سقوطِ ؔ ڈھاکہ کے بعد 20 دسمبر 1971ء کو جناب ذوالفقار علی بھٹو نے ’’ بچے کھچے پاکستان‘‘ کو نیا پاکستانؔ قرار دے کر سِولین مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر و صدرِ پاکستان کی حیثیت سے اقتدار سنبھالا اور پھرمنتخب وزیراعظم کی حیثیت سے ۔5 جولائی 1977ء کو ،اُنہیں جنرل ضیاء اُلحق نے برطرف کر کے خود اقتدار سنبھالا تو ، اُن کے بعد جتنے بھی حکمران آئے وہ سب نیا پاکستانؔ کے حکمران تھے لیکن اُنہوں نے مفلوک اُلحال عوام کے لئے کچھ نہیں کِیا؟۔ 18اگست 2018ء کو جنابِ عمران خان وزیراعظم منتخب ہُوئے اور9 ستمبر 2018ء کو جناب عارف علوی صدرِ مملکت، گویا جنابِ عمران خان کے وعدے / اعلان کے مطابق پاکستان کے عوام نیا پاکستانؔ کے دَور میں ہیں۔ معزز قارئین!۔سقوطِؔ ڈھاکہ کے بعد مشرقی پاکستان کے دو قائدین کاتذکرہ بے حد ضروری ہے ، جنہوںنے بنگلہ دیش کے بجائے نیا پاکستانؔ کا شہری بننا قبول کرلِیا تھا ۔ فاتح سلہٹ ؔ جناب محمود علی اور دوسرے چٹاگانگ کے چکما قبیلہ کے راجا تری دیو رائے۔ دونوں قائدین بھٹو صاحب کے دَور سے لے کر تاحیات وفاقی وزیر رہے ۔جناب محمود علی کا انتقال 17 نومبر 2006ء میں ہُوااور راجا تری دیو رائے 17 دسمبر 2012ء کو چل بسے، جب تک زندہ رہے ، قومی اور بین الاقوامی سطح پر ، پاکستان اور بنگلہ دیش کو متحد کرنے کی جدوجہد میں مصروف رہے۔ میری جنابِ محمود علی سے بڑی عقیدت اور دوستی تھی۔ جناب محمود علی کی وفات کے بعد چیف جسٹس (ر) فیڈرل شریعت کورٹ میاں محبوب احمد ، تحریک انتخاب کے صدر ہیں ۔ اکتوبر 1985ء میں تحریک ِ پاکستان کے کئی نامور کارکنوں نے ، پاکستان اور بنگلہ دیش کو متحد کرنے کے لئے ’’ تحریکِ تکمیل ِ پاکستان‘‘ قائم کی۔ جنابِ محمود علی کو صدر اور تحریک پاکستان کے ایک اور نامور کارکن سیّد ظہور عالم شہید کو سیکرٹری جنرل منتخب کرلِیا گیا۔ 1988ء میں شہید ؔ صاحب کا انتقال ہُوا تو ، اُن کی جگہ سیّد شاہد رشید سیکرٹری جنرل منتخب ہُوئے تو، میرا محمود علی صاحب سے رابطہ زیادہ ہوگیا۔ محمود علی صاحب جب بھی لاہور آتے تو میرے ( روزنامہ سیاست کے دفتر) میں ضرور تشریف لاتے اُن کے ساتھ (لندن میں مقیم) اُن کے چچا زاد جناب مشرف مشتاق علی بھی ہوتے ۔ مَیں جب بھی لندن جاتا ہُوں تو میری اُن سے اور اُن کی اعلیٰ تعلیم یافتہ اہلیہ بیگم سلینہ علی سے اکثر ملاقاتیں ہوتی ہیں ۔ مَیں 1987ء میں لاہور سے اِسلام آباد شِفٹ ہوگیا تو، انفارمیشن گروپ کے سینئر رُکن (سابق وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات) سیّد انور محمود اور ’’پاکستان کلچرل فورم‘‘ کے چیئرمین برادرِ عزیز ظفر بختاوری کے ذریعے میرے جناب محمود علی اورراجا تری دیو رائے سے بہت ہی قریبی تعلقات قائم ہوگئے۔ سیّد انور محمود کے گھر اور ’’پاکستان کلچرل فورم ‘‘ کی تقریبات میں میرے دونوں بزرگ دوستوں سے مسلسل ملاقاتیں ہوتی رہیں لیکن، پاکستان اور بنگلہ دیش کو متحد کرنا تو، حکمرانوں کا کام تھا۔ ’’مفسرِ نظریۂ پاکستان ‘‘ جناب ِ مجید نظامی نے پاکستان اور بنگلہ دیش کو متحد کرنے کے بجائے دونوں ملکوں میں ’’دوستی کے رِشتے ‘‘ قائم کرنے کے لئے 2014ء کے اوائل میں "Pakistan Bangladesh Brotherhood" قائم کی۔ جنابِ مجید نظامی صدر تھے اور سیّد شاہد رشید سیکرٹری جنرل ۔ 26 جولائی 2014ء کو جنابِ مجید نظامی کا انتقال ہُوا تو، تحریکِ پاکستان کے نامور کارکن شیخ رفیق احمد ، اِس تنظیم کے صدر منتخب ہُوئے۔ سیّد انور محمود معزز قارئین!۔ سیّد انور محمود کے والد صاحب سیّد محمود گیلانی (مرحوم) اور اُن کے بزرگوں نے تحریکِ پاکستان میں اہم کردار ادا کِیا۔ سیّد انور محمود اکثرکہا کرتے ہیں کہ ’’ مَیں نے پاکستان کی طرف دو بار ہجرت کی ، پہلی بار 1947ء میں جب مَیں بہت چھوٹا تھا (بہار سے )اپنے والدین کے ساتھ اور دوسری بار بنگلہ دیش کے قیام سے پہلے ڈھاکہ سے کراچی‘‘۔ سیّد صاحب وفاقی سیکرٹری اطلاعات و نشریات کے منصب سے ریٹائر ہُوئے تو صدر جنرل پرویز مشرف نے اُنہیں ڈھاکہ میں پاکستان کا ہائی کمشنر مقرر کردِیا لیکن ہماری وزارتِ خارجہ نے روڑا اٹکایا اور لِکھا کہ ’’ چونکہ سیّد انور محمود کا وزارتِ خارجہ سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا ، اِس لئے مناسب نہیں ‘‘۔ اُدھر بنگلہ دیش کی حکومت بھلا کسی ایسے بہاری پاکستانی کو کیسے ہائی کمشنر کے طور پر قبول کرلیتی جو بنگا لی تاریخ و ادب کا سکالر ہے اور بنگالی زبان روانی سے بول سکتا ہے ؟۔ مَیں نے مئی 2012ء میں اپنے پنجابی جریدہ ’’چانن‘‘ میں سیّد انور محمود کا پنجابی زبان میں انٹر ویو شائع کیا۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد بنگلہ دیش کے کیمپوں میں محصور بہاری پاکستانیوں کے بارے میں سیّد انور محمود نے کہا تھا کہ ’’ اَصلی پاکستانی بہاری بنگلہ دیش دے کیمپاں وِچ رُل رہے نیں ، جدوں کہ 40/30لکھ افغان مہاجرین پاکستان دے وسائل ہڑپ کر رہے نیں ۔ پہلاں 17/16ورھیاں دی عمر دے نوجواناں نُوں جماعتِ اسلامی دیاں تنظیماں ’’ الشّمس‘‘تے ’’البدر‘‘ نے استعمال کیِتاتے فیر پاکستان دی حکومت نے اونہاں نُوں بنگلہ دیش دی حکومت دے رحم و کرم تے چھّڈ دتّا‘‘۔ معزز قارئین!۔ کیا یہ قانونِ قدرت ہے ؟ کہ مشرقی پاکستان کو بنگلہ دیش بنانے کے عمل (سازش) کے تین کردار ذوالفقار علی بھٹو ، شیخ مجیب اُلرحمن اور بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی ، غیر فطری موت کا شکار ہُوئے ۔ ذوالفقار علی بھٹو ، نواب محمد احمد خان کے قتل کے جُرم میں پھانسی پا گئے۔ شیخ مجیب اُلرحمن کو اُن کے اپنے ؔ لوگوں نے قتل کردِیا اور اِندرا گاندھی کو اُن کے سِکھ محافظوں نے ۔