ہمارے زمانہ طالب علمی میں گردو پیش سے جان چھڑانے کے لیے فراریت کے دو تین ہی میڈیم ہوا کرتے تھے۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن، جاسوسی ناولز یا پھر کبھی کبھار بڑے پردے پر فلم۔ لہروں کے دو ش پر جو صدا کار چھوٹے سے ریڈیو سیٹ سے ہم تک پہنچتے وہ خوابوں کی دنیا کے مسافر لگتے۔ پاکستان ٹیلی ویژن پر جو ڈرامے پیش کیے جاتے وہ ہر وقت دل و دماغ پر چھائے رہتے۔ پھر بھی تشنگی کم نہ ہوتی تو ابن صفی کی عمران سیریز اور فریدی کی کہانیاں تخیل میں گھر کیے رہتیں۔ مگر شام ہوتے ہی ٹی وی ڈرامے کا انتظار شروع ہوجاتا۔ ایسے میں کچھ چہرے، ان کی آواز اور ایکسپریشن سحر طاری کردیتے۔ ڈاکٹر انور سجاد، طلعت حسین، شفیع محمد، عابد علی اور جمیل ملک کے ڈراموں کا انتظار رہتا۔ ہمارے پڑوس میں ایک شاعر تھے تجمل حسین جو ریڈیو اور ٹی وی کے لیے نغمے اور گیت لکھا کرتے تھے۔ وہ سیف الدیہن سیف جیسے عظیم شاعر اور نغمہ نگار کے شاگرد تھے۔ ایک دن کہنے لگے تم یونیورسٹی کے امتحانات کے بعد اگر فراغت ہو تو ریڈیو چلتے ہیں۔ نیکی اور پوچھ پوچھ۔ ہم ریڈیو پاکستان لاہور کی بلڈنگ میں آگئے۔ وہاں داخل ہوتے ہی دائیں جانب ایک عمارت تھی، اسے سینٹرل پروڈکشن یونٹ یعنی CPU کہا جاتا تھا۔ سٹیشن ڈائریکٹر ایوب رومانی تھے اور سی پی یو کے ہیڈ سلیم خان گمی صاحب۔ ایوب رومانی بھری بھرکم شخصیت کے مالک تھے اور سلیم خان گمی ذرا کوتاہ قامت اور نظر کے فریم کے موٹے شیشوں والی عینک لگائے رکھتے تھے۔ ان کے کمرے میں ’’مجھ سا تجھ کو چاہنے والا‘‘ جیسے مشہور گانے کا سنگر رجب علی بیٹھا تھا۔ پاس ہی کلاسیکل فنکارہ ترنم ناز اور درویش منش میوزک کمپوزر اختر حسین اکھیاں بھی تھے۔ سانولی سی رنگت والا یہ میوزک کمپوزر زیادہ تر پان منہ میں رکھتا تھا۔ اس لیے گفتگو میں وقفے بھی آتے تھے مگر باکمال فنکار تھا۔ سلیم خان گمی صاحب سے میں نے ذرا جھجکتے ہوئے کہا کہ میں صداکار بننا چاہتا ہوں۔ کہنے لگے اس کا آسان حل یہ ہے کہ ہمارے ہاں پروڈیوسر بن جائو۔ جاب بھی کرنا اور اپنے پروگرام میں صداکاری بھی۔ جی پروڈیوسر کیسے بنتے ہیں؟ تم بن گئے۔ جی وہ کس طرح؟وہ بعد میں بتائوں گا … پہلے یہ چٹ سنبھال کر رکھ لو۔ چٹ پر لکھا تھا ’’آپ پروڈیوسر بن جائیں گے‘‘۔ کچھ بھی سمجھ میں نہ آیا۔ خوشی تو ہوئی مگر شدید حیرانگی بھی۔ پھر گمی صاحب نے ایک پروڈیوسر صداکار سے ملوایا۔ یہ ہیں مدثر شریف، ہمارے سٹار پروڈیوسر اور صداکار۔ مدثر شریف بہت ہینڈسم تھا۔ اس کے شوبز میں بے تحاشا تعلقات تھے۔ پاکستان ٹیلی ویژن سے لے کر ایورنیو سٹوڈیو تک۔ دادا نذرالاسلام سے ٹی وی اور فلم کے بے شمار خوبرو چہروں تک۔ وہ کبھی کبھی ٹی وی ڈراموں میں لیڈ رول بھی کرتا تھا۔ خوبرو چہرہ … انتہائی خوبصورت آواز … مگر اسے ناکام کردیا ان ’’دیگر امور‘‘ نے جو شوبز کا لازمی حصہ ہوتے ہیں۔ مدثر شریف بھی اقبال ٹائون میں رہتا تھا اورمیں بھی۔ تعلیم مکمل ہوچکی تھی اس لیے وقت کے اعتبار سے راوی نے چین ہی چین لکھا ہوا تھا۔ مدثر شریف کی فیملی ملتان میں تھی اور وہ لاہور میں اکیلا رہتا تھا۔ گھنٹوں ہم بیٹھے آواز … ایکسپریشن اور مائیک کے حوالے سے مکالمہ کرتے۔ پھر اخبار میں ریڈیو پروڈیوسر کی نوکری کا اشتہار آگیا۔ بھاگم بھاگ اشتہار لے کر گمی صاحب کے پاس پہنچا۔ ریڈیو میں اپلائی ہوگیا۔ تحریری امتحان بھی پاس کرلیا۔ انٹرویو اسلام آباد میں تھا۔ ضیاء الحق کے زیر عتاب اور بعد میں مشرف کے ہم نوالہ ، ہم پیالہ ایئر کموڈور ظفر اقبال عرف زیڈ آئی صاحب نے اسلام آباد میں اپنے آراستہ فلیٹ میں ٹھہرنے کی دعوت دی اور ہم نے قبول کرلی۔ لاہور ریڈیو سٹیشن پر دوستوں نے انٹرویو کے لیے خاصا گائیڈ کیا مگر سلیم خان گمی صاحب نے تو وہ سوال بھی بتادیا جو پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن کے ڈائریکٹر جنرل جناب سلیم گیلانی امیدواروں سے کرنے والے تھے۔ یاد رہے کہ شہنشاہ غزل اور میرے لائف ٹائم فیورٹ مہدی حسن صاحب گیلانی صاحب کی دریافت تھے اور راجستھان کی کوئل ریشماں کو بھی وہی ریڈیو پر لائے تھے۔ گمی صاحب کہنے لگے وہ پوچھیں گے ’’میوزک کے متعلق کیا جانتے ہو‘‘؟ تم نے کہنا ہے ’’جی یہ تو نہیں بتاسکتا کہ یہ میاں کی ملہار ہے، یہ خیال ہے، یہ ٹھمری ہے، مالکونس ہے، یہ تیکھے سر ہیں اور یہ کومل۔ یہ جے جے ونتی ہے، یہ انترا ہے، یہ مکھڑا اور یہ استھائی۔ مگر یہ ضرور بتاسکتا ہوں کہ جناب یہ گانے والا سُر میں گاتا ہے یا نہیں‘‘۔ بالکل ایسا ہی ہوا اور میں ریڈیو پروڈیوسر بن گیا۔ لاہور ریڈیو اسٹیشن میں پاکستان ٹیلی ویژن پر نظر آنے والے اداکار کثرت سے موجود ہوتے تھے۔ عتیق اللہ شیخ صاحب بہت سکہ بند پروڈیوسر تھے۔ ان کے ساتھ ٹی وی سٹار ثروت عتیق نظر آجاتی تھیں۔ مگر نہ جانے کیوں میری نظریں ہمیشہ جمیل ملک کی متلاشی رہتی تھیں۔ وہ مل بھی جاتے تو ان سے بات نہ ہوپاتی۔ ا ن کی شخصیت میں کچھ ایسی بات تھی کہ ان کو کبھی مخاطب نہ کرسکا۔ پھر ایک دن مدثر شریف مجھے جمیل ملک کے کمرے میں لے گئے۔ جب انہیں پتہ چلا کہ میں پروڈیوسر منتخب ہوچکا ہوں تو بس تکلف کی دیوار تحلیل ہوگئی۔ میں ان سے شوبز کی شخصیات کے متعلق کرید کرید کر پوچھا کرتااور وہ مسکراتے ہوئے اپنی مخصوص ریڈیائی آواز میں حیرت انگیز قصے سناتے رہتے۔ ایک دن انہیں بتایا کہ مجھے عابد علی اور طلعت حسین بہت fascinate کرتے ہیں۔ کہنے لگے ’’یہ ایک پورا مینر ازم ہوتا ہے۔ آواز … باڈی لینگوئج … چہرے کے تاثرات اور وہ کردار جو آپ پرفارم کررہے ہو … سب کا آہنگ ایک ہوجائے تو جو تاثر ٹی وی پر آتا ہے وہ ناظرین کے دل میں گھر کر جاتا ہے۔ عابد علی کا تعلق کوئٹہ سے تھا اور شفیع محمد کا سندھ سے۔ دونوں لاہور میںاپنی اپنی منزل حاصل کرنے آئے تو جمیل ملک نے انہیں گھر میں جگہ دی، دل میں بھی اور شوبز میں بھی جگہ بنانے میں مدد دی۔ دونوں میں فطری ٹیلنٹ تھا۔ دونوں شدید محنتی تھے۔ محنت اگر درست سمت میں ہو تو کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔ عابد علی اور شفیع محمد چھوٹی سکرین کے سٹار بن گئے۔ شفیع کراچی چلے گئے اور عابد علی نے لاہور کو اپنا مسکن بنالیا ۔(جاری ہے)