سانحہ مچھ پر جاری دھرنا ختم کر دیا گیا۔ شہدا کمیٹی اور حکومتی ٹیم کے مذاکرات کامیاب، تحریری معاہدہ ہو گیا، تمام مطالبات مان لئے گئے۔ کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم اعلان کے مطابق کوئٹہ جائیں گے۔ کاش! یہ سب کچھ پہلے ہو جاتا، نہ صرف یہ کہ لواحقین اذیت سے دو چار نہ ہوتے بلکہ ہمارا ملک بدنامی سے بھی بچ جاتا۔ مذاکرات سے پہلے وزیر اعظم عمران خان کا یہ بیان نہ مناسب تھا۔ وزیر اعظم نے مختلف احساس پروگرام شروع کئے ہوئے ہیں تو ان کو انسانی جانوں اور لواحقین کے جذبات و احساسات کا بھی احساس کرنا چاہئے یہ ان کے فرائض منصبی کے ساتھ اپنی ذاتی ساکھ کیلئے بھی ضروری ہے۔ پوری دنیا میں نیا سال نئی امیدوں اور نئی امنگوں کے ساتھ شروع ہوتا ہے، ترقی کے نئے نئے امکانات کے بارے میں سوچا جاتا ہے، نئے سال کے جشن کے ساتھ ساتھ کائنات کو مسخر کرنے کے منصوبے بھی بنتے ہیں، کورونا کی تباہی کے باوجود امریکہ نے 2021ء کیلئے ایک ارب ڈالر اس چاند گاڑی کیلئے وقف کئے جو 2024ء میں چاند پر اترنا چاہتی ہے۔ ہماری بد قسمتی ہے کہ ہم مسلمانوں کا اسلامی سال محرم ماتم سے شروع ہوتا ہے، عیسوی کیلنڈر شروع ہوا ہے تو پہلے ہی ہفتے سانحہ مچھ پیش آگیا جس سے پورے ملک کی فضاء سوگوار ہوئی۔ ان واقعات کے تدارک کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے ’’مٹی پائو‘‘ والی پالیسی نہیں چلے گی۔ حکومت اپوزیشن سب کو اپنی اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرنا ہو گا اور ماضی میں ہونیوالے سانحات سے سبق حاصل کرکے نئی پالیسی ترتیب دینا ہو گی۔ جب معاملہ میرٹ پر آئے گا تو بات میرٹ پر کرنا ہو گی۔ سانحہ مچھ کے ساتھ ساتھ سانحہ ماڈل ٹائون کا ذکر بھی آئے گا، ماڈل ٹائون لاہور میں ریاستی دہشت گردی ہوئی، وہاں یہ بھی نہیں کہ قاتل نہ معلوم تھے۔ پولیس نے سیدھی سیدھی گولیاں ماریں، کس کی ایماء پر ماریں اور کیوں ماریں سب جانتے ہیں۔ سانحہ ماڈل ٹائون لاہور کی ایف آئی آر درج کرنے والے خود قاتل تھے۔ تحریک انصاف والے ن لیگ کو دوش دے رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ مریم نواز سانحہ ماڈل ٹائون کے لواحقین کو پُرسہ دینے کیوں نہ گئیں؟ تحریک کے رہنمائوں کا یہ الزام غلط نہیں ، اگر مریم نواز میں اخلاقی جرأت ہے تو انہیںاس بات کا جواب دینا چاہئے، مگر ایک بات یہ بھی ہے کہ اب صوبے اور مرکز میں حکومت تحریک انصاف کی ہے وہ سانحہ ماڈل ٹائون پر از سر نو انکوائری کرا سکتی ہے۔ سابق وزیر اعظم سید یوسف رضا گیلانی نے کوئٹہ میں سانحہ مچھ کے لواحقین سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہمارے دور میں ہزارہ برادری سے دہشت گردی کا واقعہ پیش آیا تھا تو اس وقت کے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کے ساتھ میں خود بھی آیا تھا، ہر شہری کی جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے اور ریاست کے عہدیداران کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ شہریوں کے دکھ میں شریک ہوں اور انسانوں کے مارے جانے پر لواحقین کے پاس جا کر ان کو پُرسہ دیں اور لواحقین کو اس بات کی یقین دہانی کرائیں کہ وہ قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے اور غمزدہ لواحقین کو انصاف فراہم کریں گے۔ سید یوسف رضا گیلانی نے اچھا کیا کہ وہ کوئٹہ پہنچے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ اسی طرح کی دہشت گردی کے واقعات میں سرائیکی مزدور قتل ہوئے تو سید یوسف رضا گیلانی نہ لواحقین کے پاس آئے، نہ پرسہ دیا اور نہ انصاف فراہم کیا وجہ یہ تھی۔ بات صرف یوسف رضا گیلانی کی نہیں بلکہ وسیب کے سردار، جاگیردار، تمندار اور گدی نشین ہمیشہ برسراقتدار رہے۔ کسی نے انصاف کی فراہمی میں وسیب کے غریب طبقات کی مدد نہیں کی۔ ہزارہ برادری نے جس طرح اتحاد اور اتفاق کا مظاہرہ کیا اور سخت اور کٹھن حالات کے باوجود حکومت کو اپنے مطالبات منوانے پر مجبور کیا اسی طرح کے عمل کی ضرورت وسیب میں بھی ہے۔ وسیب کے لوگوں کو ہمیشہ یہ طعنہ ملتا ہے کہ وسیب کے لوگ ہمیشہ برسراقتدار رہے اس کے باوجود مسئلے حل نہیں ہوئے۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ اب بھی وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کا تعلق وسیب سے ہے ۔ وسیب کے مسئلے حل نہ ہوئے تو ایک اور تہمت میں اضافہ ہو جائے گا ۔ حکمرانوں کو ہم یہ بھی کہیں گے کہ سانحہ مچھ بہت بڑا سبق ہے ۔ نہ صرف وسیب بلکہ پاکستان کے تمام پسماندہ علاقوں کے مسائل بلا تاخیر حل ہونے چاہئیں۔ امن و امان کی صورتحال بہتر ہونی چاہئے اور ہر شخص کے جان و مان کا تحفظ حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ سید مراد علی شاہ سانحہ مچھ کے متاثرین سے تعزیت کیلئے کوئٹہ پہنچے۔ بہت اچھی بات ہے مگر یہ بھی دیکھئے کہ ابھی چند دن پہلے کراچی میں پانچ سرائیکی مزدوروں کو ماورائے عدالت بے دردی سے پولیس نے قتل کر دیا، ان مزدوروں کو بھی پولیس نے دہشت گردی کا نشانہ بنایا اور پانچوں کو اکٹھا کرکے گولیاں مار دیں، ٹی وی چینلز پر پولیس دہشت گردی کی فوٹیج چل چکی ہیں۔ کراچی اور پورے وسیب میں احتجاج ہوا وزیر اعلیٰ سندھ نے ظلم، درندگی اور بربریت پر نوٹس تو کیا تعزیت کرنا بھی گوارہ نہیں کیا۔ کراچی میں مزدوروں پر ہونیوالے ظلم کا یہ پہلا واقعہ نہیں، مزدوروں کی جھگیوں کو آگ لگا کر زندہ جلائے جانے کے واقعات ہوئے۔ سانحہ بلدیہ فیکٹری پیش آیا، بینظیر دور میں کراچی سے سرائیکی مزدوروں کی بوری بند لاشیں، جن کے اوپر ’’صدر فاروق لغاری کو تحفہ‘‘ لکھا تھا، آئیں، مگر آج تک انصاف نہیں ملا اور نہ ہی سندھ حکومت نے ذمہ داری قبول کی۔ بلوچستان دہشت گردی کی آماجگاہ بنا ہوا ہے آئے روز دہشت گردی کے واقعات ہوتے ہیں، دہشت گردی کے واقعات کا نشانہ جہاں سویلین بنتے ہیں وہاں سکیورٹی فورسز کے ادارے بھی محفوظ نہیں۔ بلوچستان کا علاقہ مچھ جو کہ آج ملکوں اور غیر ملکی میڈیا کی خبروں کا موضوع بنا ہو اہے میں ایف سی کے چھ اہلکار اس وقت شہید ہوئے جب مچھ کے علاقہ پیر غائب میں جب دہشت گردوں نے سکیورٹی فورسز کی گاڑی کو نشانہ بنایا یہ 19 مئی 2020ء کا واقعہ ہے۔ اسی طرح 7 مئی کو بلوچستان کے ضلع کیچ میں دہشت گردوں نے دھماکہ کرکے میجر سمیت 6 فوجی شہید کر دیئے، وانا وزیرستان میں سکیورٹی فورسز پر حملوں کی خبریں آتی رہتی ہیں، اس سے صاف ظاہر ہے کہ امن و امان کی صورتحال ٹھیک نہیں ہے۔ دہشت گرد کارروائیوں سے محافظ محفوظ نہیں تو عوام کا کیا بنے گا؟ یہ سوچنا حکومت خصوصاً ملک کے سربراہ کیلئے ضروری ہے۔