وزیراعظم نے قوم کو خوشحالی والا بجٹ دیا لیکن کمال ہے بلکہ افسوس ہے کہ اپوزیشن اسے عوام دشمن بجٹ کہہ رہی ہے۔ ایک لیڈر نے کہا کہ یہ عوام پر حملہ ہے‘ دوسرے نے کہا کہ عوام سے دشمنی کی گئی۔ بجٹ دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن بلاوجہ کی الزام تراشی کر رہی ہے ورنہ بجٹ میں تو ہر طرف خوشحالی ہی خوشحالی ہے۔ تنخواہیں ہی دیکھ لیجئے‘ پورے دس فیصد کا اضافہ نعمت غیر مترقبہ سے کم نہیں۔ غیرمترقبہ اس لیے کہ تین سال سے نہ تنخواہ بڑھی نہ الائونس اور مہنگائی بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچی کہ اب سو کی چیز دو سو کی ہوگئی۔ چنانچہ اچانک دس فیصد اضافہ ہوا تو غیر مترقبہ کی اصطلاح جتنی اس بجٹ پر فٹ بیٹھتی ہے کسی اور پر بیٹھ ہی نہیں سکتی۔ یعنی اندازہ لگائیے ان سرکاری ملازموں کی حیرت ناک مسرت کا،جواب سو کی چیز خوشی خوشی دو سو کی خریدیں گے کیونکہ انہیں پتہ ہے‘ ان کی تنخواہ دس فیصد بڑھ گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ انہیں سو کی چیز دو سو روپے کی ملے گی، تو دس روپے اضافی ہونے کی وجہ سے حساب یوں رہے گا کہ سو کی چیز دو سو نہیں بلکہ 190 روپے کی پڑے گی۔ سو میں دس کی بچت۔اس خوشحالی کو وہ سمیٹیں گے کس طرح؟ کسی اچھے مالیاتی کنسلٹنٹ سے مشورہ کرنا ہوگا کہ اس اضافی رقم کا وہ کیا کریں؟ رئیل سٹیٹ میں لگائیں‘ نئی کار خرید لیں یا پرانا اے سی بیچ کرنیا لگوالیں۔ اوپر سے حکومت نے ہیوی ڈیوٹی موٹرسائیکلیں بھی سستی کر دی ہیں۔ یہ شاندار موٹرسائیکلیں اب محض فیصل واوڈا اور عمران اسماعیل گورنر کی اجارہ داری میں نہیں رہیں گی‘ خوشحالی کے سونامی کے طفیل ہر ایرا غیرا یہاں تک کہ نتھو خیرا بھی یہ موٹرسائیکل خرید کر خود کو آرنلڈ شیوارزنگر سمجھ سکتا ہے۔ ٭٭٭٭ اتنی عدیم النظیر خوشحالی کی بہرحال کچھ نہ کچھ‘ ہلکی پھلکی قیمت تو ادا کرنا ہی پڑے گی۔ اخبارات نے لکھا ہے کہ سینکڑوں اشیا پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم کردی گئی ہے۔ سینکڑوں اشیا کی مکمل فہرست کس نے بنا دی۔ چنانچہ احتیاطاً فرض کرلیا جائے کہ دو سو اشیاء ہوں گی۔ نام چند ایک کے ہی لکھے ہیں مثلاً انڈے‘ گھی‘ پنیر‘ جوسز‘ نمک‘ اچار‘ انرجی سیور بلب‘ سائیکل اور لنڈے کے کپڑے وغیرہ پر سب مہنگے ہو جائیں گے۔ کوئی زیادہ خاص مہنگائی بہرحال نہیں ہوگی۔ انڈے اچار ہر کوئی نہیں کھاتا‘ لنڈے کے کپڑے بھی ہر ایک نہیں پہنتا‘ دیسی گھی تو ویسے ہی مضر صحت ہے۔ رہے سائیکل تو انہیں اب کون پوچھتا ہے‘ حکومت نے ہیوی ڈیوٹی موٹرسائیکل سستے کردیئے ہیں‘ یقین جانئے‘ اس تنخواہ پر بہت سے لوگ آپ کو ان موٹرسائیکل کی دکانوں پر قطاروں میں کھڑے نظر آئیں گے۔ ٭٭٭٭ وزیر موصوف نے بتایا کہ 383 ارب روپے کے اضافی ٹیکس عوام پر لگائے جائیں گے۔ اپوزیشن نے اس پر دہائی مچائی ہے حالانکہ اس رقم کی کچھ خاص اہمیت نہیں۔ 383 ارب روپے کو 22 کروڑ عوام میں تقسیم کر کے دیکھئے‘ بہت معمولی سا حاصل تقسیم آئے گا۔ یعنی فی کس مہنگائی چند ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہوگی۔ جو ہر شخص خوشی خوشی ادا کر دے گا کیونکہ ہیوی ڈیوٹی موٹرسائیکلیں سستی ہونے کے بعد عوام سے تو ویسے ہی خوشیاں سنبھالی نہیں جا رہیں۔ ٭٭٭٭ خام تیل پر 17 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس پر تیل تھوڑا مہنگا ضرور ہوگا، اتنا نہیں کہ ہیوی ڈیوٹی موٹرسائیکلوں میں ڈلوایا نہ جا سکے۔ ایک تو تنخواہوں میں دس فیصد کا عدیم النظیر اضافہ،اوپر سے سستی ہیوی ڈیوٹی موٹرسائیکلیں‘ عوام ہنس کر سترہ فیصد اضافی ٹیکس ادا کریں گے اور ان موٹرسائیکلز پر اڑے اڑے پھریں گے۔ ٭٭٭٭ اپوزیشن اس بات پر بھی اعتراض کر رہی ہے کہ وزیراعظم کے دفتر کے اخراجات میں 18 یا 19 کروڑ کا اضافہ کر دیا گیا ہے‘ اسی طرح ایوان صدر کے لیے بھی ایک ارب روپے کی رقم مختص کردی گئی ہے۔ اس معاملے میں اصل فریق اپوزیشن نہیں عوام ہیں۔ ان سے پوچھ لیا جائے کہ کیا انہیں اس معمولی سے اضافے پر اعتراض ہے؟ دس فیصد کی خوشی سے نہال اور ہیوی ڈیوٹی موٹرسائیکلز سے مالا مال عوام کہیں گے‘ ارے یہ 18‘ 19 کروڑ کیا‘ ایسے وزیراعظم پر سو کروڑ قربان کردیں، تب بھی کم ہیں۔ جس نے ہمیں اتنی خوشحالی عطا کردی ہے کہ گھر میں جگہ کم پڑ گئی اور اب سمجھ میں نہیں آ رہا کہ گھر میں ہم خود رہیں یا خوشحالی۔ اپوزیشن عوام کی خوشحالی سے جل گئی ہے‘ ورنہ اعتراض کرنے کی کوئی اور وجہ تو نظر نہیں آتی۔ ٭٭٭٭ ملک بھر کی طرح اسلام آباد میں بھی لوڈشیڈنگ نے کہرام مچا رکھا ہے۔ کئی علاقوں میں تو 12 گھنٹے کی لوڈشیڈنگ ہوئی۔ اس پر وفاقی وزیر حماد اظہر نے ٹویٹ کیا کہ اسلام آباد میں زیرو (0) لوڈشیڈنگ ہورہی ہے، یعنی زیرو برابر بارہ کے۔ فرض کیجئے‘ لوڈشیڈنگ 24 گھنٹے کی ہو تو حماد اظہر کا ٹویٹ کیا ہوگا؟ یہی کہ اس وقت ڈبل زیرو (00) لوڈشیڈنگ ہورہی ہے! بہرحال‘ سب کو زیرو لوڈشیڈنگ اور خوشحالی مبارک ہو۔ ٭٭٭٭