آسام کے مسلمانوں کی حالت زار بہت ہی تشویش کا باعث ہے۔ جب سے ریاست میں بی جے پی کی حکومت قائم ہوئی مسلمانوں کو پریشان کرنے کیلئے طرح طرح کے حیلے بہانے تراشے جارہے ہیں۔ کل تک مسلمانوں کو بنگلہ دیشی کہہ کر جینا حرام کیا جارہا تھا لیکن اب قومی شہری رجسٹر متعارف کرنے کا دوسرا راستہ اختیار کیا گیاہے۔ واضح رہے کہ آسام کی حقیقی آبادی اور بنگلہ دیشیوں کے درمیان فرق کرنے کے لئے قومی شہری رجسٹر کا فارمولہ وضع کیا گیا اور یہ معاملہ سپریم کورٹ میں زیر سماعت ہے ۔ آسام میں مسلمانوں کو اپنی شہریت ثابت کرنے کے لئے16دستاویزات کو تسلیم کیا گیا ہے۔ ان میں سے پنچایت سرٹیفکیٹ بھی شامل ہے۔ پنچایت کی سرٹیفکیٹ اس لڑکی کو دی جاتی ہے جو شادی کرکے دوسرے گائوں یا علاقہ میں جاتی ہے تاکہ یہ نہ کہا جاسکے کہ یہ بنگلہ دیشی ہے اور اسی کو روکنے کے لئے پنچایت سرٹیفکیٹ دیتی ہے۔ اس کے علاوہ شہریت کو ثابت کرنے کے لئے آسام میں ایک ٹریبونل بھی ہے۔ یہ معاملہ شروع ہوا تھا منورہ بیگم کے کیس سے ۔ منورہ بیگم کی سرٹیفکیٹ کو ٹریبونل نے تسلیم کرنے سے انکار کردیا تھا ۔ اس کو گوہاٹی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا کیا۔ گوہاٹی ہائی کورٹ نے بھی ٹریبونل کے فیصلے کو باقی رکھا اور پنچایت کی سرٹیفکیٹ کوتسلیم نہیں کیا، جب کہ پنجایت کی سرٹیفکیٹ دستاویزات کی فہرست میں 13ویں نمبر پر ہے۔ اس فیصلے کی زد میں تقریبا 48لاکھ خواتین آگئی تھیںجن کی شہریت ٹریبونل کے حکم نامے سے مسترد ہوجاتی ہے۔ سب سے بڑی پریشانی کی بات یہ ہے کہ پولیس نے اس فیصلے کو بہانہ بناکر پکڑ دھکڑشروع کردی۔ پولیس رات کے دوران بغیر کسی لیڈی پولیس کے گھر پر دھاوا بولتی اور دروازہ توڑ کر چن چن کر کم عمر خواتین کو گرفتار کرکے ڈٹینشن کیمپ میں چھوڑ دیتی تھی۔ یہ گرفتاریاں غیر قانونی ہوتی ہیں کیونکہ سپریم کورٹ کی رولنگ کے مطابق کسی خاتون کو رات کے وقت گرفتار نہیں کیا جاسکتا لیکن اگر یہ بہت ضروری ہو تو لیڈی پولیس ساتھ میں ہونا ضروری ہے۔ آسام میں اس قاعدے قانون کا کوئی پاس و لحاظ نہیں رکھا جاتا۔ معاملہ کی سنگینی کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ ان خواتین کو مبینہ طورپر عادی مجرموں کے ساتھ رکھا جاتا ہے جیسا کہ جمعیتہ علمائے ہند نے الزام لگایا تھا۔ آل انڈیا یونائٹیڈ ڈیموکریٹک فرنٹ کے صدر اور آسام سے رکن پارلیمنٹ مولانا بدرالدین اجمل نے اس بارے میں بتایا تھا کہ میں نے ڈٹینشن کیمپ میں جانے کے لئے اجازت چاہی تو مجھے یہ کہہ کر منع کردیا گیا کہ اس کے لئے وزارت داخلہ سے اجازت لینی ہوگی۔ میں نے وزارت داخلہ کو اس سلسلے میں خط لکھا لیکن طویل عرصہ بیت جانے کے باوجود اب تک اس کا کوئی جواب نہیں آیا ۔ ڈٹینشن کیمپ میں قید مسلم خواتین کے ساتھ کیا ہورہاہے، اس کا کچھ پتہ نہیں چلتا۔ کہا جاتاہے کہ ڈٹینشن کیمپ میں تقریبا ًدس ہزار کے قریب خواتین نظربند ہیں۔ کہنے کو گوہاٹی ہائی کوررٹ کا یہ فیصلہ ہندو خواتین پربھی نافذ ہوتا ہے لیکن نشانہ صرف مسلمانوں کو بنایا جارہا ہے۔ سال 2018ء کے ماہ جولائی میں حکومت بھارت نے ریاست آسام میں ایک فائنل ڈرافٹ جاری کیا تھا جس میں چالیس لاکھ لوگوں کے نام شامل نہیںتھے جو اس وقت آسام میں مقیم ہیں۔۔اس ڈرافٹ میںبھارتی ریاست آسام میں 40 لاکھ مسلمانوںکو ان کی شہریت سے محروم کیا جا رہا ہے۔ ان چالیس لاکھ نفوس کو ملک بدری کا سامنا ہے جس کے باعث ان میں سے اب تک کئی لوگوں نے تو اس خوف سے خودکشی بھی کی ہے۔سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ 2015 ء میں جب سے سٹیزن رجسٹر کو اپ ڈیڈ کرنے کی شروعات ہوئی ہے تب سے شہریت چھینے جانے اور حراستی مرکز بھیجے جانے کے خوف سے بہت سے مسلمان بنگالیوں نے خودکشی کی ہے۔سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس نامی تنظیم نے آسام میں خود کشی کے ایسے درجنوںواقعات کی فہرست دکھائی ہے۔تنظیم کا کہنا ہے کہ ان میں زیادہ واقعات 2018 ء کے بعد کے ہیں جب اپ ڈیٹ کیے گئے رجسٹر کا پہلا ڈرافٹ جاری کیا گیا تھا۔ایک سماجی کارکن عبدالکلام آزاد 2015ء میں رجسٹریشن کا عمل شروع ہونے سے ہی خودکشیوں کا ریکارڈ رکھ رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ پچھلے سال جب سے این آر سی کا فائنل ڈرافٹ جاری ہوا ہے تب سے خودکشیوں کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔آسام میں نیشنل رجسٹر آف سٹیزنز 1951 ء میں بنایا گیا تھا تاکہ یہ طے کیا جا سکے کہ کون اس ریاست میں پیدا ہوا ہے اور انڈین ہے اور کون ہمسایہ ملک بنگلہ دیش سے آیا ہے۔اس رجسٹر کو پہلی بار اپ ڈیٹ کیا جا رہا ہے۔ اس میں ان لوگوں کو بطور انڈین شہری تسلیم کیا جانا ہے جو یہ ثابت کر پائیں کہ وہ 1971ء سے پہلے سے ریاست میں رہ رہے ہیں۔یہ وہ سال ہے جب بنگلہ دیش نے پاکستان سے الگ ہو کر اپنی آزادی کا اعلان کیا تھا۔ جون 2019ء میں حکام نے اعلان کیا کہ آسام کے ایک لاکھ ایسے شہری جو گذشتہ برس این آر سی میں شامل کیے گئے تھے اب اس کا حصہ نہیں اور وہ اپنی شہریت کا ثبوت دیں۔این آر سی کی حتمی فہرست 31 جولائی کو جاری ہونی ہے اور خارج شدہ افراد میں سے نصف سے زیادہ اپنے اخراج کے خلاف اپیلیں کر رہے ہیں۔1980 ء کے اواخر میں رجسٹریشن کا عمل شروع ہونے کے ساتھ ریاست میں سینکڑوں ٹرائبیونل قائم کیے گئے تھے جو مبینہ غیر قانونی تارکینِ وطن کی شناخت کر رہے ہیں جنھیں ملک سے نکالا جانا ہے۔شہری رجسٹر اور ٹرائبیونل نے خاص ثقافت شناخت والے لوگوں میں خوف پیدا کر دیا ہے اور اس بحث کے سبب مقامی آبادی اور بنگالی تارکینِ وطن کے درمیان کشیدگی پیدا ہو گئی ہے۔سیاسی چوہدریوں نے اس بحث میں آگ پر تیل کا کام کیا ہے کہ ریاست میں کس کو رہنے کا حق حاصل ہے۔آسام کی حکومت بھارتی سپریم کورٹ کی جانب سے شہری رجسٹر کی تیاری کے لیے دی گئی 31 جولائی 2019ء کی حتمی مدت کے خاتمے سے پہلے اسے حتمی شکل دینا چاہتی ہے اور اس کے نتیجے میں لاکھوں بنگالی مسلمان بے ریاست قرار د دیے جائیں گے۔