بلاامتیاز کڑا احتسابـ‘میرٹ‘ـشفافیت اورکفایت شعاری کو پروان چڑھانے کے لئے اگست 2018ء سے انقلابی کاوشوں کا آغا ز ہوا۔ وزیراعظم نے واضح کیا کہ میرٹ ‘ـشفافیت اور کفایت شعاری کی پاسداری کے سواکوئی اور آپشن نہیں‘تاکہ وطن عزیر کو معاشی دلدل سے نکال کر نئے پاکستان کے خواب کو عملی تعبیر دی جاسکے۔ نیب نے سیاستدانوں‘بیوروکریٹس اور صنعتکاروں کے گرد شکنجہ کستے ہوئے تحقیقات اور گرفتاریوں کا سلسلہ شروع کیا۔ حکومت نے سرکاری دفاترمیںمرغن کھانوں کے بجائے چائے بسکٹ اور وزیراعظم آفس کے لان میں اربوں روپے مالیت کی لگژری گاڑیوں کی نیلامی کا عمل شروع کرکے کفایت شعاری کی جانب پہلا قدم اٹھایا۔ وزیراعظم آفس کے لان میں نیلامی کیلئے پیش کی گئیں گاڑیوں میں 9بلٹ پروف لگژری گاڑیاں بھی شامل تھیں۔یہ 9گاڑیاں 2016ء میں ڈیوٹی فری درآمد کی گئیں 33بلٹ پروف گاڑیوں کا حصہ تھیں۔ 33بلٹ پروف لگژری گاڑیوں کا استعمال 2019ء کے اوائل میں ایک اسکینڈل کا روپ دھا رگیااور نیب نے سابق وزیراعظم نوازشریف ‘ شاہد خاقان عباسی‘ـ گریڈ 22کے دوتگڑے بیوروکریٹس سمیت وزرات خارجہ اور داخلہ کے افسران کے خلاف انکوائری شروع کردی۔ دراصل مسلم لیگ ن کی حکومت نے 2016ء میں سارک سمٹ کے موقع پر غیرملکی مہمانوں کیلئے 33بلٹ پروف لگژری گاڑیاں درآمد کیں۔ یہ گاڑیاں ای سی سی کی باضابطہ منظوری سے ایک خفیہ ایجنسی کے سیکرٹ سروس فنڈز کے ذریعے خریدی گئیں۔ ان گاڑیوں کا فیول‘ـ مرمت اور دیکھ بھال کے اخراجات بھی خفیہ ایجنسی کے فنڈز سے اداکرنے کی منظوری دی گئی۔رولز کے مطابق مخصوص مقصد کیلئے منگوائی گئی گاڑیاں وزیراعظم سمیت کسی بھی وی آئی پی کیلئے استعمال کرنے کی ممانعت تھی۔ بدقسمتی سے بھارتیپروپیگنڈے کے باعث نومبر2016 ء میںکانفرنس منسوخ ہوگئی۔وزیراعظم آفس نے ان گاڑیوں کا استعمال شروع کردیا۔نیب کو شکایت موصول ہوئی اور نیب کے تفتیشی ٹیم متحرک ہوگئی۔ نیب نے گاڑیاں استعمال کرنے سے متعلق سرکاری ریکارڈ حاصل کیاجس کے مطابق نومبر 2016ء سے جون 2018ء تک یہ گاڑیاں 7لاکھ کلومیٹر سے زائد چل چکی تھیں جس میں سے39ہزار کلومیٹر غیرملکی شخصیات کیلئے یہ گاڑیاں استعمال ہوئیں۔سرکاری دستاویز کے مطابق ای سی سی کی جانب سے درآمد کی گئی گاڑیوں کو ٹیکس اور ڈیوٹی سے استثنیٰ دیتے ہوئے گاڑیوں کو کابینہ ڈویژن کے ماتحت سنٹرل پول آف کارز میں پارک کرنے کی منظوری دی گئی تاکہ ضرورت کے وقت گاڑیوں کو استعمال کیا جا سکے۔گاڑیوں کی خریداری کے بعد وزارت خارجہ نے آئی بی کے ذریعے ازخود گاڑیوں کوپروٹوکول ڈیوٹیوں کیلئے وزیر اعظم آفس کے سپرد کر دیا۔ وزیر اعظم سیکرٹریٹ کے خط اور پرائم منسٹر سیلری الاؤنسز اینڈ پری ویلجز ایکٹ1975ء کے تحت 33گاڑیوں میں سے بی ایم ڈبلیو جیپ‘ـایک مرسڈیز بینز سمیت3گاڑیاں سابق وزیر اعظم نواز شریف کیلئے مختص کی گئیں جبکہ ایک بی ایم ڈبلیو جیپ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کیلئے مختص کی گئی۔وزیر اعظم آفس کی جانب سے کابینہ ڈویژن کو اپنے استعمال کیلئے 3گاڑیاں مختص کرنے کی ہدایت کی گئی۔نیب کی جانب سے مذکورہ گاڑیوں کی خریداری اور استعمال کے حوالے سے انکوائری کی جارہی ہے۔