صاحب کے بیانات لوگوں کے لیے ’’چسکا‘‘ بن گئے ہیں۔ سنتے اور سردھنتے ہیں اور نوبت بایں جارسید کہ جس روز صاحب غزل سرا نہیں ہوتے، لوگوں کو لگتا ہے، آج ’’ناغہ‘‘ ہو گیا ہے۔ فضا میں شگفتگی جیسے ہوا ہو جاتی ہے۔ صرف غزل سرائی ہی نہیں، صاحب کی کرم فرمائی بھی معرکہ آرائی سے کم نہیں۔ دو روز پہلے خبر آئی، صاحب لاہور کے دورے پر تشریف لا رہے ہیں اور بہت اہم فیصلے صادر فرمائیں گے۔ صاحب آئے اور اہم فیصلہ یہ سامنے آیا کہ گورنر ہائوس کی دیوار گرا کر اس کی جگہ جنگلا بنایا جائے۔ بعدازاں سرکار کی طرف سے مزید وضاحت آئی کہ صرف جنگلا نہیں، خوبصورت جنگلا۔ معلوم ہوا خزانہ خالی ہے پر اتنا بھی خالی نہیں کہ جنگلا، معاف کیجئے خوبصورت جنگلا بھی نہ بنایا جا سکے۔ یہ وقت آنے پر معلوم ہوگا کہ جنگلا بننے کے بعد گورنر ہائوس کا نام کیا ہوگا۔ جنگلا ہائوس؟ ٭٭٭٭٭ الیکشن سے پہلے خان صاحب نے گورنر ہائوسز کے بارے میں جو وعدہ کیا تھا، الحمدللہ وفا ہوا، جزوی ہی سہی۔ پورا وعدہ یہ تھا کہ حکومت میں آتے ہی میں بلڈوزر بھیجوں گا جو جاتے ہی گورنر ہائوسز کو گرا دیں گے۔ جزوی تعمیل کی شکل یہ ہوئی کہ بلڈوزر آئے، انہوں نے گورنر ہائوس کی دیواریں گرا دیں، چلئے کچھ تو گرا۔ محاورہ تو سنا ہی ہوگا کہ کچھ نہ گرنے سے کچھ نہ کچھ گرنا بہرحال بہتر ہے۔ سنا ہے صاحب موصوف تو وعدے کی مکمل تکمیل چاہتے تھے لیکن گورنر صاحبان پسر گئے کہ نہیں صاحب، ہم تو گورنر ہائوسز ہی میں رہیں گے۔ صاحب نے وعدے کی دہائی دی تو گورنر صاحبان مشروط طور پر گورنر ہائوسز خالی کرنے پر تیار ہو گئے۔ شرط یہ تھی کہ پہلے آپ۔ یاد ہوگا کہ خان صاحب نے خود بھی وزیراعظم ہائوس میں نہ رہنے کا وعدہ کیا تھا۔ بس اسی پہلے آپ کی تکرار پر معاملہ لٹک گیا اور دیواروں کی قربانی پر بات ٹل گئی۔ ٭٭٭٭٭ سابق صدر آصف زرداری نے کہا ہے کہ مجھے نہیں لگتا کہ یہ حکومت زیادہ دن چل پائے گی۔ لیکن باخبر لوگوں کو نہیں لگتا کہ زرداری صاحب کا اندازہ درست ہوسکتا ہے۔ زرداری صاحب نے یہ اندازہ حکمرانوں کی کبھی ختم نہ ہونے والی پکنک کو دیکھ کر لگایا ہوگا۔ ظاہر ہے ایسے حکمران جو ہر قسم کی ذمہ داری سے بری الذمہ ہوں، جن کا ہر دن کارنیوال اور ہر رات ہالووین کا تہوار ہو۔ آخر کتنے دن چل سکتے ہیں لیکن یہ کلیہ ان حکومتوں کے لیے ہے جو ’’منتخب‘‘ ہو کر قائم ہوئی ہوں۔ موجودہ حکومت اور وزیر داخلہ کے بارے میں زرداری صاحب کے صاحبزادے بلاول کہہ چکے ہیں کہ یہ الیکٹ نہیں، سلیکٹ ہے اور سلیکٹ حکومت کے لیے قاعدہ ہمیشہ کچھ اور رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زرداری صاحب کا اندازہ پورا ہونا مشکل ہے۔ بہرحال، بالائی خلا میں کچھ نہ کچھ بے کلی کے اشارے بھی ہیں۔ یہ اشارے کتنے درست ہوسکتے ہیں۔ کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ یہاں کواکب کچھ ہوتے ہیں، دکھائے کچھ اور جاتے ہیں۔ ایک اشارہ الیکشن کمشن کے سابق اہلکار نے اپنے مضمون میں دیا ہے۔ موصوف نے مشرف کے شفاف الیکشن میں شاندار خدمات انجام دی تھیں، تب سے ’’صادق و امین‘‘ سمجھے جاتے ہیں اور خان صاحب کی مداحی میں بھی بہت مضمون لکھ چکے ہیں۔ زیر تذکرہ مضمون میں انہوں نے اطلاع دی ہے کہ مارچ تک پنجاب میں قاف لیگ کی حکومت قائم ہو جائے گی، تحریک انصاف کی حکومت نہیں رہے گی۔ پی ٹی آئی کی حکومت پنجاب میں گویا بس تین ماہ کی مہمان ہے۔ کیا ایسا لگتا ہے؟ ٭٭٭٭٭ بہرحال، اس سے زیادہ معقول تجزیہ کراچی کے ایک اخبار کا لگتا ہے۔ اس اخبار کا غیرمرئی طاقتوں سے مرئی رابطہ ہے یعنی اس کی حب الوطنی میں کوئی شبہ نہیں۔ اس نے لکھا ہے کہ محب وطن طاقتیں جو تحریک انصاف کو حکومت میں لے کر آئی ہیں، اب اس حکومت کے کارناموں سے حیران ہیں اور قدرے پشیمان بھی ع سوچتا ہوں یہ کیا کیا میں نے لیکن اس اخبار نے لکھا ہے کہ اس کے باوجود اس حکومت کو قائم رکھا جائے گا، کم از کم ایک سال تک تو ضرور اور ایک سال کے بعد یہ دیکھا جائے گا کہ اب کیا کرنا ہے، اسی کو چلتا دینے رہنا ہے یا چلتا کرنا ہے اور اگر چلتا کردینا ہے تو پھر اس کے بعد کیا کرنا ہے۔ ظاہر ہے نواز اور زرداری کی طرف رجوع کا تو سوال ہی نہیں، گویا تبدیلی آئی بھی تو اسی تبدیلی کے اندر سے آئے گی۔ واللہ اعلم۔ چنانچہ فی الحال تو گلے پڑا ڈھول بجاتے رہیے، کم سے کم ایک سال تک۔ ممکن ہے اس کے بعد بہتر ڈھول مل جائے، ڈھول سے نجات تو ڈھول سائیں دینے والے نہیں۔ ٭٭٭٭٭ تحریک لبیک کے قائدین پر بغاوت کے مقدمے پر بعض حضرات شادمانی کے شادیانے بجا رہے ہیں لیکن ایسے ہی ایک سوال ذہن میں کلبلاتا ہے۔ غداری کا فتویٰ لگنے کا ڈر ہے، پھر بھی پیش خدمت ہے۔ سوال یہ ہے کہ جن تقاریر کی بنیاد پر قائدین کے خلاف بغاوت بلکہ غداری کے مقدمے بنائے جاتے ہیں، وہ اس معاہدے سے پہلے ہوئی تھیں جن پر حکومت نے دستخط کئے۔ بلاشبہ اس معاہدے میں حکومت نے جو وعدے کئے تھے (یعنی عہد) وہ ناقابل عمل تھے لیکن معاہدہ ہونے کا بجائے خود مطلب یہ تھا کہ مذکورہ تقریریں بغاوت نہیں تھیں۔ معاہدے کے مہینے بعد یہ راز کیونکر کھلا کہ یہ حضرات تو باغی اور غدار ہیں؟ مولانا نور الحق قادری مسئلے کی شرعی حیثیت سے آگاہ فرمائیں۔ ٭٭٭٭٭ جو صاحب ملکی صدارت کے عہدے پر فائز کر دیئے گئے ہیں، فرماتے ہیں کہ لاپتہ افراد کے معاملے پر بہت زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ادھر رپورٹ آئی ہے کہ تحریک انصاف کی حکمرانی کے سہ ماہی دور میں مزید 318 افراد لاپتہ ہو گئے۔ لاپتہ افراد کے معاملے پر خان اعظم نے اقتدار میں آنے سے پہلے کئی سو بار وعدے کئے تھے، خیر، وہ تو بس ’’یوٹرن‘‘ ہو گئے، اب کیا کیا جائے؟ ایک چھوٹی سی خبر مشعل راہ بن سکتی ہے۔ سندھ ہائیکورٹ میں لاپتہ محمود احمد قاسمی کی بیوی نے اپنی درخواست واپس لے لی اور عدالت کو بتایا کہ اسے ’’نامعلوم‘‘ نمبروں سے فون کئے جا رہے ہیں۔ چنانچہ ایک کیس تو ختم ہوا، باقی سارے لواحقین سے بھی اسی طرح درخواستیں واپس لے لی جائیں تو پورا مسئلہ ہی حل ہو جائے گا۔