صابر بخاری اور پنجاب ٹیکنیکل ایجوکیشن بورڈ کے سابق سربراہ ڈاکٹر محمدشفیق کی معیت میں ایل ڈی اے ایونیو ون ہاوسنگ سکیم میں سے ہوتے ہوئے ہم ای ایم ای کے پہلو میں واقع ایک عمارت کے سامنے جا پہنچے۔شاید شہر کی پوش سکیموں کے درمیان پرانی کسی آبادی کا حصہ ہے ۔ ’’یہ نور پراجیکٹ ہے‘‘ صابر بخاری نے بتایا۔ سارے راستے میں پوچھتا رہا کہ بھائی ہم کہاں جا رہے ہیں۔صابر کا جواب ہوتا ’’سرآپ وہاں جا کر خوش ہوں گے‘‘۔اندر داخل ہوئے تو بائیں طرف بہت سی نوجوان بچیاں کھانا کھا رہی تھیں۔بڑے بڑے میز اور ان کے ساتھ بینچ۔ میس جیسا ماحول۔ایک نوجوان آگے بڑھا اور اپنا تعارف سوشل میڈیا ہیڈ کے طور پر کرایا۔عبدالباسط ہمیں اپنے دفتر میں لے گئے اور ادارے کا تعارف ایک ڈاکومنٹری کی صورت میں کرایا۔معلوم ہوا کہ ایک وسیع علاقے پر بیک وقت کارخیر کی کئی شکلیں ہیں۔ ادارے نے ایک قابل قدر منصوبہ شروع کر رکھا ہے۔ایک خاندان کو زندگی بدلنے کے لئے چھ ماہ کا وقت دیا جاتا ہے۔ان چھ ماہ کے دوران خاندان کو مفت راشن فراہم کیا جاتا ہے۔با عزت روزگار کے لئے ہنر سکھایا جاتا ہے۔جو بچیاں اور بچے فنی تربیت کے لئے آتے ہیں ان کو کھانا فراہم کیا جاتا ہے۔ان نوجوانوں کو کمپیوٹر کے دفتری استعمال ‘ گرافک اور تھری ڈی ڈیزائننگ کی تربیت دی جاتی ہے۔موبائل کی مرمت سکھائی جاتی ہے۔بچیوں کو بیوٹی فکیشن اور سلائی کی تربیت دی جاتی ہے۔ہم زیر تربیت نوجوانوں کی کلاسوں میں گئے۔ان سے بات چیت کی۔ان کو فراہم کئے گئے تربیتی کورس کا جائزہ لیا کہ کیا وہ ان کو روزگار کے حصول میں مدد دے سکتا ہے ایک جگہ سپوکن انگلش کی کلاس ہو رہی تھی۔ہم نے ان نوجوانوں سے کچھ تجربات بانٹے۔ فنی تربیت کے شعبے سے نکلے تو ہمیں بائیں جانب ایک خوبصورت عمارت میں لے جایا گیا۔یہ چھوٹے بچوں کا سکول ہے۔یہاں ایل جی ایس اور اس معیار کے دیگر سکولوں کو ذہن میں رکھ کر ماحول فراہم کیا گیا ہے۔اساتذہ بھی اس استعداد کی مالک ہیں۔سکول میں چھٹیاں ہیں اس لئے ہم بچوں سے نہ مل سکے لیکن کشادہ، صاف ستھرے کمروں میں بچوں کی ڈرائنگز‘ پھولوں‘ کارٹون اور رنگ برنگے چارٹس سے معلوم ہو رہا تھا کہ دیہاتوں سے لائے گئے بچوں کو اعلیٰ ماحول فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی۔ہمیں بتایا گیا کہ یہ ادارہ دس سال سے کام کر رہا ہے۔معروف کاروباری شخصیت امجد وٹو اس ادارے کے روح رواں اور کو فاونڈرہیں۔امجد وٹو کوبصورت شخصیت کے مالک ہیں۔کئی صاحب ثروت افراد ان کے ساتھ مستقل ڈونر کے طور پر وابستہ ہیں۔ادارے کی دو بسیں ہیں جو نزدیک دیہات اور غریب آبادیوں سے لڑکیوں اور چھوٹے بچوں کو یہاں لانے لیجانے کے لئے رواں رہتی ہیں۔لڑکوں کو خود آنے کا انتظام کرنا ہوتا ہے۔ ادارے کے مرکزی دروازے کے دائیں طرف ایک پانچ چھ منزلہ عمارت کھڑی تھی۔پلستر ہو چکا تھا۔فرش اور رنگ و روغن کا مرحلہ ہے۔نور پراجیکٹ کے سی ای او کرنل (ر) مصدق ہاشمی ہمارے ساتھ تھے ۔