آصف زرداری کی جیت اور مستقبل کے امکانات پر آگے چل کر بات کرتے ہیں ۔ذرا ایک نظر پیچھے پلٹ کر اس سسٹم کو دیکھ لیں جس نے2018ء میں عمران-باجوہ نسبت تناسب سے جنم لیا۔اُسے ہمارے اور غیر۔۔ہر قسم کے پنڈتوں نے ہائبرڈ سیاسی نظام کا نام دیا۔ہائبرڈ گاڑی بھی ہوتی ہے اور پولٹر ی بھی۔ہماری جمہوریت اگر ہے تو ہائبرڈ ہی سہی۔ہم تم ہوں گے بادل ہو گا۔۔رقص میں سارا جنگل ہو گا۔2018ء سے یا2014ء سے رقص میں سارا جنگل ہے۔عمران پاپولر تھے۔۔باجوہ اُن کی اوروہ باجوہ کی سنتے تھے۔باقی کسر رہ جاتی تو فیض صاحب کا فیض ہو جاتا۔بات نہ بگڑتی اور بن ہی جاتی۔پھر ادارے کے اندرفیض صاحب کی کرم فرمائیوں پر سوال اٹھنے لگے۔پھر جب انہیں پنڈی سے پشاور بھجوانے کی بات ہوئی تو آکسفورڈ کے تعلیم یافتہ خان نے اسے کسی کے کہنے پر بدشگونی مان لیا اور اکڑ گئے۔بات ہاتھ سے نکل گئی۔وہ جو مشورہ دے رہے تھے خان کو روحانی تو ہوں گے،سیاسی نہ تھے۔سیاست ارسطو اور میکائولی کی میراث ہے روحانی لوگوںکی نہیں۔سیاست میں اخلاقیات،روحانیات اور مذہب کے کردار پر سب کی اپنی اپنی رائے ہے۔لمبی بحث ہے۔عمران لڑکھڑائے تو غلط فیصلے لیتے چلے گئے۔عمران کے حامی منظر سے ہٹتے گئے اور وہ جنہیں عمران بڑی رعونت سے ناپسند کرتے تھے وہ طاقت میں آتے چلے گئے۔عمران-باجوہ کمبی نیشن کو ہائبرڈ کہا جانے لگا۔مگر آج2024ء میں2018ء سے اب تک پلوں کے نیچے سے اتنا پانی گزر گیا ہے اور تبدیلیوں کی رفتار اتنی تیز ہے کہ آنکھ جھپکنے کا موقع ہی نہیں مل رہا۔عمران،زرداری،مقتدرا، الیکشن کمیشن،اعلیٰ عدلیہ، نئے غیر سیاسی چہرے اور پھر الیکشن2024ئ۔اور پھر سب سیاسی عقاب کارنر ہو گئے،نواز شریف سمیت اور فاختائیں جیت گئیں۔نیا لباس،نئی Look اور فیشن ڈیزائینر۔ آصف زرداری اور شہباز شریف صد فیصد تو نہیں کافی زیادہ آگاہ تھے اُس بندوبست سے جو اب اپنے پر کھول کر انگڑائی لے رہا ہے۔میاں نواز شریف،اسحاق ڈار،راناثناء ، سعد رفیق اور جاوید لطیف کہاں ہیں؟خواجہ آصف نے تیز آندھی میں سر جھکا لیا اور ہارنے کے باوجود بچ گئے۔باخبر حلقوں کا کہنا ہے کہ یاسمین راشد کنفرم جیت چکی تھیں۔عون چوہدری کاکیا کہوں؟کوزی حلیم بنانے والوں نے تو ترین صاحب کو بھی دیگ سے باہر پھینک دیا۔اب عمران کے آہستہ آہستہ سیاسی ہوش واپس آ رہے ہیں اور روحانی مشیروں کو بھی آہستہ آہستہ اس وکٹ پر بیٹنگ نہیں تو ٹپ ٹپ ضرور آ گئی ہے۔مگر ذرا ذکر ڈار صاحب کا۔وہ سارے سسٹم میں نواز شریف کی نمائندہ قوت کے طور پر رہنا چاہتے تھے۔شہباز سے زرداری تک اور آئی ایم ایف تک سبھی ڈار ڈالر کو پسند نہیں کرتے۔پھر بڑے میاں نے تجویز دی کہ انہیں ڈپٹی پرائم منسٹر بنا دیں مگر درخواست رد ہو گئی۔اب وہ وزیرِ خارجہ بننے جا رہے ہیں تو اس حال میں کہ ان کے دائیں طرف جلیل عباس جیلانی ہوں گے اور بائیں طرف طارق فاطمی صاحب۔