نیب کے مطابق ای سی سی کے فیصلے کے خلاف سابق وزیر اعظم کیلئے گاڑیاں مختص کی گئیں اور پرائم منسٹر سیلری الاؤنسز اینڈ پری ویلجز ایکٹ1975ء کے تحت سابق وزیر اعظم کو سکیورٹی کی فراہمی کیلئے کوئی نوٹی فکشن بھی جاری نہیں کیا گیا۔نیب کی مداخلت کے بعد سابق وزرائے اعظم سے گاڑیاں وصول کرکے سنٹرل پول آف کارز میں شامل کر لی گیئں۔گاڑیوں کو غیر ملکی شخصیات کیلئے استعمال کیا جا رہا ہے۔رولز آف بزنس 1973ء کے رول3(3)اور سٹاف کار رولز 1980ء کے رول28کے تحت کابینہ ڈویژن کی جانب سے ریاستی مہمانوں‘ـغیر ملکی شخصیات‘وی وی آئی پیز‘ـصوبائی گورنروں‘ـوزرائے اعلیٰ‘سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اور صوبائی وزرا کیلئے گاڑیوں پر مشتمل سنٹرل پول آف کارز ترتیب دیا جاتا ہے۔ضرورت کے تحت سنٹرل پول آف کارز سے غیر ملکی شخصیات اور اہم شخصیات کیلئے گاڑیاں فراہم کی جاتی ہیں۔کابینہ ڈویژن نے نیب کو خط لکھتے ہوئے انکشاف کیا ہے کہ ملکی شخصیات کی جانب سے سابق وزرائے اعظم سے وصول کی گئی گاڑیوں کو فراہم کیے جانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔کابینہ ڈویژن کے مطابق نیب تحقیقات کے باعث یہ گاڑیاں ملکی شخصیات کو فراہم نہیں کیا جا سکتی تاہم ملکی شخصیات کی جانب سے انہی گاڑیاں کی فراہمی پر اصرار کیا جارہا ہے۔لہٰذا نیب یہ گاڑیاں وی آئی پی حکومتی شخصیات کو فراہم کرنے کے حوالے سے اجازت دے تاہم نیب نے قواعد کے خلاف گاڑیاں استعمال کرنے کی اجازت دینے سے انکار کردیا۔ نیب نے مزید تحقیقات کیں تو انکشاف ہو ا تو پاکستان تحریک انصاف کی حکومت بھی ان گاڑیوں کا بے دریغ استعمال کرتے ہوئے اڑھائی لاکھ کلومیٹر سے زائد گاڑیاں استعمال کرچکی ہے۔نیب نے وزیراعظم نوازشریف اور شاہد خاقان عباسی اورگریڈ 22کے دوافسران سمیت دیگر سرکاری افسران کے خلاف تو نیب نے تحقیقات مکمل کرکے ریفرنس تیار کرلیا ہے جو آئندہ ہفتے ایگزیکٹو بورڈ کے اجلاس میں منظوری کیلئے پیش کیا جائے گا تاہم اس ریفرنس میں جولائی 2018ء کے بعد خلاف ضابطہ استعمال کی گئی گاڑیوں کی انکوائری اور ذمہ داران کا نام ریفرنس میں شامل نہیں کیا گیا۔ نیب کے انکارکے باعث اہم حکومتی شخصیت کو پریشانی لاحق ہوئی تو فیصلہ ہوا کہ فوری طور پر ستمبر 2016ء کا ای سی سی کافیصلہ اور گاڑیاں استعمال کرنے سے متعلق 1980ء کے رولز تبدیل کردئیے جائیں اس سے پہلے کے نیب کی جانب سے بلاوا آجائے ۔ بالاخرتبدیلی کے علمبرداروں نے6اکتوبربروز منگل وفاقی کابینہ سے ستمبر 2016ء کا ای سی سی کا فیصلہ اوروہیکلز رولز 1980ء تبدیل کرنے کی منظوری حاصل کرکے میرٹ‘ـ شفافیت اور کفایت شعاری کے نعرے پر کیل ٹھونک دی۔4ارب روپے مالیت کی یہ گاڑیاںجن کے ٹائرز 10ہزارکلومیٹر کے بعدغریب عوام کے ٹیکس سے51لاکھ روپے اد ا کرکے تبدیل کروانا لازم ہے‘ اب وزیراعظم سیکرٹریٹ‘ـایوان صدر‘ وفاقی وزارتوں اور وی وی آئی پیز کیلئے دن رات بلاخوف ملکی شاہراؤں پر فراٹے بھرتے احتساب‘میرٹ‘شفافیت سادگی اور کفایت شعاری کا منہ چڑائیں گی۔ اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا لڑتے ہیں اور ہاتھ میں تلوار بھی نہیں!