انیس جنوری دو ہزار بائیس کو انہی صفحات پر لکھ چکا تھا کہ ریکوڈک کے حوالے سے اگر موجودہ وفاقی یا صوبائی حکومت نے ایک بہتر ڈیل کو بھی مس ہینڈل کیا تو پاکستان کی معیشت کے بیل آؤٹ پیکج ریکوڈک سے ایک اور مس ہینڈلنگ ایک نئی تباہی کا پیغام ہوگی اور دنیا میں سونے کی پانچویں بڑی کان ریکوڈک اپنے نام کے لفظی معنوں کی طرح ریت کا ٹیلا ہی رہیگی۔ اب انیس مارچ دو ہزار بائیس کی شام اچانک محکمہ تعلقات عامہ بلوچستان نے نوید سنائی کہ بلوچستان صوبائی کابینہ نے ایک خصوصی اجلاس بلاکر ریکوڈک کے معاملے کو بیرک گولڈ کیساتھ از سر نومعاہدے کیساتھ آؤٹ آف کورٹ سیٹل کرنے کی منظوری دیدی ہے، جسکے اگلے روز اسلام آباد میں وزیر اعظم عمران خان کی موجودگی میں بلوچستان حکومت کے نمائندوں کیساتھ بیرک گولڈ کے صدر مارک برسٹو نے معاہدے پر باقاعدہ دستخط کئے جسکے بعد اب پاکستان اور بلوچستان کو عالمی عدالت سے ہونے والے جرمانہ جو کہ تقریباً بارہ سے چودہ ارب ڈالر بنتا تھا اب ادا نہیں کرنا ہوگا ۔کنسورشیم سے علیحدہ ہونے والی کمپنی اینٹا فیگسٹاکو نو سو ملین ڈالر کی ادائیگی کی جانی ہے جو کہ وفاقی حکومت نے بلوچستان کی جگہ اپنے ذمے لے لی ہے۔ اس جرمانے سے جان چھڑاکر نئے معاہدے میں بلوچستان کو بھی فائدہ ملا ہے اور پاکستان کو بھی اس سے لانگ ٹرم میں فائدہ ملے گا ۔پچھلے معاہدے میں دس فیصد بلوچستان کا حصہ تھا جبکہ پندرہ فیصد حصے کے حصول کیلئے بلوچستان کو اس پراجیکٹ میں سرمایہ کاری کرنی تھی جبکہ باقی پچھتر فیصد تین کمپنیوں کے کنسورشیم کو ملنی تھی اب نئے معائدے کے تحت بلوچستان کا حصہ بغیر کسی سرمایہ کاری کے پچیس فیصدہے جبکہ پچیس فیصد حصہ وفاقی حکومت کا ہوگا جبکہ بقایا پچاس فیصد غیر ملکی کمپنی بیرک گولڈ کا ہوگا بیرک گولڈ منصوبے پر آٹھ ارب ڈالر کی سرمایہ کریگی جو کہ کسی ایک منصوبے میں ملک کی تاریخ کی سب سے بڑی سرمایہ کاری ہوگی۔ مجموعی طور پر بلوچستان کو تینتیس فیصدسے زیادہ کا فنانشیل بینیفیٹ حاصل ہوگا جو کہ ٹیکسز اور رائلٹی کی مد میں ریونیو بلوچستان کو ملے گا جبکہ اس منصوبے میں آٹھ ہزار لوگوں کو ملازمت فراہم کی جائیگی اس نئے معائدے کو ممکن بنانے کیلئے وفاقی حکومت نؤ سو ملین ڈالر اداکریگی جبکہ کمپنی کو وفاقی ٹیکسز میں استثنابھی دے رہی ہے جبکہ بلوچستان کے تمام ٹیکسز لاگو ہونگے گزشتہ چار ماہ میں قدوس بزنجو کی سرکار نے کوئی اچھا کام کیا یا نہیں کیا لیکن ایک ایسے مسئلے کو حل کرلیا جس پر انہیں داد دینا بنتی ہے اور وہ کیونکر یہ کارنامہ نہ کرتے وہ صوبے کو وہ وزیر اعلٰی جنہیں وفاق پرستوں مذہب پرستوں اور قوم پرستوں سمیت موقع پرستوں کا اعتماد جو حاصل تھا انہیں حکومتی اتحاد نے اڑتیس ووٹ دیئے۔ قدوس بزنجو تو ان سے کوئی بڑے کام کی ہی امید لگائی جاسکتی تھی اسلئے انہوں نے بھی خواب غفلت سے بیدار ہوتے ہی کچھ اور کیا یا نہ کیا یہ کارنامہ کردکھایا۔قدوس بزنجو کے اس کارنامے کے بعد دو بیانیے میری نظروں سے گزرے ایک بیانیہ بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں کا تھا جن میں نیشنل پارٹی نے اس معاہدے کو مسترد کردیا اور نیشنل پارٹی کا ماننا ہے کہ قدوس بزنجو کی موجودہ حکومت عوامی مینڈیٹ ہی نہیں رکھتی تو ایسے کسی معاہدیے پر دستخط اسکا حق ہی نہیں جبکہ دوسرا بیان بلوچستان اسمبلی میں موجود (فرینڈلی اپوزیشن) بی این پی مینگل کا تھا جس نے حیران کن طور پر اس سارے معاملے پر قدوس بزنجو یا بلوچستان حکومت کو ذمے دار ٹھہرانے کے بجائے ساراملبہ وفاقی حکومت پر ڈال کر ذمے داری ادا کردی۔ تیسری قوم پرست جماعت بی این پی عوامی ہے قدوس بزنجو کے اتحادی اسد بلوچ اس صورتحال پر خاموش او رمنظر سے غائب ہیںَ اسکے برعکس قدوس بزنجو کی اپنی جماعت کے سینیٹر انوار الحق کاکڑ جو کہ قدوس بزنجو کے شدید ناقدین میں شامل ہیں انہوں نے اس معاہدے کو صوبے اور ملک کے لئے ایک بہترین قرار دیا۔ایک طرف قدوس بزنجو کے وہ حمایتی ہیں جو تمام مراعات لینے کیلئے حکومت کیساتھ ہیں لیکن اس حکومت کے فیصلوں کی ذمے داری لینے کو تیارنہیں ہیں جب کہ دوسری طرف قدوس بزنجو کے بد ترین مخالف بھی ایک بہتر اقدام کی ذمے داری لینے کیلئے تیار ہیں پھر اخلاقی سیاست میں وہی کامیاب ہونگے جو بد ترین مخالف ہونے کے باوجود رست کو درست کہنا جانتا ہے۔ ویسے اس صورتحال پر وزیراعظم عمران خان کا ایک ایسا جملہ یاد آتا ہے بلکہ اسکی تصدیق ہوتی ہے جب انہوں نے ایک سال قبل راقم کی موجودگی میں بلوچستان کے ایک وفد کو بتایا تھا کہ بلوچ قوم پرست عوام کے سامنے کچھ مطالبات کرتے ہیں جبکہ بند کمروں میں کچھ اور مانگتے ہیں اب وزیر اعظم عمران خان نے سچ بولا یا جھوٹ اس کا پیمانہ قوم پرست جماعتوں کے فیصلے اور رویئے ہیں جنہیں دیکھ اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ قوم پرست جماعتوں کے متعلق وزیر اعظم کا جملہ درست تھا یا غلط اسکا فیصلہ عوام اور وقت نے کرنا ہے۔ قوم پرست جماعتوں کو چاہئے کہ صرف بیانات دیکر زندہ رہنے کے بجائے حقائق کو تسلیم کرکے فیصلوں کی ذمے داری لیں کیونکہ بلوچستان کی قوم پرست قیادت جب تک سیاسی اونر شپ نہیں لیگی اس وقت تک اسٹیک ہولڈر نہیں بنیں گی اور جب تک اسٹیک ہولڈرز نہیں بنتیں تو اپنے مسائل حل نہیں کرسکتیں صرف مسترد کرنے کا بیان ہی دے سکتی ہیں انکے بیانات سے نہ پہلے کچھ رک سکا نہ آئندہ رک سکے گا۔ ریکوڈک کے مسئلے کے حل میں سب سے بڑی خبر یہ ہے کہ حکومت بلوچستان بیرک گولڈ کو مائننگ رولز کے تحت ایک سو سکوائر کلومیٹر کا علاقہ مائننگ کیلئے فراہم کریگی جبکہ اس علاقے میں جہاں یہ ذخائر دریافت ہوئے ہیں اسکی پٹی تین سو بیاسی اسکوائر کلومیٹر پر محیط ہے یعنی حکومت بلوچستان اس علاقے میں مزید ایکسپلوریشن اور مائننگ کے پراجیکٹس شروع کرسکتی ہے جس سے بلوچستان اور پاکستان کی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہوگی تاہم اسکے لئے ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھ کر راہیں متعین کرنی ہونگی کیونکہ ریت کا ٹیلا کہلانے والا ریکوڈک بلوچستان کے نوجوانوں کیلئے ایک امید کی کرن ہے جو کہ معاشی مسائل کی وجہ سے ڈی ٹریک ہورہے ہیں اب سیاسی قیادت چاہے وفاق پرست ہو یا قوم پرست یاد رکھیں انہیں آج کے نوجوان کے مستقبل کو سامنے رکھ کر فیصلے کرنے ہیں اور ان فیصلوں کی ذمے داری لینی ہے ۔اب نوجوان صرف بیانات پر اکتفانہیں کرینگے ۔ ریکوڈک پاکستان اور بلوچستان کی قسمت بدل سکتا ہے تاہم اسکے لئے سیاسی اونر شپ ضروری ہے ۔