پیغام ہے،ڈار ڈالر کے لیے،ذرا ہِل کر دکھائو۔دال میں کوکڑو ڈال دیے گئے۔میاں صاحب کے لیے بنیادی گفٹ مریم نواز کا چیف منسٹر بننا ہے۔سوال ہے کہ کیا یہ سسٹم دور تک اور دیر تک چل پائے گا؟خیال ہے کہ زرداری اور شہباز مل کر اس سسٹم کو چلا ہی لیں گے،جنبشِ ابرو کے مطابق۔آئی ایم ایف کی شرائط کے مطابق جب سارا نزلہ گرے پڑے عوام پر گرے گا تو؟خشک پتوں کی طرح لوگ اڑے جاتے ہیں۔۔شاعر کے مطابق اب تو شہر بھی نظر آتے ہیں جنگل کی طرح۔اس نزلے پرنواز شریف بولیں گے یا نہیں اس کا انحصار اس بات پہ ہو گا کہ وہ پاکستان میں رہتے ہیں یا فلم آئو اب لوٹ چلیں کی سٹوری بن جاتے ہیں۔پنجابی کا ایک گیت خواہ مخواہ یا دآ رہا ہے۔۔آندیاں نصیباں نال اے گھڑیاں۔۔جدوں پڑھ لکھ کے توں بائو بن جانا۔مُکنا ایں اودوں ساڈے دکھاں دا فسانہ۔عوام کے دکھوں کا فسانہ ختم نہیں ہوا ابھی شروع ہوا ہے۔جب آئی ایم ایف کی وجہ سے بجلی،پٹرول اورگیس سب کچھ عام آدمی کی برداشت سے باہر ہو جائے گا تو عوام کی چیخوں کا وکیل،رہبر اور راہنما کون ہو گا؟کوئی بھی نہیں۔نہ زرداری نہ شہباز،نہ عمران نہ نواز۔اگر نواز شریف بولیں گے تو عمران خان کے مطالبے پر چار حلقے کھول دیے جائیں گے،اگر یاسمین راشد جیت جائیں لاہور سے تو مسلم لیگ (ن) کے پلے کیا رہ جائے گا؟اس زلزلے کی شدت کا سکیل کیا ہو گا،میری سائنس اور ریاضی بہت کمزور ہے۔سسٹم ایسے ہی چلے گا۔عمران اور نواز کچھ نہیں بولیں گے،اپنی اپنی وجوہات کو لے کر۔ آصف زرداری اور شہباز شریف کو پتہ ہے کہ کھیل کی سمت کیا ہے۔الیکشن کے بعد نون اور پی پی پی میں مذاکرات میں یہ بات ہوئی کہ بلاول اور شہباز آدھی آدھی ٹرم بانٹ لیں مگر بلاول نے انکار کر دیا۔اب یہ طے پایا ہے کہ آصف اور شہباز مل کر سسٹم کو چلائیں گے۔نواز شریف۔۔مریم کی وجہ سے خاموش رہیں گے۔مریم پنجاب میں نون کا اعتماد بحال کرنے کی کوشش کریں گی مگر وکٹ مشکل ہے۔کیوں؟یہ کہانی پھر سہی۔اگر عمران انقلاب کی رٹ چھوڑ دیں تو آہستہ آہستہ انہیں بھی ریلیف ملنا شروع ہو جائے گا۔حاصلِ کلام بات یہ ہے کہ اگر2024ء والی ٹرین سیاسی ٹریک پر جھٹکوں کے بغیر اسٹیشن پر پہنچ جاتی ہے۔معاشی ٹریک بہتر ہو جاتاہے۔آئی ایم ایف سے معاملات بن جاتے ہیں تو اپنے وقت پر یا اس سے کچھ پہلے ایک اور الیکشن ہو گا۔اس میں پیچا پڑے گا مریم اور بلاول کے درمیان۔بساط بچھ چکی ہے،مہرے بھی حرکت میں آ چکے ہیں۔حیرت انگیز سچ یہ ہے کہ عمران اور نواز دونوں خود کو پاپولر عوامی لیڈر سمجھتے تھے۔آج کی تاریخ میں دونوں کہا ںہیں؟حضرت علیؓ کا جملہ پھر لکھ رہا ہوں۔"ارادوں کے ٹوٹ جانے سے خُدا کو پہچانو"۔اب جو موجود ہیں بساط پر،طاقت میں،اُن کے منصوبے پورے ہوں گے یا ٹوٹ جائیں گے؟سوچئے۔