وسائل پہ قابض افراد یہ ماننے کو تیار ہی نہیں کہ جنوبی پنجاب اور بہاولپور مسائل کی منجدھار میں گھرے ہوئے ہیں۔ کپاس، گنا، گندم، انار، آم سمیت دیگر کئی پھل اور سبزیاں جنوبی پنجاب کاشت کرتا ہے۔ ساہیوال کی حد پار کرتے ہی جنوبی پنجاب کا خطہ شروع ہوجاتا ہے جو رحیم یار خان کی آخری تحصیل صادق آباد پہ ختم ہوتا ہے۔ جنوبی پنجاب اور بہاولپور دو الگ حقیقتیں ہیں۔ حتی کہ اہلیانِ بہاولپور کا مزاج، اْن کا انداز ِ تکلم، ادب و آداب، رکھ رکھاؤ، مہمان نوازی، خوش اخلاقی اور معاملات کا انداز جنوبی پنجاب کے عوام سے بہت مختلف ہے۔ لوگ جنوبی پنجاب اور بہاولپور کوآپس میں گڈ مڈ کردیتے ہیں۔ اِس لئے وہ دونوں کو صوبائی حیثیت دینے کو تیارنہیں۔ بہاولپور تو وطن عزیز کی آزادی سے قبل ایک خودمختار ریاست تھی۔ یہ وہ ریاست ہے جس نے پاکستان کے قیام کی داغ بیل ڈالنے میں بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کی بھرپور معاونت کی۔ یہ برصغیر پاک و ہند کی واحد ریاست تھی جس نے نو آموز ریاست ِ پاکستان کے وجود کو سہارا دینے کے لئے اپنے خزانوں کے منہ کھول دیئے۔ صرف اتنا ہی نہیں بلکہ جب ضرورت پڑی تو اِس ریاست ِ بہاولپور نے اپنا وجود ریاست ِ پاکستان کے جسم میں مدغم کردیا۔ بہاولپور کی مثال اْس دریا کی مانند ہے ۔جو اپنا وجود مٹا کر سمندر کی آغوش میں گم ہوگئی۔ بہاولپور ریاست موجودہ بہاولپور،بہاولنگر، رحیم یار خان، خانپور، دین پور شریف، مظفر گڑھ (ہیڈ پنجند)اور لودھراں کے کچھ علاقوں پر مشتمل ایک خوشحال ریاست تھی۔ جب برصغیر کی تقسیم کا مسئلہ شروع ہوا تو نواب آف بہاولپور سر صاد ق خان عباسی خامس نے اپنے دیرینہ دوست اور بانی ِ پاکستان جنابِ قائد اعظم محمد علی جناح کو اپنے مکمل تعاون کا یقین دلایا۔ دوستی اس قدر گہری تھی جب بھارت کے متوقع وزیراعظم جواہر لعل نہرو نے نواب آف بہاولپور سے اپیل کی کہ وہ بہاولپور ریاست کا الحاق بھارت کے ساتھ کریں۔ اس کے عوض انہیں صرف بہاولپور ہی نہیں بلکہ جیسل میر، ریاست ِ بکنیر سمیت دیگر کچھ علاقوں کا نواب تسلیم کرلیا جائے گا۔ پنڈت جواہر لعل نہرو کی اِس پیشکش کو ٹھکراتے ہوئے نواب آف بہاولپور سر صادق خان عباسی خامس نے جواب دیا کہ ہر شریف انسان سامنے والے دروازے سے گھر میں داخل ہوتا ہے، بھارت میرے پیچھے جبکہ پاکستان سامنے (والے دروازے میں)پڑتا ہے۔ اس لئے وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کو ترجیح دیں گے۔ الحاقِ پاکستان کی وہ دستاویزات آج بھی نور محل میں آویزاں ہیں جن سے واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ نواب آف بہاولپور نے کس محبت کے ساتھ ریاست ِ بہاولپور کے ساتھ الحاق کیا تھا۔ یہ دستاویزات صادق لائبریری میں بھی موجود ہیں۔ یہ وہی لائبریری ہے جو ریاست ِ بہاولپور کے دور میں بطور اسمبلی ہال استعمال ہوا کرتی تھی۔ پاکستان بننے کے بعد اِس عمارت کو لائبریری کی شکل دے دی گئی۔ علاوہ ازیں نواب آف بہاوپور نے کئی ایسے کارنامے سرانجام دیے جو ریاست ِ پاکستان کے وجود کا سبب بنے۔ ریاستِ بنگال کے بعد اگر قیام ِ پاکستان کے لئے کسی ریاست نے گراں قدر خدمات سرانجام دیں تو وہ ریاستِ بہاولپور تھی۔ ریاست ِ بہاولپور کے ریاستِ پاکستان کے ساتھ انضمام اور ون یونٹ کے قیام کے وقت یہ طے پایا تھا کہ ریاست ِ بہاولپور خودمختار صوبائی حیثیت میں بحال کی جائے گی۔ آئینی دستاویزات کی موجودگی کے باوجود آج تک اِس پہ عمل نہیں ہوسکا۔ جس کی بدولت ریاست ِ بہاولپور کے مسائل جوں کے توں ہیں۔ حالانکہ بہاولپور میں ہائی کورٹ (بینچ) موجود ہے۔چار بڑی سرکاری جامعات موجود ہیں۔ درجن بھر کالجز نوجوان نسل کو زیور ِ تعلیم آراستہ کرنے کے لئے موجود ہیں۔ بہاولپور سیکرٹریٹ کی عمارت کا نقشہ بن چکا ہے۔ جگہ مختص کی جاچکی ہے بلکہ کچھ سرکاری محکمہ جات کام بھی کررہے ہیں۔ جن پر آئے روز لاہور اور ملتان سے حملے جاری رہتے ہیں۔ کبھی خبر آتی ہے کہ بہاولپور کے محکمہ جات لاہور منتقل کیے جارہے ہیں تو کبھی ملتان۔ ڈائریکٹوریٹ جنرل آف پبلک ریلشنز کا ریجنل دفتر موجود ہے۔ کنٹونمنٹ، ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی، سر صادق پبلک سکول، بہاولپور وکٹوریہ ہسپتال، سول ہسپتال، قائداعظم میڈیکل کالج، صادق مسجد، سمیت کئی ایسی یادگار عمارات موجود ہیں جو بہاولپور کو دیگر علاقوں سے ممتاز کرتی ہیں۔ ایک صوبائی حیثیت قائم کرنے کیلئے وہ سبھی وسائل بہاولپور میں موجود ہیں جو ہونے چاہیں۔ حکومت ِ پاکستان کو محض اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنا ہے اور ریاست کا مقام و مرتبہ واپس کرنا ہے۔ بہاولپور کی نئی نسل کے دل میں یہ احساسات ہیں کہ ریاست ِ بہاولپور کے واسیوں کے ساتھ مسلسل زیادتی کی جارہی ہے۔ اگرچہ گاہے بگاہے بہاولپور سے صوبائی حیثیت میں ریاست ِ بہاولپور کی بحالی کی آوازیں اْٹھتی رہی ہیں۔ مگر آج تکِ اقتدار پہ قابض افراد نے اِس دیرینہ مطالبے پر عمل در آمد نہ خود کیااور نہ ہونے دیا۔ سیاسی جماعتوں نے ہمیشہ ووٹ بینک چرانے اور یہاں کے سیاسی نمائندوں نے ہمیشہ عوامِ بہاولپور کے جذبات سے کھیلنے کے لئے بہاولپور کو صوبائی حیثیت میں بحال کرنے کا نعرہ ضرور لگایا مگر تاریخ شاہد ہے کہ جب وہ اقتدار میں آئے تو اِس مطالبے کو یک سر پس ِ پشت ڈال دیا۔ یہی وجہ ہے کہ بہاولپور کے واسیوں کے دلوں میں وہ لاوا پک رہا ہے جو کسی دن پھٹ جائے گا۔ تب شاید بہت دیر ہوچکی ہوگی۔کمر توڑ مہنگائی، چور بازاری، کساد بازاری، ڈالر ز کی سمگلنگ، اشیائخوردو نوش کی سمگلنگ، قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ، پیٹرول کی قیمت میں ناقابل ِ برداشت اضافہ سمیت کئی ایسے عناصر ہیں جن کی وجہ سے عوام کے دلوں سے حکمران اْتر چکے ہیں۔ابھی وقت ہے۔ ابھی حکمران اور دیگر عوامل اپنے گناہوں کی تلافی کرسکتے ہیں اِس سے پہلے کہ بہت دیر ہوجائے۔