یہ تقسیم سے پہلے کی بات ہے جب سرخ پوش رہنما باچا خان کانگریسی رہنما جواہر لعل نہرو کو لے کر وزیرستان پہنچے ان کے اس دورے کا مقصد پشتونوں کو ہندوستان کے بٹوارے کے نقصانات سے آگاہ کرنا اور متحدہ ہندستان کی ماتحتی کے لئے منانا تھا،باچا خان کی یہ کوشش خاصی مہنگی ثابت ہوسکتی تھی یہ دورہ جواہر لعل نہرو کے لئے خطرناک بھی ہوسکتا تھا کہ قبائلی علاقے اگرچہ دور دراز کے کٹے ہوئے علاقے تھے لیکن ایسا نہیں تھا کہ انہیں سیاسی صورتحال کا یکسر علم نہ تھا اور وہ ہندؤں کے عزائم سے واقف نہ تھے انگریزسرکار نے نہرو کے اس دورے کے لئے خاطر خواہ حفاظتی انتظامات کررکھے تھے ان انتظامات کے ساتھ باچا خان اپنے رہنما جواہر لعل نہرو کو قبائلی عمائدین سے ملوانے کے لئے وزیرستان لے آئے اور وہیں وہ کچھ ہوتے ہوتے رہ گیاجس کا فرنگیوں کو خدشہ تھاباچا خان صاحب نہرو کے ہمراہ پشتونوں کواکھنڈ بھارت پر قائل کررہے تھے کہ مہر دل محسود نامی بزرگ غصے میں آگئے ،وہ تیزی سے آگے بڑھے اور قرب تھا کہ ان کا بھاری ہاتھ جواہر لعل نہرو کے سرخ و سپید کشمیری چہرے پر نشان چھوڑ جاتا انگریز پولیٹیکل ایجنٹ تیزی سے آگے بڑھا اور بیچ میں آگیاورنہ پشتون مشرکا ہاتھ کام کرگیاتھا اس واقعے کے بارے میں بعد میں اسی پولیٹکل ایجنٹ نے اپنی ڈائری میں لکھا ہے کہ ’’مہر دل محسود نے باچا خان کو سخت سست سناتے ہوئے کہا کہ ہم اسے اپنا پڑوسی برداشت نہیںکرتے اور تم اسے بے ختنے کو یہاں ہمارے پاس لے آئے ہو؟‘‘ انگریز افسر لکھتا ہے اس پر باچا خان نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا ’’جانتے ہو یہ کون ہے ؟‘‘اس پر مہر دل محسود نے غصے میں گالی دے کر کہا کہ یہ یہ ہے۔ اسی پولیٹکل ایجنٹ نے اپنی ڈائری میں لکھا کہ ہم نے باچا خان کوپہلے ہی کہا تھا کہ ہم بھی فاٹا کے مزاج سے واقف ہیں نہرو کو یہاں لانے کی غلطی مت کرنالیکن وہ نہیں مانا‘‘۔ ا س واقعے کو کئی دہائیاں گزرچکی ہیں لیکن کیلنڈروں کے بدلنے سے خون کی تاثیر تو نہیں بدل جاتی یہی بات باجوڑ بار ایسوسی ایشن کے تقریب میں اسٹیج سیکرٹری کو سمجھنا چاہئے تھی کہ مہر دل محسود پشتونوں میں پہلا اور آخری ’’مشر‘‘ تو نہ تھا ،جب پشتون پاکستان بننے سے پہلے پاکستان کی مخالفت برداشت نہیں کرسکتے تھے تو آج پاکستان پر تبرہ کرنے والوں کو کیسے خوش آمدید کہیں گے۔ پشتونوں کی حب الوطنی سامنے رکھنے کے باوجود میں اس واقعے کی بلیک اینڈ وہائٹ میں مذمت کرتا ہوں ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا ،ہارون رشیدجماعت اسلامی کے جہاندیدہ رکن ہیںاپنے علاقے میں خاصے مقبول ہیں،جماعت اسلامی کے ساتھ ساتھ حق گوئی اور بے باکی انکی پہچان ہے یہ وہی ہارون رشید ہیں جو اس وقت لاپتہ افراد کے لئے آواز اٹھاتے تھے جب مسنگ پرسن کی اصطلاح اجنبی اجنبی سی تھی ،یہ وہی ہارون رشید ہیں جس نے 2006ء میں مدرسے پر فضائی حملے میں 80طلباء کی شہادت پراسمبلی نشست کو لات مارتے ہوئے احتجاجا اپنا استعفیٰ اپنی قیادت کو پیش کر دیا تھا ۔۔۔ ہارون رشید کی یہ بے باکی اور جرأت اپنی جگہ لیکن مجھ سے یہ بات ہضم نہیں ہو رہی تھی کہ انہوں مہمان محسن داوڑ پر کیسے ہاتھ اٹھالیا ؟بے شک محسن داوڑ کا بیانیہ متنازعہ ہے لیکن وہ اس وقت مہمان تھا اور مہمان کی عزت وتکریم کو پشتون روایات میں تحفظ حاصل ہے۔ اس بارے میں ہارون رشید سے ٹیلی فون پربا ت ہوئی انہوں نے کہا کہ مہمان روایات کا مکمل پاس رکھا گیا محسن داوڑ کو کسی نے ہاتھ بھی نہیں لگایا یہ سارا کیا دھرا اسٹیج سیکرٹری کاتھا جس نے منع کرنے اور بار کونسل سے اجازت لئے بغیر محسن داوڑ کو باجوڑ ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کی تقریب حلف برداری میں مدعو کیا ، ہارون رشید کا کہنا ہے کہ تقریب کی انتظامی میٹنگ میں محسن داوڑ کو لانے کی بات کی گئی تھی لیکن ہم نے شدت سے مخالفت کی کہ ایک متنازعہ شخص کو آخر کیوں بلایا جائے جس کے بعد محسن داوڑ کا نام مہمانوں کی فہرست سے خارج کردیا گیا لیکن پروگرام کے دن محسن داوڑ کو اپنے درمیان دیکھ کر سب ہی حیران اور بدمزہ ہو گئے اس کے باوجود ہم نے خیال کیاکہ وہ اتنے دور سے آہی گیا ہے توہمارا مہمان ہے اسکی خاطرداری ہم پر مقدم ہے ہم نے یہ بات انتظامیہ تک بھی پہنچادی طے یہی پایا کہ انہیں اسٹیج پر نہیں بلایا جائے گا لیکن اسٹیج سیکرٹری نے پھر بدعہدی کی اورمحسن داوڑ کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دے دی جو ہماری برداشت سے باہر تھا ہم کیسے اس شخص کو سنتے جس کی پارٹی کے جلسوں میں پاکستان کے خلاف نعرے لگتے ہیں ،پاکستان توڑنے کی باتیں ہوتی ہیں تب میں اٹھا اور وہ سب کچھ ہوا جو سب نے دیکھا۔ ہارون رشید کا کہنا تھا کہ جو کچھ بھی ہوا اس میں محسن داوڑ کو کسی نے ہاتھ تک نہیں لگا یایہ سارا کیا دھرا پیپلز پارٹی کے اخونزداہ چٹان اور اسی اسٹیج سیکرٹری کا تھا جسے اسے یہ سب بھگتنا بھی پڑا۔ ہارون رشید کاموقف اپنی جگہ لیکن کوئی بھی مہذب شخص اس دھینگا مشتی کی حمایت نہیں کرسکتامیرا بھی یہی موقف ہے کہ ہارون رشید اپنے جذبات کنٹرول میں رکھتے اور یہی بات علی وزیر ،محسن داوڑ اور دیگر سے بھی کہتا ہوں کہ وہ پاکستان کے حوالے سے ایک انتہا پر نہ جائیں ،جلسوں میں پاکستان کے خلاف نعرے روکیں ،نفرت کو پروان نہ چڑھائیں لیکن پی ٹی ایم ہی کے نظریاتی سرخیل دلیل دیتے ہیں کہ علی وزیر کا دل چھلنی ہے اسکے گھر سے اٹھارہ جنازے اٹھ چکے ہیں اسکا لب ولہجے میں شیرینی کہاں سے آئے اوریہی موقف ہارون رشید کے وکیلوں کاہے کہ پاکستان ان کا عشق ہے پی ٹی ایم کی تقاریر سے ان کے دل چھلنی ہیں۔ وہ غیرت مند پشتون ہیںاور اپنے عشق کی توہین کیسے برداشت کریں ؟ وہ کیسے ایسے متنازعہ کرداروں کو سنیں جن کے جلوسوں میں پاکستان کو دہشت گردی کا منبع قرار دیا جاتا ہے ۔۔۔ وہ کیسے ان سیاسی رہنماؤں کی باتوں پر سردھنیں جن کے جلسوں میں قومی پرچم اجنبی ہوتا ہے ۔۔۔جو دلیل علی وزیر کے وکیل لے کر آتے ہیں وہی دلیل ہارون رشید کے حامی بھی لے آئے ہیں ۔۔۔ بات جو بھی ہو مکالمہ کی جگہ باقی رہنی چاہئے لیکن احتیاط لازم ہے۔