اپنی تہذیب سے بیگانگی کا ہی یہ نتیجہ ہے کہ ہم مغربی تہذیب میں لت پت ہورہے ہیں جس کے باعث ہمارامعاشرہ اس کی فتنہ سامانیوں کا شکار ہو چکاہے۔عہدشباب میں اگر نوجوانوں کو رہنمائی نہ ملی توقوم وملت کواس کے عواقب ونتائج اوربھگتنا پڑتے ہیں۔ایک نوجوان کے عہدشباب میں ہمت ،قوت ،طاقت،عزم ، ارادے ، جذبے اور توانائی اپنے عروج پہ ہوتے ہیں ۔اگران جذبوں اور توانائی سے قوم و ملک فائدہ نہ اٹھا سکیں تو یہ انتہائی بڑا نقصان ہے۔اس لئے نقصان سے بچنے کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے نوجوانوں کے سامنے اچھائیوں اور برائیوں اور بربادیوںکوکھول کربیان کیاجائے تاکہ وہ منصوبہ بندی کرکے اپنی صلاحیتوں کوبربادکرنے کے بجائے قوم وملت کی تعمیر و ترقی میں استعمال کرسکیں اور ہمہ جہت منصوبہ بندی کے بغیریہ ناممکن ہے اورہمہ جہت کامطلب حکومت ، والدین ، اساتذہ اور خود نوجوانوںہیں، سب کو مل کریہ کام کرنا ہے۔تاریخ کے اوراق انقلاب و آزادی کی جدو جہد میں نوجوانی کی دلیرانہ صفت و کردار سے بھری پڑے ہیں اس کے علاوہ بھی تاریخ کے ماتھے پر بھی ایسے واقعات بھی ثبت ہے اور ایسے نوجوانوں کا کردار جھلمل ستاروں کی مانند چمک رہا ہے جنہوں نے معرفتِ الٰہی حاصل کی اور اپنے دین پر ڈٹ گئے۔ سب سے بنیادی بات یہ ہے کہ دین یعنی قرآن اوراسوہ حسنہ ہے اوراس سے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈک پہنچائیں ۔دینی شعورہی ہمارے نوجوانوں کو بہترین مسلمان اور اچھا انسان بناتاہے اور انکی صلاحیتوں کو ابھارنے میں ممدو معاون ثابت ہوتاہے۔ بغیر شعور و آگہی کے افراد کا مجموعہ قوم نہیں بھیڑوں کا وہ ریوڑ ہوتاہے جس کا کوئی گلہ بان نہ ہو۔اس پس منظر کوسامنے رکھتے ہوئے فکر صحیح اور شعور و آگہی سے مزین نوجوانوں کی جستجو سے معاشرے کی تعمیر نو ہوسکتی ہے اور انہی نوجوانوں کی محنت شاقہ سے قوم و ملت سرخرو ہوسکتی ہے۔ نوجوانوں کے عزم و استقلال نے ہی ہردور اور ہر زمانہ میں انقلاب برپا کیا ہے ۔ شاہین صفت نوجوانوں کی جن کے بازو میںدم ہو جو عیش پرست، بے راہ روی، فکری گمراہی کے شکار اور منشیات کے عادی نہ ہوں،جو خود آگاہ بھی ہوں اور خدا آگاہی سے سرشاربھی ہوں، جو ایک طرف اپنی روشن تابناک ماضی سے واقف ہوں اور ماضی کی عبقری شخصیات کے جہد مسلسل، عمل پیہم سے سبق حاصل کرنے والے ہوں تو دوسری طرف حال اور عہد موجود کے تقاضوں سے بھی پوری طرح باخبر ہوں نوجوانوں کی اہمیت کے پیش نظر شاعر مشرق علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے نوجوانوں کو ’’شاہین‘‘ قرار دیا شاہین کا استعارے کا مقصد دراصل نوجوانوں کو مایوسی سے نکال کر عمل پر ابھارنا تھا چونکہ شاہین ایک ایسا پرندہ ہے جس میں بلند پروازی، دور اندیشی اور خودداری جیسی صفات پائی جاتی ہیں۔ علامہ اقبال یہی سا ری خصوصیات نوجوانوں میں چاہتے تھے : وہی جوان ہے قبیلے کی آنکھ کا تارا شباب جس کا ہے بے داغ ضرب ہے کاری اسکے لیے جدیدعلوم کاحصول ازبس ضروری ہے، جس کاہرگزیہ مطلب نہیں کہ مہنگے اور مشہور تعلیمی اداروں میں تعلیم حاصل کی جائے بلکہ اپنے وسائل اور استعداد کے مطابق ہمارے نوجوان جہاں بھی تعلیم حاصل کررہے ہوں یہ سمجھ کرتعلیم حاصل کرلیں کہ ان کاایک ایک لمحہ قیمتی ہے اور ان کایہ بیش بہاوقت سیکھنے اوراستفادہ کے عمل میں استعمال ہو کسی بھی صورت میں اس قیمتی وقت کوہرگز ضایع نہ ہونے دیں۔