بیٹا میں تجھے کیسے سلام کروں؟ مجھ میں تو اتنا حوصلہ ہی نہیں کہ9برس کے بعد تیرا سامنا کروں حالانکہ میں تجھ سے ایک منٹ بھی دور نہیں رہ سکتی۔ اب ایک لمبی جدائی کے بعد آپ کوصرف سلام پر اکتفا کر رہی ہوں۔ میرے لخت جگر میں بنا کچھ سوچے سمجھے،تجھ سے لپٹ جاناچاہتی ہوں۔ تجھ سے لپٹ کر بنا کچھ کہے، بنا کچھ سنے ،تجھے بازئووں میں چھپا لینا چاہتی ہوں، تیری گالوں اور ماتھے پربوسہ دے کر اپنے دل کو سکون پہچانا چاہتی ہوں۔ بیٹا گھر میں سب کچھ موجود ہے۔ اگر کمی ہے تو صرف تیری ۔ بیٹا میں جب رات کو آپ کے سب بہن بھائیوں کے بستر بچھاتی ہوں، تو تیرا بستر بھی بچھا دیتی ہوں۔ گرمی کے موسم میں اے سی کارخ آپ کے بستر کی طرف کر دیتی ہوں ۔ جب بجلی چلی جائے تو اٹھ کر ہاتھ سے آپ کے بسترپر پنکھا لہراتی ہوں۔ بس بیٹا! مجھے یوں ہی محسوس ہوتا ہے،جیسے تو سو رہا ہے ۔ابھی اٹھ کر پانی مانگے گا،اسی لیے میں پانی کی بوتل ساتھ رکھتی ہوں۔کئی مرتبہ مجھے رات کو محسوس ہوا کہ تو نے مجھے آواز دی۔میں تیری آواز کے جواب میں جی جی کہتی ہوں۔مگر جواب ندارد۔ میں پھر تیرے بستر پر آکر پوچھتی ہوں، بیٹا کیا ہوا۔ لیکن پھر بھی آپ جواب نہیں دیتے۔ میں کافی دیر تک تیرے سرہانے بیٹھ کر جی جی کہتی رہتی ہوں۔ اکثر تو اسی طرح ہی صبح ہو جاتی ہے۔ بیٹا میں صبح سویر ے تیرے بستر کو سمیٹ کر تیرے بھائیوں کو تیار کرتی ہوں، تو اس کے ساتھ تیرا ٹفن بھی تیار کر کے تیرے بیگ میں ڈالتی ہوں لیکن جب دوپہر کو دیکھتی تو وہ ایسا ہی ہوتا ہے۔ بیٹا اس میں سے تھوڑا سا کھا لیا کر۔ بیٹا تیری کتابیں ویسے ہی پڑی ہیں، تیرے کپڑے ہر روز نکال کر سینے سے لگا ٹھنڈک محسوس کرتی ہوں۔ مجھے ابھی تک ان سے تیری خوشبو آتی ہے۔ تو نے جو قلم خریدا تھا، وہ ابھی تک میںنے سنبھال کر رکھا ہوا ہے۔ آپ کے محلے کے دوست آپ کو بہت مس کرتے ہیں۔ابھی بھی آپ کے دوست ویسے ہی کرکٹ کھیلتے ہیں، ان کی گیند اب بھی گھر میں آجاتی ہے۔ پہلے تو آپ خود آکر لے جایا کرتے تھے لیکن اب میں خودہی دے آتی ہوں۔ بیٹا! آپ کا دوست ذیشان اب بھی گھر میں آکر تجھے بہت یاد کرتا ہے۔ ماموں نے اس بار بھی تیری برتھ ڈے پر کیک کاٹا۔ماموں اور خالہ کے بچوں نے آپ کے لئے بہت گفٹ خریدے تھے، وہ سب آپ کے کمرے میں پڑے ہیں۔بیٹا! ہم یہاں سب خیریت سے ہیں۔ تب تک جب تک ہمیں آپ کی یاد نہیں آتی۔ آپ کی یاد آتے ہی سب کچھ پھیکا سا لگنے لگتا ہے۔ ہر طرف بس تیری ہی شکل دکھائی دیتی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ آپ مجھے زور زور سے پکار رہے ہیں۔ میں تیری آواز سنتے تیرے ساتھ لپٹنا چاہتی ہوں۔مگر آپ ایک خوشبو کی طرح غائب ہو جاتے ہیں ۔ آرمی پبلک سکول میں شہید ہونے کے بعد پہلی بار آپ کے بغیر روزے رکھے۔ آپ کے بغیر سحر اور افطار کی۔ آپ بِن روزے تو گزار لیے، مگر عید نہیں گزار پائے۔ آپ کے ابا جی جب گھر آئے، تو بس شام تک ہم آپ کی باتیں ہی کرتے رہے۔ آپ کی عیدی بھی آپ کے پاپا نے مجھے دی، جو میں نے ساتھ والی مسجد میں دے دی۔ بیٹا ہر سحری کے دوران مجھے آپ کے لیے بنائے ہوئے پراٹھے یاد آتے ہیں۔ گڑیا تجھے بہت یاد کرتی ہے۔ وہ اب بھی تیرے بغیر کھانا نہیں کھاتی۔ میں بڑی مشکل سے اسے کھانا کھلاتی ہوں، وہ کہتی ہے میں اس بات کو بھول نہیں سکتی،جب بھائی نے ایک دفعہ پراٹھا چائے میں ڈبو ڈبو کر اپنے ہاتھوں سے مجھے کھلایا تھا۔ تیرا چھوٹا بھائی اب اکیلے سکول نہیں جاتا،وہ کہتا ہے کاش 16دسمبر 2014ء کو میری جگہ میرا بھائی بیمار ہوتا اور وہ یوں سفاک قاتلوں کی گولیوں سے بچ جاتا۔چھوٹا بھائی آپ کو بہت یاد کرتا ہے۔وہ روزانہ ملنے والے پیسے اکٹھے کر کے میر ے پاس لاتا اور کہتا ہے امی جی ان پیسوں سے مجھے بھی ویزہ لے دیں تاکہ میں بھائی کے پاس چلا جائوں۔ میں نے اسے کافی سمجھانے کی کوشش کی لیکن وہ ہر روز یہی بات کہتا ہے۔گرمیوں میں بجلی نہ ہونے کے باعث ہم جب چھت پہ سوئے تو آسمان پہ چمکتے ستاروں کو دیکھ کر وہ کہنے لگا امی جی بھائی کے پاس تو بہت روشنی ہے لیکن ہمارے پاس اندھیرا ہے۔بس اس کے ایسے ایسے سوالات ہوتے ہیں کہ میں ان کا جواب ہی نہیں دے پاتی ۔گرمیوں میں گیلا دوپٹہ کر کے اس سے اسے ہوا دے رہی تھی، تو وہ مجھے بار بار کہتا امی جی مجھے گرمی نہیں لگ رہی میں ایسے ہی ٹھیک ہوں کیونکہ بھائی بھی تو ایسے ہی ہو گا۔ اُسے کون ہوا دے رہا ہو گا ؟ ایک دن ساتھ والی آنٹی نے انڈے والے پکوڑے، چاٹ اور دہی بھلے، گھر میں بھیجے تو کسی نے نہیں کھائے کیونکہ ہر کوئی کہتا تھا یہ تو بھائی کو پسند تھے اب بھائی آئیں گے تو کھائیں گے۔ بیٹا تو نے رات کو اپنے پاپا سے کہا تھا، پاپا مجھے ڈرائنگ میں کلر بھرنے ہیں لہذا مجھے صبح کلر لا دینا، تیرے بابا کلر لائے لیکن تو نے بہت جلدی کی اور ڈرائنگ میں سرخ کلر خود ہی بھر لیا ،آپ کے پاپا نے آپ کی خون سے کی ہوئی ڈرائنگ والی کاپی اپنے سرہانے رکھی ہوئی ہے۔ وہ ہر روز رات سونے سے پہلے اسے دیکھتے ہیں۔ بیٹا آپ کا خون آلود بیگ آج بھی ہمیں خون کے آنسو رلاتا ہے ،بیٹا آپ اکثر گنگناتے تھے۔ خوابوں میں اب آباد رہے گی یاد میری تیرے ساتھ رہے گی بیٹا تیری یاد تو ساتھ ہی ہے لیکن اس یاد کے ساتھ زندہ رہنا، اب ہمارے بس میں نہیں۔ 9 سال سے آپ کی یادوں کی پوٹلی لیے ہم پھر رہے ہیں لیکن یہ یاد یں بڑھتی ہی جا رہی ہیں۔ تیری چھوٹی بہن تجھے بہت یاد کرتی ہے،وہ کہتی ہے مجھے تنگ کرنے کیلئے میرا بھائی اب کب آئے گا؟ وہ ہر جمعے کو تیری شلوار قمیض نکال کر آپکے پہننے کیلئے رکھتی اور سہیلیوں سے کہتی ہے کہ اب میرا بھائی آئے گا تو مجھے آپ کے گھر لیکر آئے گا۔پچھلی عید پر آپ نے سفید جوگرز لیے تھے، وہ آج بھی ویسے ہی آپکے کمرے میں پڑے ہیں۔آپ کی عید کے کپڑے بھی ویسے ہی پڑے ہیں ۔ان میں سے اب بھی آپ کی خوشبو آتی ہے ۔ نانی کے گھر جا کر جب آپ کے سب کزن اکٹھے کھیلتے تھے،اٹکھیلیاں کرتے تھے ۔ اب وہ سب کزن آپ کو یاد کرتے ہیں۔اب ہمارے پاس آپ کی نشانی آپ کی خون آلود کتابیں ہی ہیں۔بس بیٹا آپ اگر اور کچھ وقت کے لئے ہمارے پاس رہتے تو ہمارا بڑھاپا اچھی طرح گزر جاتا۔ بیٹا آخر میں اللہ سے دعا ہے کہ وہ والدین کو اپنی اولاد کو اپنے ہاتھوں سے دفن کرنے کی نوبت نہ آنے دے۔ سب کی طرف سے سلام ہو۔ والسلام … شہید کی ماں