جنرل محمد یحییٰ خان 20 دسمبر 1971ء کو اقتدار سے مرحوم ہونے کے بعد 10 اگست 1980ء تک ( حقیقت میں زندہ درگور) زندہ رہے ۔ گزشتہ کئی سال سے (N.A.D.R.A)۔ نادرا ؔ کی طرف سے 1980ء سے کراچی میں رہائش پذیر بہاری پاکستانیوں اور اُن کی اولاد کے لئے مسائل پیدا کئے جا رہے ہیں ۔ کراچی کی اہم شخصیات جناب محمد علی سوزؔ، جناب مہتاب عالم مہتابؔ ، جناب فاروق احمد ذاکرؔ ، جناب عبداللہ ساغرؔ ، جناب مُعتبرؔ شاہ ، شاہجہان پوری ، جناب غلام رسول طاہرؔ اور سماجی کارکُنان ، جناب سلیم احمد ، جناب شاکر حسین شاکرؔ اور جناب خورشید تنویر اِس مسئلے پر اکثر احتجاج کرتے رہتے ہیں کہ ’’ بہاری پاکستانیوں کو ’’پاکستانی شناخت ‘‘ سے محروم رکھا جا رہا ہے اور قانونی طور پر بلوغت کی عُمر کو پہنچنے والے کراچوی (بہاری پاکستانی لڑکے اور لڑکیاں تو ، اپنا نکاح پڑھوا کر شرعی طور پر میاں بیوی تو بن جاتے ہیں لیکن قانونی طور پر نہیں ) ۔ اِس لئے اُنہیں تو ’’N.A.D.R.A‘‘ کی طرف سے قومی شناختی کارڈ ہی جاری نہیں کئے جاتے اور جب اُنہیں قومی شناختی کارڈ نہیں ملیں گے تو وہ پاکستان سے باہر تعلیم اور ملازمت کے حصول کے لئے پاسپورٹ کیسے بنوا سکیں گے ؟‘‘ ۔ معزز قارئین!۔ مَیں پرسوں (اپنے کالم کی پہلی قسط میں ) جنوری 1970ء میں اپنے دورۂ مشرقی پاکستان کی یادیں قلمبند کر چکاہُوں ۔ ایک اہم بات اب عرض کر رہا ہُوں کہ ’’مَیں نے مولانا احتشام اُلحق تھانوی ؒ صاحب (مرحوم) کے ساتھ ڈھاکہ کی تاریخی مسجد بیت اُلمکرم میں نماز ِ جمعہ بھی ادا کی تھی۔ مَیں جب بھی اپنے بیٹوں افتخار علی چوہان ، انتصار علی چوہان اور انتظار علی چوہان اور اُن کے اہل و عیال کے ساتھ چھٹیاں گزارنے کے لئے برطانیہ جاتا ہُوں تو مَیں لندن کے علاقہ "Collires Wood" میں بنگالی بھائیوں کی جامع مسجد ’’دارالامان‘‘ میں بنگلہ دیشی امام صاحب کی اقتداء میں عیدین کی نماز پڑھتا ہُوں ۔ جہاں پاکستانی‘ بنگلہ دیشی اور دوسرے کئی ملکوں کے اردو، بنگالی، سندھی، پنجابی، پشتو، بلوچی ، انگریزی، جرمنی اور فرانسیسی بولنے والے مسلمانوں کے ساتھ ایسٹ لندن میں بنگلہ دیشی بھائیوں کی اکثریت، خوشحال اور کاروباری ہے۔ سکاٹ لینڈ کے شہر گلاسگو میںبھی مجھے 1981ء سے اپنے دوست ’’ بابائے امن‘‘ ملک غلام ربانی کے ساتھ گلاسگو کی مرکزی مسجد "Central Mosque" میں بھی مختلف زبانیں بولنے والے مسلمانوں ( خاص طور پر بنگالی بھائیوں کے ساتھ ) مجھے نمازِ جمعہ پڑھنے کا موقع ملتا ہے ۔ دونوں بار مجھے ڈھاکہ کی مسجد ’’بیت المکرم‘‘ میں نماز جمعہ ادا کرنے کی یاد آتی ہے ۔ مَیں سوچتا ہُوں کہ ’’ کیا میری زندگی میں جنابِ مجید نظامی کی "Pakistan Bangladesh Brotherhood"۔ کے خیال کو پاکستان اور بنگلہ دیش کے حکمران عملی شکل دے سکیں گے ؟۔