علم ہی ہے کہ جس سے ہم ستاروں پر کمندیں ڈال سکتے ہیں۔سائنسی اورٹیکنالوجی کے علوم کو نہایت دلجمعی کے ساتھ پڑھاجائے۔ کائنات کے چھپے ہوئے رازوں تک پہنچ کرانہیں طشت ازبام کا جائے ۔ساتھ ساتھ اپنی تاریخ بھی پڑھ لیں اوردیکھیں کہ ماضی میں ہم سے کونسی غلطیاں سرزدہوئیں جن کے باعث ہم کاسہ لیسی پر مجبور ہوئے اورہراعتبارسے قعر مذلت میں گرپڑے۔انٹر نیٹ کی سہولت سے مثبت طور پے استفادہ حاصل کیجئے ۔ اس سہولت کو خالصتاََتعلیم کے حصول کاذریعہ بنالیجئے اور اس سے اپنی مستقبل سازی کیلئے بھرپور فائدہ اٹھائے۔ ہمارے نوجوانوں کو اپنی زندگی میں نظم و ضبط اور اپنے کام میں حسن اور ترتیب ضرور پیدا کرنا ہوگی۔انہیں اپنی ذات کو بھی ایک اچھے نمونے میں ڈھالنے کی کوشش کرنا ہو گی ۔قوم وملت کی تعمیر اور آپکے ذاتی اخلاق، اور خاص طور پہ گھر کے اندر آپ کے اخلاق، میں کیا نسبت ہے اس کو اس طرح سمجھ لیجئے کہ ایک گھر میں رہنے والے افراد ہی سے تو معاشرہ بنتا ہے اور معاشرے کے افراد مل کرہی ایک قوم تشکیل دیتے ہیں۔آج گھروں کے اندر رشتوں میں چپقلش اور نااتفاقی بڑھتی جا رہی ہے،جب اس ماحول سے نکل کر ایک فرد باہر کے افراد سے معاملہ کرتا ہے تو مزاج کی وہ برہمی ان معاملات پہ بھی اثر انداز ہونا شروع ہوجاتی ہے۔ایک داعی بن کر ہمارے نوجوانوں کو سقیم معاشرے سے شروفساد،سقم وگناہ دورکرنے کے لئے کمربستہ رہناہے،یہ بات اپنے ذہنوں میں راسخ کر لینی چاہئیے کہ معاشرے کوکثیرالنوع بگاڑ سے بچائے رکھنے کی جدجہد میں نوجوانوں کے مضبوط کندھوں پربھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔آپ نے ہی کو اپنی قوم وملت میں دوبارہ اس کی عظمت اور حیثیت کے احساس کو اجاگر کرنا ہے ۔جوکبھی ہمارا طرہ امتیاز ہواکرتاتھا۔تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ سے اپنے شباب کے ہر لمحے میں یہ احساس ہوکہ مجھے زمین پربھیجاکیوں گیاتواس احساس کے ساتھ ہمیں دوبارہ اس مقام پرفائزکیاجائے گا جو ہم کھو بیٹھے ہیں۔ آج معاشرے میں جوطرح طرح کا گند پھیلایا جا رہاہے ان میںآج کے دن یعنی 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے بھی ایک بے راہ روی کا ذریعہ ہے جس میںمشرقی معاشروں کے تمام حدوں کو پامال کیا جاتا ہے۔ بڑے شہروں سے لے کر قصبوں تک پڑھے لکھے نو جوان لڑکوں لڑکیوں کو اس مغربی بیماری نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔مغرب سے درآئے اس گناہ کے کام نے ایک طوفان ِ بے حیائی برپا کررکھاہے۔ عفت و عصمت کی عظمت کو پامال کردیاہے۔مغرب کے مادرپدرآزادماحول کی طرح اب مشرق میں ہوس پرستی کے نت نئے طریقوں کے ذریعہ سرعام شرم و حیااورادب وشرافت کو ختم کرڈالا۔ ویلنٹائن ڈے نے ہمارے مسلم معاشرہ کو بڑی بے دردی کے ساتھ روندڈالاہے۔ اخلاقی قدروں کو تہس نہس کیا ہے اور رشتوں، اداب زندگی، احترام، انسانیت تمام چیزوں کو پامال کیا ہے۔