1947ء میں جو بیوروکریسی پاکستان کے حصے میں آئی وہ سیاستدان کے مقابلے میں خاصی بالا دست اور خود مختار تھی۔ سیاستدان کی پرورش انگریز کا مقابلہ کرتے گزری۔ بیوروکریٹ گوروں کے ساتھ مل کر ملک چلاتا تھا۔ تقسیم کے بعد رفتہ رفتہ انگریز کے تربیت یافتہ منظر سے ہٹتے گئے اور پھر بات آپ سے پھر تم ہوئی اور پھر تو کا عنوان ہوگئی۔ زوال آیا تو پھر پورے کمال سے آیا۔ قدرت اللہ شہاب، ایچ یو بیگ اور آفتاب احمد جیسے بیوروکریٹ بھی متنازعہ ہوتے ہوں گے مگر احد چیمہ، فواد حسن فواد اور اکرم چیمہ جیسوں کی طرح ہرگز نہیں۔ ماضی قریب کی ایک طاقتور ترین شخصیت کے قریبی عزیز ایک بیوروکریٹ سے پوچھا گیا ”سر آپ کا کرپشن کے متعلق کیا خیال ہے“؟ فرمانے لگے ”اس وقت میرے تمام بچے امریکہ سے کوالیفائیڈ ہیں۔ کسی نہ کسی انداز میں براہ راست یا بالواسطہ طور پر ملکی ترقی میں ہاتھ ہی بٹارہے ہیں۔ اگر وہ اَن پڑھ رہ جاتے یا کم پڑھے لکھے ہوتے تو کیا کرلیتے؟ کلرک بن کر کسی دفتر میں کم تر درجے کی رشوت ہی لے رہے ہوتے۔ ہم اگر کرپٹ نہ ہوتے تو بچوں کو فارن کوالیفائیڈ کیسے بناتے؟ ہماری کرپشن پہ نہ جائیے صاحب۔ ہمارا قومی ترقی میں کنٹری بیوشن دیکھئے جو ہم نے اپنی اولاد کی شکل میں کیا ہے“۔ جب آپ کوئی غلط کام کرتے ہیں تو اس کے کیسے کیسے دانش ورانہ جواز بھی تراش لیتے ہیں۔ یہ صرف ایک مثال ہے۔ پاکستان میں بیوروکریسی کے انحطاط کا یہ عالم ہے کہ سینکڑوں نہیں ہزاروں بیوروکریٹس غیر ملکی شہریت کے حامل ہیں۔ ان کا نفسیاتی میک اپ کیسا ہوگا؟ ان کا روز مرہ سرکاری کنڈکٹ کیسا ہوگا؟ اس کے اثرات سرکاری گورننس پر کیسے مرتب ہوتے ہوں گے؟ وزیر اعظم اکثر کہتے ہیں بیوروکریسی کام نہیں کررہی، بیوروکریسی تعاون نہیں کررہی۔ پنجاب کے ایک سینئر بیوروکریٹ کہنے لگے جب آپ بطور سرکاری افسر کام نہیں کرتے تو اکثر Cases میں اس کی Cost فائدے کی بجائے نقصان میں بدل جاتی ہے۔ مگر اس کا بھی ایک پس منظر ہے۔ ایک جانب بیوروکریسی کی کمر ٹوٹ گئی ہے اس سیاسی دباؤ کے ذریعے جو کچھ نہیں تو گزشتہ تیس چالیس سال سے اس کے سرپر سوار ہے۔ عمران خان اسے دس سال کہتے ہیں جبکہ بیوروکریسی تبھی پرسنل ہونا شروع ہوگئی تھی جب شریف خاندان اقتدار کی غلام گردشوں میں اپنی جگہ بنا رہا تھا۔ بہت سارے بیورکریٹس کے چہرے اور نام ذہن کے دروازے پر دستک دے رہے ہیں۔ انور زاہد چیف سیکرٹری پنجاب تھے جب میاں نواز شریف چیف منسٹر پنجاب تھے۔ پھر ناموں کی ایک لمبی قطار نظر آتی ہے۔ چودھری صدیق بھی پنجاب کے چیف سیکرٹری رہے ہیں۔ پھر زیڈکے شیر دل اور حاجی اکرم، سعید مہدی، رانا مقبول وغیرہ وغیرہ۔ یہ اس بیوروکریٹک بریڈ (Breed) کے چند نام ہیں جن کو شریفین نے Personalize کیا۔ اپنے جونیئرز کے لیے وہ قابل رشک بن گئے۔ سلسلہ تھم نہ سکا، دراز ہوتا گیا۔ نظیر بے چاری دیکھتی رہ گئیں۔ فاروق لغاری اور جہانگیر بدر اس کاری گری کو چھو بھی نہ سکے۔ ایک تاجر اور سیاست کار میں فاصلہ نہ رہے تو ہر شے کمرشل ہوجاتی ہے۔ گلی محلے کے ناظم سے لے کر گمٹی بازار کی انجمن تاجران تک۔ سیڑھیاں ہی سیڑھیاں۔ ہر سٹیپ مگر کمرشل۔ بیوروکریسی میں بھی شریفین سے وفاداری، تحفظ اور منفعت کی ضمانت بن گئی۔ یاد آتا ہے کہ 1999ء کے مشرفانہ انقلاب کے بعد شریفس کے بعض وفاداروں کو پنجاب کے چودھریوں نے سوفٹ اور کلوز کرکے اپنے نیٹ ورک میں لانے کی کوشش کی اور اس میں خاصی حد تک کامیاب بھی رہے۔ جب چودھری پرویز الٰہی چیف منسٹر تھے تو ان کے والد محترم جناب منظور الٰہی وفات پاگئے۔ اس وقت گجرات میں پنجاب کی اور مرکز کی بھی تقریباً ساری بیوروکریسی افسوس کے لیے جمع تھی۔ وجہ چودھری صاحب کا اپنا ذاتی کنڈکٹ تھا۔ اسی دور میں نواز شریف کے والد میاں شریف انتقال کرگئے۔ بہت سے بیوروکریٹس سے پوچھا آپ کیوں نہیں گئے؟ کہنے لگے دل تو بڑا چاہتا تھا مگر ڈر لگتا ہے۔ پنجاب کے ایک سیکرٹری جو گجرات بھی گئے تھے، میاں شریف کی تدفین کے لیے جاتی امرا چلے گئے۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ کیوں گئے؟ موصوف نے اپنے سینئرز کو جیسے تیسے سمجھالیا۔ مگر یہ تو صاف عیاں ہے کہ بیوروکریسی Personal بھی ہوئی اور پولیٹیکل بھی۔ یہ تو ہے بیورو کریسی کا ایک زاویہ جو بیوروکریسی کے زوال کا قصہ بیان کرتا ہے۔ شاید اسی لیے عمران خان ہمیشہ کہتے ہیں کہ میں اس بیوروکریسی کو Depoliticize کروں گا۔ مگر وہ اس مقصد میں کامیاب نہ ہوں گے کہ زوال بتدریج آتا ہے۔ درستگی کیسے راتوں رات آسکتی ہے جبکہ عمران خان کے اپنے فیصلے مجسم سوالیہ نشان ہیں۔ اس وقت اسلام آباد میں سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ ایک پنجابی افسر ہیں جو شہباز شریف کے عہد میں بڑی اہم Postings دیکھ چکے ہیں۔ سنا ہے ان کے ناصر کھوسہ سے روابط ہیں اور دونوں مل کر پنجاب میں چن چن کر وہ افسر لگانا چاہتے ہیں جو بزدار حکومت کے زوال کو تیز کردیں۔ مگر ہمیں جو نظر آتا ہے وہ یہ ہے کہ جس طرح میاں نواز شریف کو سعید مہدی بیوروکریسی کی ٹرانسفر پوسٹنگ پر مشورہ دیتے تھے بالکل ایسے ہی وقت خیبر پختونخواہ کے ارباب شہزاد…… عمران خان کو مشورے دے رہے ہیں۔ شریف وقت میں فواد حسن فواد کا تعلق پنجاب سے تھا۔ اس وقت پرنسپل سیکرٹری ٹو وزیر اعظم، اعظم خان کا تعلق خیبر پختونخواہ سے ہے۔اس لیے اقتدار کی غلام گردشوں میں سرگوشیاں عام ہیں کہ پوسٹنگ کا میرٹ اور انتخاب ویسا ہی ہے جیسا تیسری دنیا کی ترقی پذیر ریاستوں میں ہوتا ہے۔ وفاداری بشرط استواری۔ بنیادی سوال یہ کہ بیوروکریٹس کام کیوں نہیں کررہے؟ پرفارمنس سپیڈ Dead Slowکیوں ہے؟ پنجاب کے ایک موجودہ سیکرٹری کہنے لگے کام بھی کرنا چاہتے ہیں …… فنڈز بھی ہیں مگر ڈرتے ہیں کہ بعد میں نیب کی پیشیاں کون بھگتے۔ ٹاپ سے باٹم تک ایک سراسیمگی سی پھیلی ہوئی ہے۔ بیوروکریسی میں اس کیفیت کی ذمہ دار بیوروکریسی کتنی ہے؟ سیاسی آقا کتنے ہیں؟ سرکاری افسر تو بول بھی نہیں سکتا۔ قصور سیاسی جماعتوں کے گاڈ فادرز کا ہے۔ بھگت بیوروکریسی رہی ہے۔ ایک اجتماعی نفسیاتی کیفیت ہے، اس وقت سرکاری افسروں کا یہ خوف وزیر اعظم کے لیے ایک چیلنج ہے۔ مگر ہمارا پاور سٹرکچر اس قدر پیچیدہ ہے کہ مجھے یقین ہے کہ وزیر اعظم بیوروکریسی کو اس اجتماعی خوف سے نہیں نکال سکیں گے!!!