یہ 70بیڈ کا ہسپتال ہے۔ہسپتال کی تعمیر سے علاقے کے لوگوں کو سستے علاج معالجے کی سہولت مل جائے گی۔وائرنگ ہو چکی ہے،کھڑکیا دروازے لگنا باقی ہیں۔پارکنگ کا انتظام بیسمنٹ میں کیا گیا ہے ،کرنل مصدق ہاشمی بتا رہے تھے کہ ہسپتال کے ساتھ والا خالی پلاٹ ڈی ایچ اے کا ہے،کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ پلاٹ خرید لیا جائے تاکہ مستقبل میں ہسپتال کے کام آسکے۔ ادارے کے اندر ایک ڈسپنسری اور دانتوں کے علاج کی سہولت پہلے سے موجود ہے۔ہم نے یہاں ڈاکٹروں سے ملاقات کی۔سہولیات کا جائزہ لیا۔عبدالباسط سے میں نے میس کو اندر سے دیکھنے کی خواہش ظاہر کی۔میس میں سامنے پلیٹ فارم پر بریانی کا بڑا دیگچہ پڑا تھا۔اس میں 30کلو چاول پک سکتے ہیں۔روزانہ دو ہزار لوگوں کا کھانا بنتا ہے۔ایک دن بریانی دوسرے دن روٹی اور سالن۔ساتھ میٹھا ہوتا ہے۔ پورا کمپلیکس گھومنے کے بعد جناب امجد وٹو کے دفتر میں آ گئے۔یہاں نامور ڈرامہ ڈائریکٹر شاہد محمود ندیم تشریف فرما تھے۔ہماری طرح شاہد محمود ندیم بھی پورے منصوبے سے ازحد متاثر تھے۔ہمیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ اتنا بڑا اور عمدہ منصوبہ ہمارے سمیت ذرائع ابلاغ کے علم میں کیوں نہ آ سکا۔ امجد وٹو سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ احباب مل جل کر اخراجات برداشت کر رہے ہیں اس لئے کبھی پروجیکشن کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی لیکن اب کام کا پھیلائو زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ اس منصوبے میں دیگر صاحب ثروت افراد کی شرکت چاہتے ہیں۔انہوں نے درد دل رکھنے والے کچھ لوگوں کی جانب سے حیران کن مالی تعاون کے واقعات سنائے ۔یقینا یہ ان کے ادارے اور خود امجد وٹو پر اعتماد کی علامت ہے۔ مستقبل قریب میں نور پراجیکٹ کے تربیتی کورسز کو ایک ٹیکنیکل کالج بنا کر زیادہ منظم اور موثر بنانے کا منصوبہ ہے۔نور پراجیکٹ جلد دیہی علاقوں میں جا کر وہاں کے نوجوانوں کو جدید زرعی آلات کے استعمال‘ فصلوں کو سنبھالنے اور جدید تصورات سے آگاہ کرنے کا منصوبہ ترتیب دے رہا ہے۔سبزیوں اور پھلوں کو محفوظ رکھ سکتے ہیں۔منافع بخش شجر کاری کر سکتے ہیں۔جناب امجد وٹو خود برطانیہ میں بہبود عامہ کے سرکاری شعبہ سے وابستہ رہے ہیں۔ وہ اسی ماڈل کو پاکستان میں متعارف کرانا چاہتے ہیں۔ان کی کاوشوں کا رخ پسے ہوئے اور کمزور طبقات کو معاشی آسودگی سے ہمکنار کرنا ہے۔امجد وٹو بتا رہے تھے کہ وہ جلد ایک ایسا ہائوسنگ منصوبہ شروع کر رہے ہیں جہاں اپنی حالت بدلنے کے لئے آمادہ خاندان کو ایک سال کی رہائش مفت فراہم کی جائے گی۔اس ایک سال کے دوران اس خاندان کے لوگوں کو ہنر سکھائے جائیں گے‘ تعلیم مکمل کرائی جائے گی اور پھر ان کی جگہ دوسرے خاندان کو یہ رہائش دیدی جائے گی۔نور پراجیکٹ کا یہ پہلو قابل تحسین ہے کہ لوگوں کو بھکاری بنانے کی بجائے اپنے پائوں پر کھڑا کرنے میں مدد دی جا رہی ہے۔