کیا یہ لوگ تاریخ کے کوڑے دان میں ڈالے جائیں گے؟یہ سب کے سب؟ ایسا برسا ٹوٹ کے بادل۔دیکھتے ہی دیکھتے ایک طوفان سااٹھا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو بہا لے جائے گا۔ بِس کی گانٹھ ووٹ گننے کی مشین‘ای وی ایم ہے۔یہ اسٹیبلشمنٹ کو گوارا ہے اور اپوزیشن نہ حلیفوں کو۔اسٹیبلشمنٹ کی بات تو سمجھ میں آتی ہے اور حلیفوں کی بھی۔ایک سنہری موقع سندھ کی سیاسی اپوزیشن‘جی ڈی اے یعنی دیہی سندھ کے حلیفوں‘ایم کیو ایم اورچودھری برادران کو ملا ہے۔نظر انداز کئے گئے لوگ اپنا حصہ اب لے کے رہیں گے۔ملاح کی کشتی طوفان میں ہے۔سرجھکانے کے سوا کوئی چارۂ ہی نہیں۔ اپوزیشن کو کیا ہوا؟ای وی ایم مشین سے اسے کیا خطرہ لاحق ہے ؟ای وی ایم نہیں‘اس کا مسئلہ سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ ہیں جو ظاہر ہے پی ٹی آئی کو ملیں گے۔سینیٹر سراج الحق کا دعویٰ یہ ہے کہ مشین کا منصوبہ دھاندلی کے لئے بنایا جا رہا ہے۔بالکل اسی طرح پختون خوا میں شجر کاری کا انہوں نے مذاق اڑایا تھا۔ ساری دنیا مانتی ہے ۔تمام عالمی ادارے اور ممالک تسلیم کرتے ہیں کہ جنگل اگے ہیں اور اتنے ہی جتنے کہ بتائے گئے۔جناب سراج الحق کی سمجھ میں یہ بات کیوں نہ آ سکی؟۔سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نے کہا تھا کہ اگر دفعہ 62اور 63کے معیار پر کوئی پورا اترتا ہے تو وہ سراج الحق ہیں۔جس شخص کے باب میں اس قدر حسن ظن ہو‘اسے تواور بھی محتاط ہونا چاہیے ۔اس فرمان کو کیسے انہوں نے بھلا دیا کہ کوئی فاسق اگر ایک خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو۔اصول نظر انداز کردیا :ایک آدمی کے جھوٹا ہونے کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ سنی سنائی بات کو پھیلاتا پھرے۔ ای وی ایم مشین سے دھاندلی کس طرح ممکن ہے؟دنیا کے کسی ملک میں یہ واقعہ رونما ہوا ہے؟چار الیکشن بھارت میںہو چکے۔ صرف ایک بار شک کا اظہار کیا گیا۔تیرہ لاکھ ووٹ گنے گئے اور سب کے سب درست نکلے۔اس لئے کہ اعداد و شمار مشین کی سکرین ہی پرثبت نہیں ہوتے‘ووٹ کی پرچی بھی نکالی جا سکتی ہے۔ الیکشن میں سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے کہ 1970ء کے سوا کبھی آزادانہ ہوئے اور نہ منصفانہ۔1970ء کے نتائج ماننے سے انکار کر دیا گیا۔اس کے بعد ہر الیکشن میں دھاندلی ہوئی۔سب سے بڑی دھاندلی یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے سیاسی پارٹیوں کی سرپرستی کی۔ پولنگ کی حد تک مشین ہی واحد حل ہے۔رہی قبل از الیکشن دھاندلی تو اسے روکنے کے لئے خلوص نیت درکار ہے جو کسی مشین سے جنم نہیں لیتا۔کسی کھیت میں اگایا نہیں جا سکتا۔ کچھ ملاقاتیں شہباز شریف سے ہوئیں۔ایک آدھ حضرت مولانا فضل الرحمن اور جناب آصف علی زرداری سے۔ایک پیغام رساں نواز شریف کی خدمت میں حاضر ہوا۔وہ پہاڑ پہ جا چڑھے۔مطالبہ کیا کہ مقدمات ان کے ختم کئے جائیں۔ضمانت دی جائے کہ واپسی پہ گرفتار نہ کئے جائیں گے۔ مقدمات ختم کیسے ہو سکتے ہیں؟ حکم عدالت عظمیٰ کا ہے اور احتساب عدالت کا۔قانون کی رو سے گرفتاری لازم ہے اور سزا صرف عدالت ہی ختم کر سکتی ہے۔ سوکھے دھانوں پانی برسا تو بھائی کو بھول گئے اور بیٹی کو بھی۔ایک بار پھروزارت عظمیٰ کا خواب دیکھنے لگے۔یادداشت آپ کی مرجھا چکی۔کام کاج کے آپ ہیں نہیں ‘ بھارتی مسلمانوں کی پیہم اذیت رسانی‘ کشمیر میں قتل عام کے خلاف ایک لفظ آپ کی زبان سے نکلتا نہیں۔دشمن ملک اور عالمی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سازباز کر کے حکومت کرنے کا خواب آپ دیکھتے ہیں۔ گو ہاتھ کوجنبش نہیں آنکھوں میں تو دم ہے رہنے دو ابھی ساغر و مینا میرے آگے کیا ساری دنیا کو آپ نے احمق سمجھ لیا۔ ای وی ایم مشین کا فائدہ اگر پہنچے گا تو اپوزیشن کو۔ اگر کوئی مطالبہ ان کا جائز ہے تو یہ کہ الیکشن سو فیصد شفاف ہونے چاہئیں۔اصرار اس پر کہ حکومت کو چلتا کیجیے۔کیا آپ کی عقل گھاس چرنے گئی ہے؟شاید نہیں‘شائد یہ وہی دانش ہے‘اقبالؔ نے جس کے بارے میں کہا تھا: صبح ازل یہ مجھ سے کہاجبرئیل نے جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول عمران خان کی حکومت ناکارہ ہے‘یکسر ناکارہ‘مگر آپ کیا ہیں۔سول سروس ‘پولیس ‘ایف بی آر‘ سب کے سب سول ادارے کس نے تباہ کئے؟اس کے باوجود حکمرانی آپ کو سونپ دی جائے ؟پی ٹی آئی ناکردہ کار ہے مگر آپ تو وہ ہیں کہ ملک کو چراگاہ بنا کے رکھ دیں گے۔ پندرہ سولہ برس پہلے کے جدہ میں نواز شریف کے الفاظ اب تک کانوں میں گونج رہے ہیں: قاضی حسین احمد سے بات ہو سکتی ہے‘مولوی صاحب سے نہیں۔ تب مولوی صاحب جنرل پرویز مشرف کے کارندہ تھے۔اب وہی آپ کے قافلہ سالار ہیں۔ کوئی منصوبہ نہیں‘کسی کے پاس کوئی منصوبہ نہیں۔مبنی بر انصاف ٹیکس وصولی کا نظام کیسے قائم ہو گا ۔کوئی منصوبہ نہیں۔عصر نو کے تقاضوں میں ڈھلی سول سروس کیسے تعمیر ہو گی ۔ہر سال تین چار سو ارب روپے ہڑپ کر جانے والے سرکاری اداروں سے چھٹکاراکس طرح پایا جائے گا؟زراعت اتنی فرسودہ ہو گئی کہ بھارت ایسے ملک کے مقابلے میں پیداوار آدھی ۔بھارتی کب سے اتنے طبّاع ہو گئے؟اکیسویں صدی کی زراعت کیا ہے؟کبھی کسی نے غور کرنے کی زحمت بھی گوارا کی۔ریلوے کو سعد رفیق نے بہتر بنایا تھا۔ اب مگر پیوند لگانے کی گنجائش نہیں ۔اب نیا نظام درکار ہے۔ کرپشن کا خاتمہ ہی نہیں‘نئی پٹڑی‘ نئے انجن ۔ موٹر وے کی طرح دیواروں کے درمیان حرکت کرنے والی ریل گاڑیاں۔ رفتار جن کی کم از کم 160کلو میٹر فی گھنٹہ ہو۔ کسی ایک بھی سیاسی پارٹی نے ایسے کسی منصوبے پہ ریاضت کی؟جی نہیں‘چہیتوں نے کی۔تعمیر پہ وہ آمادہ بھی۔اس پہ اٹھنے والے اخراجات مگر واپس کرنا ہوں گے اور سود سمیت۔ پارلیمانی نظام ناکام ہو چکا۔الیکشن اب زردار ہی جیت سکتے ہیں‘جن میں سے اکثر کی دولت لوٹ مار کا ثمر ہے۔ ایک نئے نظام کی تشکیل سہل نہیں۔اس سے بھی زیادہ یہ کہ طاقت کے بل پر کوئی نیا دستور مسلط نہیں کیا جا سکتا۔رائے عامہ کو اس کے لئے تیار کرنا ہو گا۔سالہا سال درکار ہوں گے: یہ آرزو بھی بڑی چیز ہے مگر ہمدم وصال یار فقط آرزو کی بات نہیں پہاڑ جیسی غلطیاں عمران خان نے کی ہیں۔طاقتوروں کا سہارا لیا۔اقتدار کی آرزو میں اس قدر بے لگام ہوئے کہ ہر ایرے غیرے نتھو خیرے کو پارٹی میں شامل کر لیا۔شامل ہی نہ کیا‘اہم ترین مناصب سونپ دیے۔خوشامدیوں میں گھر گئے اور گھر ے ہی نہیںپوری طرح آسودہ ہیں۔ مردم شناس ہیں نہ معاملہ فہم۔حلیفوں کو ساتھ لے کر چلنے کی خو نہیں‘پھر اپنی برگزیدگی کا نشہ: جہاں ہم خشت خم رکھ دیں بنائے کعبہ پڑتی ہے جہاں ساغر پٹخ دیں چشمہ زمزم ابلتا ہے سیاست کی سوجھ بوجھ اور نہ معیشت کی۔حکمت کا حال یہ کہ روشن خیال لیڈروں‘طیب اردوان اور مہاتیر محمد سے تعلقات استوار کرنے میںپرانے دوست بھی کھو دیے: پاپوش میں لگا دی کرن آفتاب کی جو بات کی خدا کی قسم لاجواب کی ایسے آدمی کو چلے جانا ہے۔مہلت اس کی مختصر ہے ۔زیادہ سے زیادہ پونے دو برس۔ شیشے کے گھر میں گائے گھس آئے تو کیا گھر ہی توڑ ڈالا جائے ۔ کوئی نہیں‘افسوس کہ لیڈران کرام میںکوئی ایک بھی نہیں جو حکمت آشنا ہو۔بڑی تصویر جو دیکھ سکے۔ اپنے ضمیر کے سامنے جواب دہی کا جو احساس رکھتا ہو ۔ادراک جسے ہو کہ ایک دن اسے خالق کے حضورپیش ہونا ہے۔اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ سرحد پار سے دہشت گردی کم ہو گئی‘ زیادہ طاقتور ملک ہمارے دشمن کے سر پہ سوار ہو گیا۔مواقع ہیں اور شاندار مواقع ثمر خیز کرنا تو کجا کوئی شناخت کرنے والا بھی نہیں۔ کیا یہ لوگ تاریخ کے کوڑے دان میں ڈالے جائیں گے؟یہ سب کے سب؟