہیں ایک بڑے ہی انقلابی انداز میں ختم کیا گیا۔ جو دوسری برائی تھی وہ جنسی بے رہ روی تھی۔ اسلام نے نہ صرف زنا کی سخت سزا مقرر کی بلکہ نکاح کے نام پر فضول، لغو اور جاہلانہ طریقوں کا خاتمہ کیا۔ غالباً حضرت عائشہؓ نے آٹھ طرح کے نکاح گنوائے ہیں جو دور جاہلیت میں رائج رہے۔ ایک آدھ قسم تو ایسی ہے جن کا ذکر بھی مناسب نہ سمجھا گیا۔ وہ ایسے مکروہ تھے۔ اسلام نے سب کا خاتمہ کیا۔ طلاق اور نکاح دونوں کے قانون عورت کے تحفظ میں نازل ہوئے۔ عرب کے معاشرے میں رواج تھا کہ مرد عورت کو طلاق دیتے، پھر اسے معلق رکھتے۔ وہ نہ شادی کرسکتی نہ پہلے شوہر کے عقد میں رہتی۔ جب چاہتے اس سے رجوع کرلیتے۔ اسلام نے صاف کہہ دیا تم ایسا نہیں کرسکتے۔ اگر تم نے تین بار ایسا کیا تو عورت آزاد ہے۔ اس معاشرے میں اس قانون کی باریکی کو وہی سمجھ سکتا ہے جو اس کی گہرائی میں اتر کر اسے پڑھے۔ شادی میں بھی کوئی حد نہ تھی۔ حکم آیا اور اس کی حد مقرر کر دی گئی اور اس حد میں بھی ایسی شرائط رکھیں کہ مسلم معاشرے میں اس کا رواج ہی تقریباً ختم ہوگیا۔ مغرب کا معاملہ دوسرا ہے۔ کوئی ہے جو یہ بتا سکے کہ زنا کے لیے انگریزی میں کیا لفظ ہے۔ یعنی، ہے ہی نہیں! ریپ پر اعتراض اس لیے کہ اس میں جبر ہے وگرنہ اس فعل پر اعتراض نہیں Fornication بالرضا مغرب میں جائز ہے حتیٰ کہ ممتاز فرانسیسی ادیب البرکا میو نے لکھا تھا کہ بیسویں صدی کے انسان کی تعریف یہ کی جائے گی کہ وہ (اتنا سطحی تھا) کہ اس نے صرف اخبار پڑھے اور زنا بالرضا کیا۔ سیکنڈے نیویا کے ماڈل میں یہی کچھ ہے۔ تیسری چیز Adultary ہے یعنی شادی شدہ جوڑوں کے تعلقات اس میں قانون حائل نہیں، صرف اطلاق کا معاملہ ہے کہ یہ بے وفائی ہے۔ ترکی نے چند برس پہلے اس کے خلاف قانون پاس کرنا چاہا تو یورپ و امریکہ چیخ اٹھے کہ ایسا کیا تو تم پر یورپین یونین کے دروازے بند کردیئے جائیں گے۔ سیکنڈے نیویا کے ماڈل میں یہ سب صرف جائز ہی نہیں بلکہ پسندیدہ ہے۔ سود اور زنا کے بعد ان کے ہاں تیسری بڑی لعنت شراب تھی جس پر تدریج کے اصولوں کے مطابق بڑے قرینے سے عمل کرایا گیا، جب مکمل بندش کا حکم آیا تو کہتے ہیں اس دن مدینے کی گلیوں میں شراب نالیوں میں بہہ رہی تھی۔ یہ سب دور جاہلیت کی خرابیاں تھیں جن کے خلاف اسلام نے اپنا علم بلند کیا۔ پھر غلامی کی لعنت تھی۔ وہ جنگی قیدیوں کا قانون بھی تھا اور لیبر لا بھی تھا اس کے خلاف بھی اسلام نے ایک تدریج کے ساتھ بڑے منظم طریقے سے مہم چلائی۔ ہر بڑے معنی خیز اور دلچسپ مطالعے ہو چکے ہیں۔ اسے دیکھنا بھی دلوں میں اسلام کی عظمت کو نقش کرتا ہے۔ میں اس انقلاب کا مکمل نقشہ ان چند سطور میں نہیں کھینچ سکتا، یہ ایک نئی تہذیب کی بنیاد تھی، کسی دوسری تہذیب کا چربہ نہ تھا۔ آپ نے ٹیکس وصول کرنا ہو تو ایف بی آر کو نشانہ پر لینے کی ضرورت نہیں۔ اسلامی ریاست جب پھل پھول گئی تو اس نے کیسے ٹیکسوں کا نظام حالات کے مطابق وضع کیا اور اسلامی عمال انہیں کیسے وصول کرتے اور کیسے چھوٹ دیتے، یہ سب تاریخ کی کتابوں میں درج ہے۔ حضرت عمر رو پڑے جب انہیں معلوم ہوا کہ ایک بوڑھا جزیہ دینے کی پوزیشن میں نہیں اور ریاست اسے وصول کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ وہ ایسی عملی مثالوں سے قانون وضع کرتے تھے۔ سامنے کی مثالوں سے عوام کے مفاد میں وہ بار بار دور جاہلیت کی مثالیں نہیں دیتے تھے۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؓ نے سارا الزام اپنے اسلاف پر نہیں لگایا جو کرنا تھا وہ کردیا۔ جتنا خدا کو منظور تھا اتنا کر گزرے۔ بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ خود ہند میں شیر شاہ سوری سے لے کر اورنگزیب عالمگیر تک، جو یہ بتاتی ہیں کہ عمال کیسے ٹیکس وصول کرتے تھے۔ یہ بھی تاریخ میں ہے کہ جتنی نرمی اور رعایت ہوتی تھی، اتنا ٹیکس زیادہ آتا تھا۔ سختی کرنا کوئی اچھے حکمرانوں کا چلن نہیں۔ ضرورت سے زیادہ بوجھ ڈالنے سے ہمیشہ منع کیا گیا ہے۔ بس اس وقت اتنا عرض کئے دیتا ہوں کہ ریاست مدینہ بنے گی تو ایف بی آر خود درست ہو جائے گا بلکہ شاید ایف بی آر کی ضرورت ہی نہ رہے۔ خزانہ خدا بھرتا ہے، حکمرانوں کا ظلم نہیں۔