وہی ہوا جس کے خدشات تھے ۔انتخابات کے نتائج نے سیاسی صورتحال کو مزید الجھا دیا ہے۔ منصوبے،اندازے اور جائزے سب دھرے رہ گئے۔توقعات اور خواہشات ادھوری رہ گئیں۔سیاسی فضا جو پہلے ہی شفاف نہ تھی مزید دھندلاگئی۔انتخابی نتائج کے مطابق وفاق میں حکومت کی تشکیل کے لئے کسی بھی سیاسی جماعت کو اکثریت نہیں مل سکی ۔ پاکستان مسلم لیگ نواز جس کے بارے میں یہ خیال کیا جارہا تھا کہ ان کے لئے یہ انتخابات محض ایک رسمی کاروائی ہیں انہیں وفاق اور پنجاب میں حکومت دینے کی یقین دہانی کرائی جاچکی ہے اور ان کے لئے تو یہ جملہ تو زبان زد عام تھا کہ ’’ ساڈی گل ہو گئی اے ‘‘ اور یہی وجہ تھی کہ مسلم لیگ کی قیادت نے انتخابی مہم میں اور انتخابات کے روز کچھ زیادہ محنت اور جوش و خروش کا اظہار نہیںکیا پھر یہ کہ انہیں یہ اطمنان بھی تھا کہ ان کی سب سے بڑی حریف جماعت تحریک انصاف کو انتظامی ، سیاسی اور عدالتی فیصلوں کے ذریعہ دیوار سے لگایا جاچکا ہے۔ لہذا ان کی کامیابی میں اب کوئی رکاوٹ باقی نہیں رہی ہے اور وہ آسانی کے ساتھ پنجاب اور وفاق میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کر لینگے، مگر انتخابی نتائج نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ۔بھاری اکثریت تو کجا ان کے لئے حکومت بنانا بھی اب ایک مشکل مرحلہ بنکر رہ گیا ہے۔ اس کے برخلاف ایک ایسی سیاسی جماعت جس کی قیادت جیل میں ہو یا سیاست سے تائب کی جاچکی ہو ، جس کا انتخابی نشان تک اس سے لیا جا چکا ہو، جس کے امیدوارمختلف نشانات کے ساتھ انتخابات میں شریک ہو ئے ہوں اور جسے انتخابی مہم بھی آزادانہ چلانے کی اجازت نہ ہو۔ وہ اس سب کے باوجود قومی اسمبلی میں سب زیادہ نشستوں پر کامیاب ہوجائے ، خیبر پختون خوا میں واضح اکثریت (یعنی 113 میں سے 90 نشستیں) حاصل کرلے اور پنجاب میں دوسری بڑی سیاسی جماعت ( 396 میں سے 130 ) نشستوں کے ساتھ کھڑی ہو ، حیرت انگیز تو ہے مگر غیر متوقع نہیں ۔تحریک انصاف کی راہ میں کھڑی کی جانے والی تمام مشکلات بے نتیجہ ثابت ہوگئیں۔ بس منصوبہ ساز دیوار پر لکھا پڑھ نہیں سکے یا پڑھنا ہی نہیں چاہتے تھے ۔ یہ بات تواتر سے کہی جاتی رہی ہے کہ نو مئی کا سانحہ اگرچہ سنگین نوعیت کا تھا مگر اس کی پاداش میں پوری سیاسی قیادت اور اس کے تمام کارکنوں کو نشانہ بنا نا قرین انصاف نہیں۔ جو لوگ اس جرم کے مرتکب ہوئے ہیں انہیں قانون کے مطابق ضرور سزا ملنی چاہیئے ۔اسے الیکشن سے باہر رکھنا یا اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنا یا کسی سیاسی جماعت کی پذیرائی میں حد سے تجاوز کرنا جمہوری سیاسی عمل کے منافی ہے ۔ اس سے نہ صرف ا لیکشن کی شفافیت اور منصفانہ ہونے پر حرف آئے گا بلکہ عوام میں اشتعال انگیز رد عمل پیدا ہوگا جو نہ صرف سیاسی نظام کو متاثر کرے گا بلکہ یہ ریاست کے لئے پہلے سے موجود مشکلات می اضافہ کا باعث بھی ہوگا۔ اب ریاست کو اسی مشکل کا سامنا ہے ۔وفاق میں جہاں ایک مضبوط سیاسی حکومت کا قیام وقت کا اہم تقاضہ اور مجبوری تھی وہاں انتخابات کے نتائج کے باعث کسی حکومت کا بننا ہی سخت مرحلے میں ہے ۔تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد اراکین ، پاکستان مسلم لیگ نواز اور پاکستان پپلز پارٹی کوئی بھی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وفاق میں مستحکم حکومت تشکیل دے سکے ۔نتائج کا جبر انہیں ایک دوسرے کے ساتھ اشتراک کی طرف لے جارہا ہے ۔یہ بات تو ایک روشن حقیقت ہے کہ مخلوط سیاسی حکومت بڑے اور مشکل فیصلے کرنے کی طاقت اور حمایت نہیں رکھتی۔ اتحادی حکومت میں مشکل فیصلوں کی ذمہ داری کوئی بھی لینے کو تیار نہیں ہوتا ۔ ان انتخابات کے نتائج سے کچھ اہم سیاسی اشاریے ضرور سامنے آئے ہیں جسے سیاسی، عسکری اور انتظامی قیادت کو سمجھنے کی شدید ضرورت ہے ۔ اس بات میں تو کسی کو شائبہ نہیں ہونا چاہیئے کہ پاکستان کے عوام کو اپنی افواج سے گہری عقیدت رہی ہے اور یہ بھی درست ہے پاکستان کی سلامتی کے لئے کی جانے والی ا ن کی کوششیں قابل تحسین ہیں مگر عوام اس بات کو پسند نہیں کرتے کہ سیاسی معاملات میں دخل اندازی ہو ،حکومتوں کو بنانے اور بگاڑنے میں رکاوٹ پیدا ہو یا کوئی سیاسی جماعت پشت پناہی سے کامیابی حاصل کرے ۔ حالیہ انتخابات کے نتائج اس کا واضح اشارہ ہیں۔ عسکری قیادت ہر منتخب سیاسی حکومت کے ساتھ کھڑی ہونے کی آئینی طور پر پابند ہے ۔اسی میں اس کا وقار اور احترام ہے۔ ان نتائج سے یہ بھی واضح ہوا ہے کہ ریاست اور اس کے ادار وں کی جانب سے جب کسی سیاسی جماعت یا قیادت کے لئے مشکلات پیدا کردی جائیں تو عوامی ہمدردی کا پیدا ہونا ایک لازمی ردعمل ہوتا ہے ۔تحریک انصاف کی ساڑھے تین سالہ کارکردگی اس قابل نہیں تھی کہ اسے دوبارہ اس طرح عوامی حمایت ملتی ۔یہ پذیرائی اسے ریاست کی جانب سے اس کے لئے پیدا کردہ مشکلات کے رد عمل کے باعث حاصل ہوئی ہے۔ ایک اور اہم اشارہ جو ان انتخابات کے نتائج سے واضح طور پر سامنے آیاہے وہ یہ کہ عوام ایسی سیاسی جماعت کو پسند نہیں کرتے جو عوام کی حمایت اور تائید پر بھروسہ کرکے سامنے نہ آئے۔ شہباز شریف کی قیادت میں پی۔ڈی۔ایم کی سولہ ماہ کی حکومت کی کارکردگی اور اس دوران لیگی قیادت بشمول نواز شریف کے مقدمات سے بریت ،نواز شریف کا بیماری کو جواز بناکر ملک چھوڑ کر لند ن میں طویل قیام اور پھر واپسی میں یہ تاثر دینا کہ ساڈی گل ہو گئی اے کے بیانیہ کو عوام نے رد کردیا ۔مسلم لیگ نواز کو ایک سیاسی جماعت کے طور پر ان نتائج سے کچھ سبق ضرور سیکھنے چاہئیں۔ عوام اب اتنے باشعور ضرور ہو گئے ہیں کہ وہ سیاسی جماعتوں کے قول و فعل کے تضاد کو سمجھتے ہوئے فیصلہ کر سکیں۔ووٹ کو عزت دو کا بیانیہ درست مگر مشکل راستہ ضرور تھا ۔مسلم لیگ نواز نے مشکل راستے کو چھوڑ کر آسان راستے کا انتخاب کیا جسے عوام نے پسند نہیں کیا اور اپنی بچی کھچی سیاسی ساکھ بھی دائو پر لگادی۔ا ن انتخابات میں مسلم لیگ نواز ایک قومی سیاسی جماعت کے بجائے پنجاب کی سیاسی جماعت کے طور پر سرگرم رہی ۔سندھ اور خیبر پختون خوا میں اس کی شرکت غیر موئثر تھی یہ طرز عمل نہ صرف اس کی حمایت کے سکڑنے کا باعث بن رہا ہے بلکہ اس کی قومی حیثیت کو بھی متاثر کررہا ہے۔ اس پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ کی ضرورت ہے ۔اس تناظر میں پاکستان پپلز پارٹی کی کارکردگی زیادہ بہتر رہی۔ پنجاب میں اپنی کمزور بنیاد کے باوجودپارٹی چیئرمین کا لاہور کے ایک حلقہ سے انتخاب میں حصہ لینے اور وہاں بھرپورانتخابی مہم چلانے سے اس کی قومی شناخت مضبوط ہوئی ہے۔سندھ میں پاکستان پپلز پارٹی ، خیبر پختون خوا میں تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد اراکین آسانی کے ساتھ حکومت بنانے کی پوزیشن میں ہیں۔بلوچستان میں حسب سابق ایک مخلوط حکومت ہی بن پائیگی۔پنجاب اور وفاق میں صورتحال گھمبیر اور پیچیدہ ہے ۔بالخصوص وفاق میں جہاں ایک مضبوط حکومت کی تشکیل از حد ضروری ہے ایک کمزور مخلوط حکومت بنتی نظر آرہی ہے ۔ دو بڑی سیاسی جماعتوں ،مسلم لیگ نواز اورپیپلز پارٹی،اور تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اراکین میں سے کس کے ساتھ حکومتی اشتراک عمل میں آتا ہے اور کس حد تک کامیاب رہتا ہے ۔ یہ گتھی سلجھنا ابھی باقی ہے !!