وفا کی کمیابی کی طرح، ہْنر کی ناقدری کا بھی رونا، بہت پْرانا ہے۔ اس کی دشمنوں سے تو کیا شکایت؟ بقول ِسعدی ہْنر بچشم ِعداوت، بزرگ تر عیب است گْل است سعدی و در چشم ِدشمنان خار است ا(دشمنوں کو، خوبی ہی سب سے بڑی بْرائی دکھائی دیتی ہے۔ سعدی کی مثال پھْول کی سی ہے، مگر دشمنوں کے نزدیک، وہ کانٹا ہے)۔ زمانہ بدلا اور شاعر کا شکوہ بھی! ہوا کچھ اَور ہی عالَم کی چلتی جاتی ہے/ہْنر کی عیب کی صورت، بدلتی جاتی ہے/لیکن رفتہ رفتہ، نوبت باین جا رسید کہ/عیب نکلا، جو ہْنر پیدا کیا/ہم نے کھویا، جس قدر پیدا کیا خوبی کو خوبی نہ سمجھنا، اچھائی کو اچھائی نہ گرداننا، ایک خرابی ہے۔ لیکن، جب عیب ہی کو ہنر تسلیم کر لیا گیا اور بْرائی نے جگہ لے لی اچھائی کی، تو اس سے چیخ کر، ڈنکے کی چوٹ جھوٹ بولنے والے بھی پیدا ہو گئے۔ بحث کے دونوں جانب، آپ کو اب ایسے لوگ ملتے ہیں، ذرا سے سچ میں، جو ڈھیر سارا جھوٹ ملا کر پیش کرتے ہیں۔ امریکن صدر ٹرمپ میں ہزار خرابیاں ہوں گی۔ وہ خود سر ہیں، گھمنڈی ہیں، متعصب ہیں، لیکن ان کے مقابل، ایسے مہرے کو ڈیموکریٹس کے ٹکٹ پر آگے بڑھایا گیا ہے، جو ڈھنگ کے دو فقرے نہیں جوڑ سکتا۔ ظاہر ہے کہ ٹرمپ ان رکاوٹوں کے باوجود، اگر دوسری دفعہ جیت گئے تو اسٹیبلشمینٹ کے خلاف کھْل کھیلیں گے۔ امریکن اسٹیبلشمینٹ دو چیزوں پر کبھی سمجھوتہ نہیں کرتی۔ اول اسرائیل اور دوم جنگ جْوئی! اسرائیل کے حق میں تو ٹرمپ وہ کچھ کر گئے ہیں، جو اگلوں سے بھی نہیں ہوا۔ ان کا پّتہ، کاٹا اس واسطے جا رہا ہے کہ نہ صرف وہ نئی جنگیں شروع نہیں کرنے دیتے بلکہ افغانستان سے بھی بساط لپیٹنا چاہتے ہیں۔ ان سے پہلے بھی، جس جس نے ایسی جسارت کی، بے آبرو بھی ہوا اور اقتدار سے بھی گیا۔ ان کے بھی پَر کاٹنے کا تازہ بندوبست سامنے آ گیا ہے۔ اسلام آباد کی لال مسجد کا واقعہ، لگ بھگ تیرہ سال پرانا ہے۔ اس وقت کے حکمرانوں نے، مسئلے کو بجاے حل کرنے کے، خود الجھایا تاکہ پوری دنیا دیکھ لے۔ کہا گیا کہ ریاست کے اندر یہ ریاست قائم کرنے کی کوشش ہے۔ پھر وہ رات آئی جب، مرد و زن اور بڑے اور بچے، بلا تخصیص، سب مار ڈالے گئے۔ نام کا وزیر ِاعظم، کہا جاتا ہے کہ اپنی پسندیدہ آئس کریم کھانے چلا گیا تھا۔ اصلی حکمران نے، جو مْکے باز بھی تھا، البتہ پوری ذمہ داری قبول کی۔ خیر، کسی کی بددعا انہیں ایسی لگی کہ دونوں ہی عبرت کا نشان بن گئے۔ اب سنیے امریکا کے شہر سیَیٹل کی کہانی۔ یہاں چند سو مشتعل مظاہرین نے، پچھلے دو ہفتوں سے، شہر کے صدر کا لگ بھگ ایک کلو میٹر رقبہ قبضے میں کر رکھا ہے۔ پہلے یہاں واقع پولیس اسٹیشن سے پولیس والوں کو، انہوں نے مار بھگایا اور پھر خود مختاری کا اعلان کر دیا۔ نام اس "ریاست" کا چَیز رکھا گیا ہے۔ یہ قبضہ، دو ہفتے سے جاری ہے اور طاقت کا استعمال، اب تک نہیں کیا گیا۔ خصوصاً شہر اور ریاست کی حکومتیں، صرف مذاکرات کے لیے کوشاں ہیں۔ یہ سلوک ہے دنیا کے سب سے طاقتور مْلک کا اپنے "باغیوں" کے ساتھ۔ اس کا موازنہ، ان مْکے باز صاحب سے ذرا کیجیے جو رِٹ قائم کرتے کرتے، مْلک سے ہی سدھار گئے۔ اور ع ایسے گئے، کہ خط بھی نہ بھیجا رسید کا! اردو کو بہترین انشا پرداز، دلی والوں نے دیے ہیں۔ مگر کمال ِفن اور شہرت ِعامہ، لازم و ملزوم تو ہیں نہیں۔ کتنے ہی صاحب کمالوں کو، زمانہ کھا گیا اور ادب کے کتنے ہی شاہکار، زمانے کی گَرد میں اَٹے پڑے ہیں۔ جو شہ پارے، ہماری دسترس میں ہیں، ان سے بھی ہم بے فیض رہے جاتے ہیں۔ آزادی کے ہنگاموں کو پنجاب والوں کے بعد، سب سے قریب سے دلی والوں نے دیکھا۔ دلی والوں میں بھی وقیع ترین تحریریں، شاہد احمد دہلوی کی ہیں۔ ان کا مضمون "دلی کا غسل ِخونیں" ان دنوں دوبارہ نظر سے گزرا۔ آنکھوں دیکھا حال، شاہد صاحب یوں لکھتے ہیں۔ (مفہوم کی ترجمانی( دلی کے مسلمان محلے، ایک ایک کر کے کاٹے جا رہے تھے اور ریڈیو پر گاندھی ہر روز اپنی یہ پرارتھنا چلواتا تھا کہ مسلمان خونریزی چھوڑ دیں اور اپنے ہتھیار، میرے پاس جمع کرا دیں۔ لٹے پٹے مسلمان، جامع مسجد میں بھیڑ بکریوں کی طرح بھرے جاتے رہے۔ ایک روز یہ مکار، مسجد کے دورے پر پہنچا تو کانگریسی مسلمانوں نے، اس طرح اس کے قدم لیے، جیسے مہاتما نہیں، ساکشات پرماتما آ گیا ہو! گاندھی مسجد میں دو چار منٹ پھرتا رہا، مگر منہ سے ایک لفظ نہیں پھْوٹا۔ اگلے ہی روز، جامع مسجد بھی مسلمانوں سے خالی کرا لی گئی اور انہیں کسی میدان میں ہانک دیا گیا۔ اب ایک واقعہ معروف ہندوستانی شاعر کلیم عاجز مرحوم کا لکھا ہوا سنیے۔ 1947ء میں وہ، چند روز کراچی میں رہے۔ کہتے ہیں کہ یہاں کے بازار سے گزرتے ہوئے، ایک روز بڑا شور اٹھا۔ پتا چلا کہ مسلم اور غیر مسلم جھگڑ رہے ہیں۔ آگے بڑھ کے دیکھا کہ کچھ مسلمان، غیر مسلموں کی دکانیں لْوٹ رہے ہیں۔ اچانک ایک گاڑی وہاں آ کر رکی۔ اس میں سے محمد علی جناح اْترے۔ عوام نے قائد ِاعظم زندہ باد کے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ لیکن جناح صاحب کے چہرے پر غم و غصہ اور حقارت کے جیسے تاثرات تھے، بقول ِکلیم عاجز، وہ عْمر بھر پھر کہیں نہیں دیکھے۔ جناح صاحب نے اپنے ساتھ آنے والے جنرل(اکبر) سے کڑے لہجے میں کہا "لْوٹ مار کرنے والے پاکستان کے دشمن ہیں‘‘۔ کبھی کبھی، تاسف سے یہ خیال آتا ہے کہ قائد ِاعظم دو تین برس ہی اَور جی جاتے تو ہر ادارے کی کَل سیدھی کر جاتے۔ لیکن ساتھ ہی سوچتا ہوں کہ ان کا انتقال، اگر دو سال پہلے ہو جاتا، تو پاکستان، کیا بن بھی پاتا؟؟