اگرنظام حکومت ہی مٹھی بھر اشرافیہ کے مفادات کے تحفظ پر مرکوز ہو، معاشی وسائل پر چند خاندانوں کی اجارہ داری ہو اور ٹیکسوں کا بوجھ عوام پر تو سیاست کا وہی حال ہوگا جو اس وقت سامنے ہے۔آمریت تو ہے ہی انسانیت سوز لیکن کیا فرق پڑا ہے جمہوریت کے آنے سے؟ پچھلے تیرہ سالوں کے جمہوری تجربے کے بعد یہ سوال بھی بے معنی ہوگیا ہے کہ کون سی سیاسی پارٹی برسراقتدار ہے۔ مقصد عوام کی تذلیل کا بیانیہ دہرانا نہیں ہے بلکہ ریاست کی بے بسی کا ماتم کرنا ہے کہ کیسے مٹھی بھر اشرافیہ نے اسے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ ملتانی دانشور اور شاعر رفعت عباس کے بقول، ریاست کے پودے کو حب الوطنی کی زرخیز زمین میں لگانے کے بجائے ایک گملے میں رکھ دیا گیا ہے، نہ تو اس کے بڑھوتری ہوتی ہے اور اس پر پھول، پھل لگتے ہیں اور نہ ہی اس پر پرندے چہچہاتے ہیں۔ چونکہ ملک کی خالق جماعت آل انڈیا مسلم لیگ نے آزادی کی جدوجہد میں مذہبی طبقے کو اپنے ساتھ ملایا تھا ، اشرافیہ نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے انہیں سے ہراول دستے کا کام لیا۔اگر چہ قائد اعظم نے قانون ساز اسمبلی سے خطاب میں واشگاف اعلان میں کردیا تھا کہ پاکستان کا دستور ایک جدید ریاست قائم کرے گا جہاں شہریوں کو بلا تفریق رنگ، نسل اور عقیدے کے برابری کے حقوق حاصل ہونگے لیکن انکی آنکھیں بند ہوتے ہی سٹیٹس کو پاورز نے مذہبی جماعتوں کو سیاست کے میدان میدان میں اتاردیااور انکے پرتشدد احتجاج اور ہنگاموں کی آڑ میں ملک کو تنگ نظری، انتشار اور آمریت کے راستے پر لگادیا گیا۔ بھارت نے ہمارے حصے کے فنڈز روک لیے تھے اور ریاست کا ڈھانچہ تعمیر کرنے کے لیے مالی وسائل ہمارے پاس نہیں تھے۔ آل انڈیا مسلم لیگ نے شاہی ریاستوں کے الحاق کو ان کے حکمرانوں کی رضامندی سے مشروط کرکے کشمیرتنازعے کے بنیاد بھی رکھ دی تھی۔ ان حالات میں امریکہ واحد ملک تھا جو ہمارے مالی اور دفاعی مشکلات کا مداوا کرسکتا تھا۔ہم نے ملکی بقا اور سلامتی کی خاطر امریکہ سے رجوع کیا اور اس نے ہمارا ہاتھ بھی تھاما لیکن ہماری اشرافیہ کا کمال دیکھیں کہ اس نے امریکی حکام کو قائل کرلیا کہ وہ فی الحال جمہوریت کو بھول جائیں اور سوویت یونین کے گھیرائو پر توجہ رکھیں تو بہتر ہے۔ یوں امریکہ کے ساتھ اول دن ہی پاکستان کا اتحاد وقتی اور محدود المقاصد تھا۔ جب بھی سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان کوئی بڑا امن کا سمجھوتا ہوتا تو پاکستان کے ساتھ اسکا اتحاد بھی ٹوٹ جاتا تھا اور ڈالروں کی بارش بھی بند ہوجاتی تھی۔ ساتھ ہی واشنگٹن پاکستان سے انسانی حقوق کی پاسداری اور جمہوریت کا تقاضا شروع کردیتا۔ یہ وقت ہوتا جب اشرافیہ اپنی سیاسی پارٹیوں کے ساتھ جمہوریت کا راگ الاپتی میدان میں آجاتیں۔ جمہوریت کے سوال پرہماری امریکہ کے ساتھ آنکھ مچولی اس وقت تک جاری رہی جب تک سرد جنگ تھی۔ نوے کی دہائی اور اسکے آگے کی کہانی یہی ہے کہ امریکہ ہمارے ہاں جمہوریت کے علاوہ کوئی اور نظام نہیں دیکھنا چاہتا۔ پچھلے بیس سالوں میں اگر یہ افغانستان میں پھنسا رہا تو اس نے ہماری خدمات کے صلے میں بہت کچھ دیا اور ہمیشہ شاکی بھی رہا کہ ہم نے اپنے حصے کاکام تسلی بخش طریقے سے نہیں کیا تھا۔ لیکن افغانستان سے انخلا کے بعد اب یہ قصہ بھی تمام ہوا ہے۔ حال ہی میں امریکی نائب وزیر خارجہ جنوبی ایشیا کے دورے پر آئیں تو بھارت میں انہوں نے کہا کہ پاکستان سے امریکہ کے تعلقات خصوصی ہیں۔ اگر چہ بعد ازاں شاہ محمود قریشی کے اصرار پر انہوں نے طویل المدتی تعلقات کی بات تو کی لیکن بظاہر یہی لگتا ہے کہ واشنگٹن اپنے بکھیڑوں میں الجھا ہے۔ کروناوبا کے جھٹکے سے سنبھلنے کے لیے اسے وقت درکار ہے۔ ملک میں اقتصادی ڈھانچے کی ازسر نو تعمیر کرناہے اور اپنے بین الاقوامی کردار کا بھی نئے سر سے تعین بھی۔ ہمارا حال یہ ہے کہ ہم اپنے معاملات درست کرنے کی بجائے ادھر ادھر دیکھ رہے ہیں۔دنیا بدل چکی ہے لیکن ہم نے اپنی سمت کا تعین ابھی کرنا ہے۔ اگر جمہوری راستہ اپنانا ہے تو علاقائی تجارت اور بنیا دی حقوق کے تحفظ کے بغیر سفر کٹھن بھی ہوسکتا ہے اور خطرناک بھی۔ خسارے کی معیشت سے نکل کر پائیدار معیشت کی طرف آنا ہوگا۔ جمہوریت اور ترقی کے فوائد مخصوص طبقے تک محدود کرنے کی بجائے ، عام لوگوں تک پہنچانا ہونگے۔ آزادی ، مساوات اور عدل پر مبنی معاشرے کے قیام کے لیے قائدِ اعظم کے تصور پاکستان کے مطابق آئین کو ڈھالنا ہوگا۔ اگر جمہوریت ہمارے مزاج میںہے ہی نہیں تو چین کا حکومتی ماڈ ل موجود ہے، اسے اپنا لیں۔ جمہوری ریاستیں جو آزاد معیشت کی بھول بھلیوں میں چلتی ، بنیادی حقوق (تعلیم وصحت) کی فراہمی نجی شعبے کے رحم و کرم پر چھوڑ بیٹھی تھیں انکے مقابلے میں اس ایشیائی ملک اور ہمارے ہمسا ئے نے جس طرح اربوں لوگوں کو بھوک اور بیماری کے بھنور سے نکالا اور کرونا وبا کو کنٹرول کیا، پوری دینا اسکی تعریفوں کے پل باندھ رہی ہے۔ ویسے بھی عالمی نظام کسی ملک کو کسی خاص طرز حکومت یا معاشی ماڈل کا پابند نہیں بناتا بلکہ انسانی وقار کی ترقی اور تحفظ کو ریاستی خومختاری کی شرطِ اول قرار دیتا ہے، اس حوالے اسکی کارکردگی عالمی برادری میں اسکے مقام اور اسکی خارجہ پالیسی کی سمت کا تعین کرتی ہے۔ حکمرانوں کو احساس ہو یا نہ ہو، لیکن عالمی سطح پر مقرر کیے گئے انسانی وقار کے پیمانے اپنا کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ریکارڈ مرتب ہورہا ہوتا ہے، رپورٹیں چھپ رہی ہوتی ہیں کہ کون سی ریاست کس مقام پر کھڑی ہے۔ دنیا کی تمام مہذب اقوام میں اس حوالے سے مقابلے کی فضا ہوتی ہے۔ انسانی حقوق کے حوالے سے عالمی اداروں کی رپورٹس پر ایک ردعمل یہ ہوتا ہے کہ خامیوں کی نشاندہی پر ندامت کا اظہار کیا جاتا ہے اور اس دور کرنے کی سنجیدہ کوشش بھی کی جاتی ہے۔ ردعمل کی دوسری قسم انکار کی ہے۔ یعنی یہ اعتراض کہ معاملے کی تحقیق کرتے وقت کچھ عوامل نظر انداز کردیے گئے۔ مطلب انکار کی کیفیت، میں نہ مانوں والی بات۔ اب ایک تو آپکی معیشت خسارے میں ہو، دوسری طرف لچھن بھی خراب ہوں تو دنیا آپ کو سنجیدہ نہیں لیتی۔ چین اور امریکہ کیا ، یورپ کے کسی چھوٹے سے ملک کا حکمران بھی آپ کو برابر بٹھاکر بات کرنے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