سیاست اختیار اور اقتدار کا ایسا کھیل ہے جس میں جیت کا انحصار بروقت اوردرست فیصلوں پر ہوتا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ روز اپنے کارکنوں کو انتخابات کی تیاری کرنے اور آئندہ وفاق اور بلوچستان کے علاوہ پنجاب میں بھی جیالوں کی حکومت کا دعویٰ کیا ہے۔ بلاول کے دعوے کو خواہش یا خوش فہمی کہا جا سکتا تھا اگر بلاول کے اعلان کے بعد فیصل واوڈا بجٹ بعد انتخاب کے اعلان کرنے کی بات نہ کر تے۔ بلاول اورفیصل واوڈا کے بیانات کے بعد ایک بات تو حتمی طور پر کہی جا سکتی ہے کہ اقتدار کے ایوانوں میں کچھ نہ کچھ چل ضرور رہا ہے جس کا دھواں کسی اوڑ اٹھتا نظر آرہا ہے۔نجیب احمد نے کہا ہے کہ دھواں سا اٹھ رہا ہے چار جانب کوئی صورت نکلنا چاہتی ہے ایک بات تو طے ہے کہ سیاسی جماعتوں نے اگلے انتخابات کی تیاری شروع کر دی ہے۔ اگر کوئی جماعت اس حوالے سے مخمصے کا شکار ہے تو وہ مسلم لیگ (ن) ہے جس کی قیادت اب تک مزاحمت اور مفا ہمت کے متضاد بیانیے میں الجھی ہوئی ہے اور کارکن مایوسی کا شکار ہیں۔ عدالتی نااہلی کے بعد جب تین بار کے وزیر اعظم میاں نواز شریف وزیر اعظم ہائوس سے ’’ووٹ کو عزت‘‘ دلوانے کے لئے نکلے تھے۔اس وقت انہوںنے مزاحمت اور مفاہمت کی پالیسی ایک ساتھ آزمانے کا فیصلہ کیا تھاجو کس حد تک کامیاب رہا ۔اس کا اندازہ عدالتی سزا کے باوجود ان کا جیل سے نکل کر لندن میں بیٹھ کر سیاست کرنے سے ہو جاتاہے۔یہ مزاحمتی اور مفاہمتی پالیسی کا ہی ثمر ہے کہ مسلم لیگ ن کی قیادت کرپشن کیسز میں ڈرامائی انداز میں ضمانتیں حاصل کر پائی ہے، یہاں تک کہ سپریم کورٹ نے بھی جمعہ کے روز عدالتی وقت کے بعد رعایت دینے پر سوال اٹھا دیا۔میاں نواز شریف نے حکمت عملی کے تحت خود مزاحمتی سیاست کا محاذ سنبھالا اور مفاہمتی سیاست کی ذمہ داری اپنے برادر خوردمیاں شہباز شریف کے سپرد کی اور کسی حد تک اہداف حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوئے۔ اپوزیشن کے لئے تین سال کی مدت میں اگر کوئی انہونی ہوئی تو وہ یہ تھی کرپشن کے الزامات، عدالتی سزائوں یہاں تک کہ میاں نواز شریف کے گوجرانوالہ میں جرنیلوں کے نام لے کر للکارنے کے باوجود بھی مسلم لیگ کا ووٹر پارٹی کے ساتھ کھڑا رہا اور ضمنی انتخابات میں مسلم لیگ کو واضح اکثریت سے جتوایا ۔شہباز شریف سے منسوب مفاہمتی بیانیے اور نواز شریف کے مزاحمتی بیانیے نے مسلم لیگ ن کے ووٹر کو مخمصے میں توضرور ڈالا مگر اس کے باوجود متوالے جماعت کے ساتھ جڑے رہے۔اس کی وجہ یہ تھی کہ مسلم لیگ ن کے کارکن کو بظاہریہ یقین تھا کہ نواز شریف اور شہباز شریف کے درمیان بیانیے کا اختلاف نواز شریف کی سیاسی حکمت عملی ہے اور اگر سوچ میں اختلاف موجود بھی ہے تب بھی اس اختلاف کو دونوں بھائیوں کے درمیان جنگ تصور نہیں کیا جاسکتا۔ ہاں یہ صورتحال اس وقت جنگ میں بدل سکتی ہے جب دونوں بھائی اپنی اپنی چھتری تلے اپنے حامیوں کو جمع کرنا شروع کر دیں گے جو مسلم لیگی کارکنوںکے لئے بظاہر فی الوقت ناقابل یقین ہے مگر نواز و شہباز کے بیانیہ میں اختلاف کے منفی اثرات اوپر سے لے کر نیچے کی سطح تک پارٹی رہنمائوں اور کارکنوں میں نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔ میاں شہباز شریف کے ایک مفاہمتی انٹرویو نے مسلم لیگ کی پہلی صف کی قیادت کو مدمقابل لاکھڑاکیا۔ شہباز شریف کے انٹرویو پر سابق وزیر اعظم شاہدخاقان عباسی کے سوال اٹھا نے اور خاقان عباسی کو رانا تنویر کے منہ توڑ جواب سے جہاں لیگی کارکنوں میں بد دلی پیدا ہوئی وہاں اسکا نتیجہ پی پی 38میں مسلم لیگ کی شکست کی صورت میںسامنے آیا۔ لگتا یوں ہے کہ میاں برادران کے بیانیے کے اختلاف کی وجہ سے آنے والے دنوں میں مسلم لیگ (ن) داخلی بحران اور انتشار کا شکار ہو جائے گی۔ مسلم لیگ ن کے انتشار سے پنجاب کی سیاسی بساط پر پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ق کو اپنی چالیں چلانے کا خوب موقع مل سکتا ہے۔ اقتدار کے ایوانوں کی خبر رکھنے والوں کا تو یہاں تک دعویٰ ہے کہ 2023ء کے الیکشن کے لئے صف بندیاں بھی شروع ہو چکی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق تحریک انصاف کو ٹکر دینے کے لئے دو آپشنز پر کام ہو رہا ہے ۔پلان اے میں مسلم لیگ ق اور پیپلز پارٹی کو پنجاب میں تحریک انصاف کے مقابلے میں اتارنے کا فارمولا طے کیا جا رہا ہے جبکہ پلان بی کے مطابق اگر شہباز شریف سے معاملہ طے کرنے کے بعد حالات سازگار ہوئے تو مسلم لیگ( ق) اور( ن) کو مل کر تحریک انصاف کو پنجاب سے بیدخل کرنے کا ٹاسک دیا جا سکتا ہے۔ سیاست ایک کھیل ہے اور کھیل میں قبل ا ز وقت کسی کی حتمی کامیابی کی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔مگر ایک بات طے ہے کہ مسلم لیگ ق پنجاب کی سیاست میں فیصلہ کن پوزیشن پر آ چکی ہے۔فردوس عاشق اعوان کو پنجاب اسمبلی میں جانے سے روکنا تحریک انصاف اور ق لیگ کے اتحاد کا باب بند ہونے کا اشارہ ہے۔ دوسری طرف میاں شہباز شریف چودھری نثاراور ق لیگ سے معاملہ طے کرنے کے خواہش مند ہیں۔الیکشن قبل از وقت ہوں یا اپنے مقررہ وقت 2023ء میں، لیکن انتخابات کی تیاری اور جوڑ توڑ کے لئے سیاسی فضا میں ارتعاش ضرور پیدا ہو رہا ہے۔ میاں نواز شریف کو بھی اب فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ اقتدار کی سیاست کرنا چاہتے ہیں یاعوامی طاقت سے مزاحمت کے ذریعے تبدیلی کی جدوجہد کریں گے۔ غالباََمیاں نوازشریف کو ان افواہوں کو بھی مد نظر رکھنا پڑے گا کہ حمزہ شہباز انقلاب کے لئے اقتدار کی قربانی دینے کو تیار نہیں ہیں۔ ان قیاس آرائیوں کو محض افواہ یا مخالفین کی سازش کہہ کر نظر انداز کرنا نواز شریف کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کے لئے بھی تباہ کن ثابت ہو سکتا ہے ۔؎ یوں ہی آتش فشاں کب جاگتے ہیں زمیں کروٹ بدلنا چاہتی ہے سیاست میں بھی اب کوئی نئی صورت نکلنا چاہتی ہے۔یہ فیصلہ میاں نواز شریف کو کرناہے کہ وہ اپنے ووٹر کو ابہام اور بے یقینی سے کب نکالتے ہیں کہ سیاست میں جیت کا انحصار بروقت اور درست فیصلے پر ہوتا ہے۔