بادشاہ کو سونے چاندی کے بیل بوٹوں سے آراستہ ایک خوبصورت ہاتھی پر سوار کیا گیا۔ چھتری اور جھالر میں موتی آویزاں تھے، ہاتھی چلنے لگا تو بادشاہ نے پوچھا! اس کی لگام کدھر ہے۔ مہاوت نے بتایا:سرکار بندے کے ہاتھ میں یہ جو سُوا ہے اس کے ذریعے ہاتھی کو چلائے گا۔ آپ فقط اس کی سواری کا لطف اٹھائیں۔ بادشاہ فوراً چھلانگ لگا کر نیچے اتر آیا۔ سب کو خبردار کیا کہ میں ایسی سواری پر سوار نہیں ہوتا جس کی لگام میرے ہاتھ میں نہ ہو۔ عمران خان کو جب ہاتھی پر بٹھایا گیا تو انہوں نے پوچھا: اس کی لگام کہاں ہے۔ بتایا گیا سرکار ڈھائی سو سال پہلے ایک افغانی بادشاہ ہندوستان آیا اور ہاتھی پر پہلی بار بیٹھ کر اس نے یہی سوال کیا تھا۔ لگام اپنے ہاتھ میں نہ ہونے پر اس نے ایک یادگار جملہ کہا اور نیچے کود گیا۔ عمران خان نے جواب دیا میں اس ہاتھی کی سواری کروں گا اور اسے حکم عدولی کی اجازت نہیں دوں گا۔ عمران خان کو اقتدار ملا تو ساتھ یہ اطلاع بھی دیدی گئی کہ آپ اپنے معاملات میں بھلے آزاد اور خود مختار ہیں لیکن جن لوگوں کی حمایت کی وجہ سے آپ اقتدار میں آئے ہیں ان کا بھروسہ نہیں۔ ان سے معاملات اپنی ذمہ داری پر کر لیں۔ ہمیشہ سے حکومتوں کو تگنی کا ناچ نچانے والی ایم کیو ایم نے سب سے پہلے ناراضی دکھائی، خالد مقبول صدیقی نے وزیر اعظم کو استعفیٰ بھیجتے ہوئے باور کرایا کہ وفاقی حکومت کراچی کی تعمیر و ترقی اور مسائل کے متعلق اپنے وعدے پورے نہیں کر رہی۔ اس لیے وہ کابینہ میں رہنے کا جواز نہیں رکھتے۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب مولانا فضل الرحمان اپنے تئیں ایک جرار لشکر لے کر اسلام آباد میں دھرنا دینے چل پڑے تھے۔ اسی دھرنے کے دنوں میں اختر مینگل نے بھی شکایت کی کہ بلوچستان کی محرومیاں دور کرنے کے لیے ان سے جو وعدے کیے گئے تھے وہ ہنوز پورے ہونے کے منتظر ہیں۔ سندھ میں جی ڈی اے اور پنجاب میں ق لیگ کیوں خاموش رہتی۔ ان دونوں نے از سرنو چارٹر آف ڈیمانڈ تیار کر کے وزیر اعظم کو پیش کر دیئے۔ خاموش اور پس پردہ رابطہ کاری نے معاملات کو سلجھایا بلکہ چودھری پرویز الٰہی نے کئی شخصیات کو مخالفانہ طرزعمل ترک کرنے پر راضی کیا۔ رابطہ کاری میں جس دوسری شخصیت نے اہم کردار ادا کیا وہ جہانگیر ترین تھے۔ جہانگیر ترین کے پاس عدالتی حکم کی وجہ سے کوئی تنظیمی اور حکومتی عہدہ نہیں تھا لیکن ہر انتظامی ہرکارے کو ان کی طاقت کا اندازہ تھا اس لیے ہر بیورو کریٹ ان کی سرپرستی کا طلب گار دکھائی دیا۔ کچھ عرصہ پہلے یہ بات سیاسی مخبروں کی بول چال کا حصہ رہی ہے کہ پنجاب میں طاقت کے کئی مراکز ہیں، وزیر اعلیٰ عثمان بزدار، سپیکر پنجاب اسمبلی چودھری پرویز الٰہی، گورنر چودھری محمد سرور اور جہانگیر ترین ان مراکز کی نمائندگی کرتے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ وزیر اعظم آخیر ہفتہ جب لاہور تشریف لاتے ہیں تو ان سب کو الگ الگ ٹاسک تفویض کرتے ہیں اور پہلے سے دیئے گئے اہداف پر عمل درآمد کی رپورٹ طلب کرتے ہیں۔ یہ تحریک انصاف کا اپنا گورننس ماڈل ہے جس سے اختلاف یا اتفاق کا ہرکسی کو حق ہے۔ تصور کیجیے اگر طاقت کے یہ مراکز اگر ایک دوسرے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں تو عام حالات میں کیا رن پڑے۔ مسلم لیگ ن یا پیپلزپارٹی جیسی مستحکم تنظیم رکھنے والی جماعتیں اس ماڈل کو اختیار کرنے کا حوصلہ نہیں رکھیں گی۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں معاملات شریف خاندان طے کرتا ہے یا زرداری خاندان سے پوچھے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا۔ گویا دونوں سابق حکمران خاندانوں نے اپنی سواری کی لگامیں اپنے ہاتھ میں رکھی ہیں۔ ان حالات میں یہ بہت عجیب بات دکھائی دیتی ہے کہ عمران خان ایک بے لگام سواری کو اپنی مرضی کی سمت میں چلائے جا رہے ہیں۔ پاکستان کے عوام نے کیا کیا ستم نہیں سہے۔ کتنی ہی بار چینی کا بحران پیدا ہوا۔ سنا ہے پہلی بار چینی کی قیمت میں ہوشربا اضافہ ایوب خان کے دور میں ہوا۔ آٹے کا بحران ہر سال آتا ہے اور افلاس زدہ طبقات سے کچھ نوالے چھین لے جاتا ہے۔ یہاں حکمران بالائی طبقات کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں۔ اس لیے کسی کو روٹی نہیں ملتی تو اسے کیک کھانے کا مشورہ دینے والے آج بھی مل جاتے ہیں۔ کتنی ہی رپورٹس ہیں جو حکومتوں نے اس لیے دبائے رکھیں کہ ان کے عام کرنے سے اقتدار ختم ہو سکتا تھا۔ لاہور سیکرٹریٹ میں کئی بار آگ لگی، ایل ڈی اے پلازہ میں آگ لگی۔ ملتان کچہری میں آگ بھڑکی۔ کتنے ہی اہم منصوبوں کا ریکارڈ ایک تسلسل سے جلایا جاتا رہا، ماڈل ٹائون میں 14معصوم مارے گئے، طاہرالقادری اور ان کے ساتھ انصاف کے لیے دربدر رہے لیکن کچھ نہ ہو سکا۔ ان حالات میں عمران خان کے لیے مشکل نہ تھا کہ ایف آئی اے کو گول مول رپورٹ تیار کرنے کا حکم دیدیتے۔ اگر رپورٹ میں ان کے ساتھیوں کے نام کسی وجہ سے آ بھی گئے تھے تو رپورٹ کو دبایا جا سکتا تھا، کچھ نہ ہوتا تو اس رپورٹ اور متعلقہ ریکارڈ کو جلا کر شارٹ سرکٹ کے کھاتے میں ڈال دیا جاتا۔ اپوزیشن کی بڑی جماعتیں خوش ہیں کہ حکومتی افراد بدنام ہو رہے ہیں۔ وہ اس بات کو اہم نہیں سمجھتے کہ ان رپورٹس میں مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی کے مالک خاندانوں کا نام بھی ہے۔ ایک احساس زیاں تھا، جو اب جاتا رہا ہے۔ سنا ہے مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی نے جہانگیر ترین کو اپنی اپنی جماعت میں لانے کے لیے رابطے شروع کر دیئے ہیں۔ ان جماعتوں کی قیادت جہانگیر ترین کے جہاز کی کہانیاں سنتی رہی ہے۔اب وہ اس کی سواری کرنا چاہتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ عمران خان سے یہ ہاتھی چھین لیا تو وہ اقتدار سے ہٹائے جا سکیں گے۔ وہ یہ دیکھ نہیں پا رہے کہ عمران خان بغیر لگام سواری کرنے کی مہارت حاصل کر چکے ہیں۔ ایک پہیلی بوجھیں… سو گھوڑے اور ایک لگام آگے پیچھے چلیں تمام