کل ( 15 ستمبر کو ) پاکستان سمیت پوری دُنیا میں ’’ یوم جمہوریت ‘‘ (Democracy Day) منایا گیا۔ مصّور پاکستان علاّمہ اقبالؒ نے ’’مغربی جمہوریت ‘‘کے بارے میں کہا تھا کہ … اِس راز کو، اِک مرد فرنگی نے، کِیا فاش! ہر چند کہ دانا، اِسے کھولا نہیں کرتے! جمہوریت، اِک طرز حکومت ہے کہ ،جس میں ! بندوں کو گِنا کرتے ہیں ، تولا نہیں کرتے! معزز قارئین!۔ بندہ ؔ ۔ غلام یا عام اِنسان کو کہا جاتا ہے اور پاکستان جیسے ملکوں میں عوام کو ’’ عوام کالانعام ‘‘ (یعنی۔ ڈھور ڈنگر) سمجھا جاتا ہے ۔ اُنہیں بھلا ’’ یوم جمہوریت ‘‘ منانے سے کیا دلچسپی ہوسکتی ہے ؟اور حکمران بھی اِس معاملے میں عوام کو منانے کی کوشش نہیں کرتے ۔ ہمارے یہاں ’’ یوم جمہوریت‘‘ پر حکمرانوں ، حزبِ اختلاف کے قائدین ، دانشور ، تجزیہ کار ، تبصرہ نگار اور اینکر پرسن ایک دوسرے کو مناتے ہُوئے گزارتے ہیں لیکن، ایک دوسرے کے ساتھ اختلاف ، تُو ، تُو، مَیں ، مَیں اور طعن و تشنیع کو ’’ جمہوریت کا حُسن ‘‘ قرار دِیا جاتا ہے ؟۔ گھوڑے اور جمہوریت کے حُسن سے وہی لوگ فیض یاب یا لُطف اندوز ہو سکتے ہیں جو طاقتور ہوں اور اْن کے پاس اِن دونوں حسِینوںؔ پر سواری کرنے کے وسائل ہوں جو لوگ کمزور اور بے وسائل ہوں وہ صِرف گھْڑ سواروں اور جمہوریتؔ سواروں کی طاقت کے مظاہرے دیکھتے ہیں اور اپنے جیسے لوگوں کی طرف دیکھ دیکھ کر خُوش ہوتے اور تالیاں بجاتے ہیں۔ علّامہ ا قبالؒ نے بچّوں کے لئے اپنی ایک نظم میں’’ جُگنو میاں کی دُم‘‘ کا تذکرہ کِیا تھا۔ اگر اُس نظم کے اِس شعر میں’’ جُگنو میاں کی دُم‘‘ کے بجائے جمہوریت جڑ دِیا جائے تو وہ یْوں ہو گا … جمہوریتؔ کی دُم جو چمکتی ہے رات کو! سب دیکھ دیکھ اُس کو بجاتے ہیں تالِیاں! جمہوریت کی دُم میں یہ خوبی یہ ہے کہ وہ دِن میں بھی خوب چمکتی ہے۔ بعض اوقات تو یہ دْم اتنی روشن ہوتی ہے کہ۔’’ خُدائے نُور‘‘ (سْورج) بھی شرما جاتا ہے۔برطانیہ کے غیر تحریری آئین کے مطابق برطانوی وزیرِاعظم کو چاندؔ اور وزراء کو ستارےؔ کہا جاتا ہے لیکن ہمارے یہاں جب صدارت کے منصب پر چیف مارشل لا ء ایڈمنسٹریٹر فائز ہو تو وزیرِاعظم اُس کا دُمؔ چھلّا ہوتا ہے اوروزارتِ عظمیٰ کے کئی امیدوار اْس کی طرف حسرت سے دیکھتے ہْوئے قوالی کے انداز میں گاتے ہیںکہ … ’’ چھلّا دے جا نشانی، تیری مہربانی ‘‘ اِس طرح کے صدر کو سُورجؔ کی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ سُورج ؔجو روشنی اور حرارت کا منبع ہے اور اُس سے چاندؔ اور ستارے ؔسبھی روشنی لیتے ہیں اور وہ اْن میں حرارت بھی، حِصّہ بقدرِ جُثّہ تقسیم کرتاہے۔ پاکستان قائم ہوا تو مذہبی جماعتوں کے قائدِین جمہوریت کو مغربی جمہوریت کا نام دیتے تھے اور انتخابات کو ’’ حرام‘‘۔ پھر یہ سب قائدین سر جوڑ کر بیٹھے اور انہوں نے ’’ا جتہاد‘‘ کِیا تو جمہوریت اور انتخابات کو جائز اور حلال قرار دے دِیا۔ صُورت یہ ہے کہ اُن کی باپردہ گھریلو خواتین بھی پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں بیٹھی ہیں۔فارسی کے نامور شاعر حافظ شیرازی ؒ نے اپنے دَور کی بادشاہت کے طرزِ حکومت کا نقشہ کھینچتے ہُوئے کہا تھا کہ … اسپِ تازی شُدہ مجروح ،بزیرِپالاں! طوقِ زرّیں ، ہمہ در گردنِ خر می بینم! یعنی۔’’ عربی گھوڑاپالان کے نیچے زخمی ہو گیا ہے لیکن مَیں دیکھ رہا ہوں کہ گدھے کی گردن میں سونے کا طوق سجایا گیا ہے۔اگر کوئی بادشاہ (حُکمران) گھوڑے پر گدھے کو ترجیح دے تو کوئی اُس کا کیا بگاڑ سکتا ہے ؟۔’’ گدھے اور گھوڑے میں فرق رکھنا چاہیے‘‘۔ یہ تو اربابِ دانش کی خواہش یا مقولہ ہے۔تبھی تو اْن میں سے بہت سے دانش ور اْن اَن پڑھ بادشاہوں یا جمہوری حُکمرانوں کی خدمت میں آداب عرض کرتے ہُوئے انہیں آدابِ حُکمرانی سِکھانے کی تنخواہ لیتے ہیں؟۔ علاّمہ اقبالؒ نے تو اپنے دَور کے مسلمان ’’ حکمرانوں اور بادشاہوں‘‘ سے بیزاری کا اظہار کرتے ہُوئے متحدہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لئے ’’ حقیقی اسلامی جمہوری اور فلاحی مملکت کا خواب دیکھا تھا جِسے قائداعظمؒ نے شرمندۂ تعبیر کِیا۔ جب جنت اُلفردوس میں اُمتِ مسلمہ کے ہمارے دونوں قائدین اپنے دولخت پاکستان کے سیاستدانوں (اور سیاست کروں ) کے طرزِ عمل پر غور کرتے ہوں گے تو کیا سوچتے ہوں گے؟۔ عربی زبان کے لفظ ’’ سیاست‘‘ کے معنی ہیں ۔ ’’ قانونِ ملک چلانا، بادشاہت کرنے کا طریقہ نگرانی ، حکومت ، تبیہ ، لوگوں کی قصور و جُرم کی سزا دینا‘‘۔ سیاست میں حصّہ لینے والے کو ’’ سیاست کار/ سیاست مدار‘‘ کہتے ہیں اور خونریز شخص کو اور سفاکؔ شخص کو ’’ سیاست گر/ سیاستی‘‘ شاعرِ مشرق علاّمہ اقبالؒ نے سیاست کے کاموں میں حصّہ لینے والے شخص (مرد اور عورت) کو سیاسی کِیا ہے ۔ علاّمہ اقبالؒ بھی سیاستدان / سیاسی تھے اور جب آپؒ وکالت کرتے تھے تو اپنی اور اپنے خاندان کی ضروریات کے مقدمات اپنے پاس رکھ لیتے تھے اور فاضل مقدمات اپنے دوست / شاگرد وُکلاء میں بانٹ دیتے تھے۔ معزز قارئین!۔ قرآنِ پاک کی ایک آیت میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر انقلاب صلی اللہ علیہ و آلہ وَسلم سے کہا کہ ’’ لوگ آپ سے پوچھتے ہیں ’’ کہ اللہ کی راہ میں کِس قدر خرچ کریں؟‘‘ تو آپ انہیں کہہ دیں کہ جتنا تمہارے خرچ سے بچے‘‘۔ قرآنِ پاک کے اِس مفہوم کو اپنے ایک شعر میں یہ بیان کِیا کہ… جو حرف قُلِ العَفو میں پوشیدہ ہے اب تک! اِس دَور میں شاید یہ حقیقت ہو نمودار! بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پاکستان کے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالتے ہی اپنی ساری جائیداد کا ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام کردِیا تھا۔ اپنی ایک نظم میں سیاسی چالیں چلنے والے اور مکار لوگوں کو ’’ سیاست گر‘‘ قرار دیتے ہُوئے علاّمہ اقبالؒ نے ایک نظم میں کہا تھا کہ … پُرانی سیاست گرہ، خوار ہے! زمیں میردِ سُلطان سے بیزار ہے! (اُن دِنوں ) جناب انور ظہیر جمالی چیف جسٹس آف پاکستان تھے ، جب 14 اکتوبر 2016ء کو اُنہوں نے لاہور میٹر ٹرین کیس کی سماعت کے دَوران اپنے ریمارکس میں کہا کہ ’’ میٹرو ٹرین منصوبے سے ہماری تاریخی ورثوں کو مٹایا جا رہا ہے ۔ عوام کو اپنے نمائندے منتخب کرتے وقت سوچنا چاہیے ‘‘۔ جسٹس انور ظہیر جمالی صاحب نے یہ بھی ریمارکس دئیے تھے کہ’’ پاکستان میں جمہوریت کے نام پر بادشاہت قائم ہے ‘‘۔ معزز قارئین!۔ 9 ستمبر 2008ء سے لے کر 8 ستمبر 2013ء تک آصف علی زرداری صدر مملکت تھے اور 5 جون 2013ء سے لے کر 28 جولائی 2017ء تک میاں نواز شریف وزیراعظم ۔ باری باری ’’پاکستان مسلم لیگ (ن) ‘‘ اور ’’ پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرینز ‘‘ نے "Friendly Opposition" ۔ کا کردار ادا کِیا۔ دراصل صدر جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں 14 مئی 2006ء کو دو سابق وزرائے اعظم محترمہ بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف نے لندن میں "Charter of Democracy"( میثاق جمہوریت ) پر دستخط کر کے آپس میں ’’ مُک مُکا ‘‘ کرلِیا تھا اور جب آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کا دورِ اقتدار شروع ہُوا تو’’ شاعرِ سیاست‘‘ نے کہا تھا کہ … بہہ کے لندن دے ،محل دو محلیاں وِچّ، جمہوریت دا ، مِیثاق کردے! قتل کر کے آپ ،جمہوریت نُوں، جمہوریت دا، مِیثاق کردے! …O… نُون لیگ ؔوالے ، تے پپلئے ؔہُن، اِکّ مِکّ ہوئے، کھنڈ کِھیر ،ہواے! گالہاں ، مَندیاں توں ، تے ،اُلاہمیاں توں، اِک دُوجے نُوں، بیباق کردے! …O… پاکستان نُوں ہُن، خوشحال کردے! بُوہے کھول دے، اپنیاں رحمتاں دے! رباّ سوہنیا! سُن فریاد ساڈی! ساڈے وَیرِیاںدا ،جِینا شاق کر دے ! معزز قارئین!۔مختلف مقدمات میں ملوث آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کے خاندان کے افراد کا مُک مُکا تو اُن کی مجبوری تھی /ہے لیکن کیا وزیراعظم عمران خان پاکستان میں ’’ جمہوریت‘‘ جاری رکھنے کے لئے اُن میں سے ایک خاندان کو "N.R.O" دے سکتے ہیں ؟۔ ہمارے سیاستدان عام طور پر ، کسی مغربی مفکر کا یہ راگ الاپا کرتے ہیں کہ ’’بدترین جمہوریت ۔ بہترین آمریت سے اچھی ہوتی ہے ‘‘ لیکن یہ نہیں بتاتے کہ ’’ کتنے برس تک؟‘‘۔ سوال یہ ہے کہ ’’اِس وقت مختلف مقدمات میں ملوث جو ارکان پارلیمنٹ اور صوبائی اسمبلیوں میں موجود ہیں ، اُنہیں کب تک پروڈکشن آرڈز پر ، ایوانوں میں رونمائی کا اعزاز حاصل رہے گا؟۔