قومی اسمبلی کے بعد سینٹ نے بھی زینب الرٹ بل کثرت رائے سے منظور کر لیا جبکہ اپوزیشن کے کئی اراکین نے سزائیں مزید سخت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ بچوں کے خلاف جرائم پر دو گھنٹوں میں کارروائی اور تین ماہ میں سماعت مکمل ہو گی۔ جو افسر جرائم پر ردعمل نہیں دے گا اسے بھی پینل کوڈ کی دفعہ 182کے تحت سزا دی جائے گی۔ جنوری 2018ء میں قصور میں زینب قتل کیس سامنے آیا جس میں بچی کے ساتھ زیادتی کر کے اسے بے دردی سے قتل کیا گیا تھا۔ جبکہ 2016ء میں بھی اسی علاقے میں زیادتیوں کا سکینڈل سامنے آ چکا تھا جس میں بچوں کی سینکڑوں اخلاق باختہ ویڈیوز سامنے آئی تھیں۔ مگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کوتاہی غفلت لاپرواہی اور ملی بھگت کے باعث کسی ملزم کو بھی عبرت کا نشانہ نہ بنایا گیا۔ جو جرائم پیشہ عناصر کی حوصلہ افزائی کا باعث بنا۔ بچوں کے اغوا کے بعد زیادتی کا نشانہ بنا کر قتل کر دینا معمول بن چکا ہے‘ آئے روز کسی نہ کسی جگہ پر ایسے واقعات میڈیا کی زینت بنتے ہیں۔ ہر واقعہ پر لواحقین اس بات پر مشتعل ہوتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ملزمان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ زینب قتل کیس جب سامنے آیا تو اس وقت بھی اہل علاقہ نے قصور میں توڑ پھوڑ کی۔ کئی املاک نذر آتش کیں کیونکہ پولیس مظلوم خاندان کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی تھی۔ گو تب بھی پولیس افسران نے انسانیت سوز بھیانک واقعات کا اعتراف تو کیا لیکن ملزمان کو گرفتار کرنے میں کافی سستی دکھائی جس کے باعث لوگ زیادہ مشتعل ہوئے تھے۔ انٹرنیٹ کی وجہ سے دنیا گلوبل ویلج بن چکی ہے۔ اگر کسی جگہ پر کوئی سانحہ رونما ہو تو پورے سماج کا بہت بڑا ایشو بن جاتا ہے۔ بچوں کے زیادتی‘ بدفعلی‘ گینگ ریپ اور قتل جیسے واقعات پر ہر کوئی دکھی ہوتا ہے۔ آئین پاکستان کا آرٹیکل25کہتا ہے کہ قانون کی نظر میں سب شہری برابر ہیں۔ لیکن زمینی حقائق اس کے برعکس ہیں۔ یہاں پر طاقتور اور پیسے والے افراد کے لئے الگ قانون ہے جبکہ غریب اور مفلس کے لئے الگ۔ بچوں کے ساتھ زیادتی کے مرتکب افراد کے لئے سزا کا تعین موجود ہے لیکن قانون نافذ کرنے والے اداروں کی نااہلی کی بنا پر اس پر کماحقہ عملدرآمد نہیں ہوپایا۔2016ء میں وفاقی حکومت نے پینل کوڈ کے اندر ترمیم کر کے پورنو گرافی کی ایک کلاز (B 392) شامل کر کے 292سی میں سزا کا تعین کیا تھا۔ اس کے علاوہ چائلڈ پروٹیکشن ویلفیئر بیورو بھی موجود ہے۔ جس کا کام بچوں کی حفاظت کرنا ہے۔ بدقسمتی سے قانون اور ادارے ہونے کے باوجود بچوں کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ اپوزیشن اور حکومت نے مل کر اب قومی اسمبلی اور سینٹ سے ایک بل پاس کیا ہے جس کا نام ’’زینب الرٹ رسپانس اینڈ ریکوری ایجنسی‘‘ رکھا گیا ہے۔ اس بل کے مطابق گمشدہ اور لاپتہ بچوں کے لئے ڈائریکٹر جنرل تعینات کیا جائے گا۔ بچوں کے خلاف جرائم پر کم از کم 10سال اور زیادہ سے زیادہ 14برس قید کی سزا دی جا سکے گی۔ اس کے علاوہ 10لاکھ روپے جرمانہ بھی ہو گا۔ گمشدہ بچوں کے لئے باقاعدہ ڈیٹا بیس تیار کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لئے 1099ہیلپ لائن میں قائم کی جائے گی۔ جس پر بچے کی گمشدگی ‘ زیادتی ‘ اغوا کی فوری طور پر اطلاع ٹی وی چینلز‘ سوشل میڈیا‘ ہوائی اور ریلوے اڈوں پر مواصلاتی کمپنیوں کے ذریعے دی جائے گی۔ اس بل میں سب سے اہم بات یہ شامل ہے کہ جو بھی سرکاری افسر 2گھنٹے کے اندر اندر جرائم پر ردعمل نہیں دے گا۔ اسے بھی پینل کوڈ کی دفعہ 182کے تحت سزا دی جائے گی۔ ماضی میں بھی اگر قانون نافذ کرنے والے ادارے بروقت کارروائی کرتے تو کئی بچے موت کے منہ میں جانے سے بچ جاتے لیکن پولیس روایتی انداز میں ہی حساس کیسز پر بھی کارروائی کرتی ہے جس کے باعث بڑے بڑے سانحہ رونما ہو جاتے ہیں۔ پینل کوڈ کے تحت کارروائی والی شق اگر حکومت تمام جرائم میں بھی شامل کر دے تو جرائم میں کافی حد تک کمی واقع ہو سکتی ہے۔ والدین کو بھی اپنے بچوں کا مستقبل محفوظ بنانے کے لئے ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ جب کسی معاشرے میں بے راہ روی عام ہو جائے تو پھر اپنے بچوں کی حفاظت اور دیکھ بھال کے لئے ہمہ وقت چوکس رہنا والدین کا بھی فرض ہے۔ اس کے علاوہ بچوں کے کھیل کود اٹھنے بیٹھنے اور دوست احباب پر بھی کڑی نظر رکھیں کیونکہ اچھی اور بری محفل کا بچوں کی شخصیت پر اثر پڑتا ہے۔ سوشل میڈیا کا استعمال بھی کئی طرح کی خرابیاں پیداکرتا ہے جبکہ آج کل کے دور میں ہر بچے کو سوشل میڈیا تک رسائی میسر ہے۔ فلمیں ڈرامے اور ہیجانی کیفیت پیدا کرنے والے ڈائیلاگ سے حتی المقدور اجتناب کیا جائے۔ زینب قتل کے بعدسر عام پھانسی دینے کے مطالبے نے زور پکڑا تھا لیکن حالیہ بل میں ایسی کوئی شق شامل نہیں کی گئی۔ سزا بھی صرف 10سے 14برس رکھی گئی ہے۔ سزائے موت کا قانون بنایا گیا نہ ہی سرعام پھانسی کے مطالبے پر غور کیا گیا۔ اسلام نے سرعام سزائوں کو دوسروں کے لئے بطور عبرت مقرر کیا ہے۔ جن ملکوں میں سرعام پھانسی ‘سرقلم کرنا یا پھر سنگسار کرنے کا قانون نافذ ہے۔ وہاں پر جرائم کی شرح انتہائی کم ہے۔ لیکن جن ملکوں میں سزا دینے کا رواج نہیں وہاں پر طوائف الملوکی عروج پر ہے۔ اس لئے حکمران اگر ملک میں امن و امان اور جرائم کا خاتمہ چاہتے ہیں تو انہیں آئین و قانون میں موجود قوانین پر سختی سے عملدرآمد کرنا ہو گا۔ تاکہ افراتفری‘ بے راہ روی اور دیگر خرافات کا خاتمہ اور معاشرے میں امن و سکون قائم ہو۔ زینب الرٹ بل کو فی الفور پورے پاکستان میں نافذ کیا جائے تاکہ بچوں کامستقبل محفوظ ہو سکے۔