پیپلزپارٹی ایسا پہلی بار نہیں کر رہی۔ اس سے پہلے 2007ء میں بھی انہوں نے رائے شماری میں حصہ نہیں لیا تھا۔ اپوزیشن جماعتیں کسی طرح سے ایسے اقدامات کرنا چاہتی تھیں کہ صدر مشرف کے دوبارہ اسی اسمبلی سے منتخب ہونے کے امکانات ختم ہو جائیں۔ یہی وہ مرحلہ تھا جب ایم ایم اے میں دراڑ پڑی، فضل الرحمن کا کردار ایسا مشکوک ہوا کہ دوبارہ سنبھل نہ سکا۔ دوسری طرف پیپلزپارٹی نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ وہ مخالفت نہیں کرے گی، مگر رائے شماری میں حصہ نہیں لے گی۔ نتیجہ ظاہر ہے، حصہ نہ لینے کا مطلب اپوزیشن کو ناکام کرنا ہی تھا۔ اس وقت حاصل کیا ہوا؟ این آر او سب کچھ انہی دنوں میں ہوا۔ اب بھی پیپلزپارٹی نے وزیر اعظم کے انتخاب میں حصہ نہیں لیا۔ نتیجہ کیا ہو گا اپوزیشن تقسیم ہو جائے گی۔ اگر پیپلزپارٹی ووٹ دے بھی دیتی تو شہباز شریف جیت نہیں سکتے تھے۔ اس لحاظ سے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر پڑتا ہے، مستقبل کا لائحہ عمل اور نقشہ اسی سے متعین ہو گا۔ ایک نئی جنگ شروع ہو گی۔ اپوزیشن لیڈر بننے سے تو شہباز شریف کو کوئی نہیں روک سکتا، اب آپ سینیٹ میں بھی اپوزیشن لیڈر کی تبدیلی کے امکانات دیکھیں گے۔ یہ اعزاز شیری رحمن کے پاس ہے، اب مسلم لیگ اسے واپس لینا چاہے گی۔ آئندہ صدر کے انتخابات کا بھی مسئلہ ہے درمیان میں آصف زرداری، فریال تالپور اور اب انور مجید پر مقدمات ہیں۔ انور مجید کون ہیں؟ جو لوگ زرداری صاحب کے معاملات جانتے ہیں، وہ سمجھ سکتے ہیں کہ ان پر ہاتھ ڈالنے کا کیا مطلب ہے اور اس کے اثرات کیا ہیں۔پیپلزپارٹی اپوزیشن سے اس بیوفائی کے بدلے میں کیا لینا چاہتی ہے۔ یہ بھی جلد پتہ چل جائے گا، ملتا ہے یا صرف ٹرخایا جاتا ہے۔ بہر حال اس نے اپنا کردار ادا کر دیا ہے۔ دوسری طرف کیا مسلم لیگ(ن) سخت قسم کی اپوزیشن کی صلاحیت رکھتی ہے۔ کیا ان کی قیادت کی بھی کچھ ایسی الجھنیں نہیں ہیں جو انہیں کھل کر کھیلنے سے روکتی ہیں۔ مسلم لیگی ارکان کی ایک بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے اور کھل کر اس کا اظہار کرتی ہے کہ شہباز شریف لیڈر آف اپوزیشن بننے کی صلاحیت نہیں رکھتے اور اگر رکھتے بھی ہیں تو اس وقت ڈرے ہوئے ہیں۔ ان پر اور ان کے لواحقین پر بھی کئی مقدمات ہیں۔ خاص کر ان کا داماد علی عمران خاصی مشکل میں ہے۔ دوسرے قائدین پر بھی مقدمات کھل رہے ہیں۔ اس لیے مشکل ہو گی۔کہ یہ جماعت اپنے قائد نواز شریف کا جارحانہ بیانیہ آگے بڑھا سکے۔ کہا یہی جائے گا، پارٹی کو بچانا ہے، ورنہ یہ تتربتر کر دی جائے گی۔ اس لیے احتیاط سے آگے بڑھو۔ تو طے یہ ہوا کہ مسلم لیگ(ن) اور پیپلزپارٹی دونوں اپنی اپنی الجھنوں کا شکار ہیں۔ ان کی قیادت کی ذاتی پریشانیاں بھی ہیں۔ قیادت سے مراد آصف زرداری اور شہباز شریف ہیں۔ کیا یہ سب ایک طے شدہ منصوبے کا حصہ ہے، کوئی بات چھپی نہیں رہ سکتی۔ مگر یہ سب عارضی مراحل ہیں۔ میرے پیش نظر معاملات کو ایک دوسرے انداز سے دیکھنا ضروری ہے۔ اور وہ یہ کہ اس سب توڑا مروڑی کے بعد آیا عمران خان اپنے ایجنڈے پر عمل پیرا ہو سکیں گے۔ اور نہ ہو سکے تو اس کے اثرات کیا ہوں گے۔اگر سارے پراسس کے ذریعے عمران خان کو مضبوط کیا جا رہا ہے تو کیا اس سے وہ اپنا ایجنڈہ پورا کر سکیںگے۔ سٹیٹس کو کی قوتوں کو شکست دے کر انقلابی اور بنیادی تبدیلیاں لا سکیںگے۔ کچھ باتیں تو ایسی ہیں جنہیں وہ قوت، عزم سے کام لیں تو خود ہی کر سکتے ہیں۔کچھ ایسی ہیں جن کا ہونا کئی نئے سوالات اٹھاتا ہے۔ مجھے بھٹو صاحب کی آمد یاد آ رہی ہے۔ اس وقت مشرقی پاکستان میں شکست کے بعد سیاسی میدان میں فوج ذرا پیچھے ہٹ گئی تھی۔ 92ہزار قیدی بھارت کے قبضے میں تھے، ملک کا آدھا حصہ جا چکا تھا، نوجوانوںمیں ایک طرح کی بغاوت تھی، بھٹو صاحب نے اپنے ہی لگائے ہوئے آرمی چیف اور ایئر فورس چیف کو حراست میں لے کر برطرف کر دیا تھا۔ وہ اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد کر سکتے تھے۔ ان پر بھی یہ الزام تھا کہ وہ ایسا نہیں کریں گے۔ یہ صرف انتخابی نعرے ہیں، مگر بھٹو نے اپنی طاقت سے فائدہ اٹھا کر اپنے نعروں اور آدرشوں پر عمل درآمد کا فیصلہ کیا۔ صنعتیں قومیا لیں، بینک بھی سرکاری تحویل میں آ گئے، ادویات سازی کا نیا جنرک نظام رائج کر دیا جو کمیونسٹ دنیا میں تھا۔ بیورو کریسی کے قوانین بدل ڈالے تا کہ وہ فیصلہ سازی میں حارج نہ ہوں، سارا انتظامی ڈھانچہ تبدیل کر دیا، اپنی مرضی کا آئین نافذ کر کے، اس میں اپنی پسند کی تبدیلیاں بھی کر ڈالیں، سیاسی جماعتوں اور اپنی ہی پارٹی کے رہنمائوں کی مشکیں کس دیں۔ کیا نہیں کیا۔ نیا ایجنڈا، نیا نظام، سب کچھ مسمار کر دیا۔ ایسا مسمار کیا کہ ملک ان کی لائی ہوئی ’’تبدیلی‘‘ کے بھینٹ چڑھ گیا۔ ان کا ایجنڈا بہت انقلابی تھا۔جو کوئی ایسے بلند وبانگ ایجنڈے کے ساتھ آتا ہے، وہ ملک کے اندر بہت بڑی ’’مشکل‘‘ لے کر بھی آتا ہے۔ وہ اس پر عمل نہ کر سکے تو معاشرے میں ایک عجیب ہیجان پیدا ہوتا ہے اور اگر عمل کرے اور اس میں اس ذہانت کا استعمال نہ ہو جو کسی انقلابی تبدیلی کا تقاضہ ہے تو ملک ایک عجیب مصیبت میں پھنس جاتا ہے۔ بھٹو کی ’’اصلاحات‘‘ نے ملک کی چولیں ڈھیلی کر دیں، اس قوم کے ساتھ وہ ہوا کہ ہم اب تک سنبھل نہ سکے۔ اس لیے تبدیلی کا ایجنڈا بھی لازمی نہیں ایسا ہو کہ اس کے نتائج ہمیشہ اچھے ہوں۔ مگر یہ بات بھی ہے کہ تبدیلی کی خواہش نے لوگوں کے دلوں میں اتنے ارمان پیدا کر دیئے ہوتے ہیں کہ ان پر عمل نہ ہو تو ایک الگ طرح کا ہیجان قوم کا مقدر بن جاتا ہے۔ اس وقت ہم پھر تاریخ کے اس موڑ پر ہیں جب قوم کو تبدیلی کے عمل کا مشاہدہ کرنا ہے۔ مثال کے طور پر چھوٹی سی بات ہے۔ اعلان کر دیا گیا کہ گورنر ہائوس بلڈوز کر دیئے جائیں گے، وزیر اعظم اس گھر میں نہیں رہیں گے جو وزیر اعظم کے تھے۔ قوم نے بڑے خطیر سرمائے سے بنایا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ اس پر عمل کرنے کے لیے پاپڑ بیلے جا رہے ہیں۔ شہباز شریف نے بھی ایسا اعلان کیا تھا کہ وہ لاہور میں بننے والے نئے چیف منسٹر ہائوس میں نہیں رہیں گے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ان کے وہاں نہ رہنے کے اعلان پر عمل کروانے کے لیے شاید دو گنا خرچہ کرنا پڑتا تھا، پھر بھی مسائل پیدا ہوتے رہتے ہیں۔ یہ تو خیر رسمی بات ہے۔ اصل امتحان بڑا سخت اور کڑا ہے۔ ہم قرضے نہیں لیں گے، فلاں فلاں منصوبے پر سرمایہ غلط خرچ کیا گیا، ہم اس کے بجائے یوں نہیں یوں کریں گے۔ یہ سب باتیں کئی مسائل پیدا کر سکتی ہیں۔ میں انہیں گنوانا نہیں چاہتا، مگر یہ بات طے ہے کہ اچھے اعلان لازمی نہیں اچھے نتائج لائیں۔ مثلاً،عمران خان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے خیبرپختونخوا میں ہسپتالوں کی حالت بدل ڈالی ہے۔ مجھے ذاتی طور پر اس کا علم ہے نہ تجربہ، مگر ان دنوں سپریم کورٹ میں اس بارے میں بحث ہو رہی ہے۔ شاید عمران نے دیار غیر سے کسی ماہر کو مشیر بنایا تھا۔ سپریم کورٹ کہتا ہے، وہ آتا ہے اور چلا جاتا ہے اور ہسپتالوں کی حالت ابتر کی ابتر ہی رہتی ہے۔ یہ سپریم کورٹ کا تبصرہ ہے۔ عمران خان نے اگر وفاق میں تبدیلی کے اس ماڈل کو استعمال کیا تو کون جانے، ملک میں ہسپتالوں کی کیا حالت ہوتی ہے۔ سنا ہے اس وقت 23ماہرین باہر سے آ کر بیٹھے ہوئے ہیں اور حقیقت پر غور کر رہے ہیں۔ یہ بھی بتایا گیا کہ 50لاکھ گھروں کی تعمیر کے لیے عمران نے بیرون ملک اپنے ایک دوست کو تاڑ رکھا ہے۔ اس لیے مجھے ڈر ہے کہ یہ تبدیلیاں کہیں ملک کے لیے نئے مسائل پیدا نہ کر دیں۔ تبدیلی نہ آنا ایک مسئلہ اور تبدیلی کا غلط انداز میں آنا دوسرا مسئلہ۔ بھٹو صاحب کے دور حکومت پر نظر ڈالیے۔ اس لیے یہ جو نئی حکومت سٹیٹس کو توڑ کر نظام بدلنا چاہتی ہے اور ہر شعبے میں انقلابی تبدیلی لانا چاہتی ہے، ایک طرح سے اس قوم کا بہت بڑا امتحان ہے۔ ایک طرف وعدے جس نے قوم کا دماغ آسمانوں تک پہنچا دیا ہے، دوسری طرف یہ خدشہ کئی تبدیلیاں ناتجربہ کاری کا شکار نہ ہو جائیں یا وہ ایسے پودے ہوں جو ہماری مٹی میں پھل پھول نہ سکتے ہوں۔ میں بار بار بھٹو دور کی مثال دیتا ہوں جس نے ملک کو تبدیلی ہی کے نام پر ایسا تباہ کیا کہ آج تک نہ سنبھل سکا۔ سو تبدیلی بنیادی مسئلہ تو ہے۔ اگر عمران ایسی پوزیشن میں آ جائیں کہ آزادانہ اپنے ایجنڈے پر عمل کر سکیں تو لازمی نہیں یہ بھی کوئی ملک کے لیے مفید بات ہو۔ میری اس رائے میں خرابی یہ ہے کہ غالباً اسٹیبلشمنٹ کا بھی کوئی ایسا رویہ ہو سکتا ہے۔ میرے لیے تو یہ شرم کی بات ہو گی۔ملک کے لیے بھی یہ کوئی پر سکون مستقبل کا اشارہ نہیں دیتی۔ یہ غیر معمولی ذہانت کا تقاضا کرتی ہے۔ یہ انتخابات قیادت کا بھی امتحان ہے اور قوم کے لیے بھی ایک بہت بڑی آزمائش ہے۔ مزید کیا کروں، صرف دعا ہے کہ اللہ سب مرحلے خوش اسلوبی سے طے ہوں۔