سعودی عرب سے پاکستان کے جو معاہدے ہوئے ہیں‘ ان میں سب سے اہم گوادر ریفائنری کا ہے لیکن اس پر بلوچستان اسمبلی نے سوال اٹھا دیے ہیں کہ اس سے ملک کو تو فائدہ ہو گا لیکن صوبے کو کیا فائدہ ہو گا۔ سوال غلط نہیں‘ سی پیک کے شروع میں زیادتی نواز شریف دور میں ہوئی اب پھر ’’ری پلے‘ ہو رہا ہے۔ بلوچستان اسمبلی نے اس حوالے سے قرار داد پاس کی ہے کہ معاملے میں صوبے کو بھی اعتماد میں لیا جائے۔ مطالبہ برحق ہے۔ اقتصادی تعاون کے معاہدے بہت اہم ہیں لیکن زیادہ اہم سٹریٹجک تعاون ہے جس سے ایران خاص طور پر خائف ہے کیونکہ اس تعاون کے دو پہلو بتائے جاتے ہیں۔ ایک تو اتنا خفیہ نہیں اور وہ ہے سعودی عرب کا دفاع اور دوسرا اس مفروضے پر مبنی ہے کہ یہ تعاون ایران کے چاہ بہار کی تعمیر میں رکاوٹ بن جائے گا۔ سعودی دفاع والا معاملہ کوئی نیا نہیں‘ 1982ء ہی میں ہوئے دفاعی تعاون کے معاہدے کی پیشرفت ہے۔1982ء کا معاہدہ دس برس بعد کچھ اور توسیع پا کر نئے معاہدے کی شکل اختیار کر گیا تھا۔ ان معاہدوں کے تحت سعودی عرب کی سلامتی کو خطرہ ہونے کی صورت میں پاکستان کردار ادا کرے گا۔ اب نئی بات یہ ہوئی ہے کہ معاملے میں یمن کا قضیہ شامل ہو گیا ہے۔ سوڈان ‘ جیبوتی‘ امارات کے ساتھ پاکستان بھی صف میں نمایاں ہو گیا ہے۔ ایران کا خوف بجا‘ اعتراض بے جا ہے اس لیے کہ یمن سعودی عرب کا ہمسایہ ملک ہے اور صدیوں سے اس کے عرب (نجد و حجاز) سے بہت قریبی‘ تاریخی ‘ جغرافیائی ‘ لسانی ‘ ثقافتی اور مذہبی تعلقات قائم ہیں۔ ایران کی اس کے معاملے میں مداخلت بالکل ویسی ہے جیسی یہ کہ پاکستان اگر برما میں فوج بھیج دے۔ لسانی‘ جغرافیائی‘ تاریخی ‘ ثقافتی کسی بھی اعتبار سے ایران اور یمن میں کوئی قدر مشترک نہیں ہے۔ یمن میں ایک اقلیتی قبائلی گروہ اگر سعودی عرب کی سلامتی کے لئے خطرہ بنتا ہے تو پاکستان کو معاہدوں کی رو سے سعودیہ کا ساتھ دینا ہی پڑے گا۔ چاہ بہار بندر گاہ کی تعمیر پاکستان کو اعتراض ہو ہی نہیں سکتا۔ اعتراض اس بات پر ہے کہ بھارت اسے پاکستان کے خلاف اپنے افغان ایڈوانچر میں استعمال کرے گا۔ اس اعتراض کے باوجود پاکستان چاہ بہار کو سبوتاژ کرنے کی کوئی سوچ نہیں رکھتا گوادر سی پیک کا حصہ ہے جو چین اپنی ضرورت کے لئے بنا رہا ہے۔ ایران چاہے تو چین سے شکوہ کر سکتا ہے۔ ٭٭٭٭٭ سعودی عرب سے پاکستان کی دوستی کی حقیقی شروعات1970ء کی دہائی میں ہوئی اس سے پہلے ایوب خان کے دس سالہ دور میں ایران و انڈونیشیا کے سوا کوئی بھی مسلمان ملک پاکستان کا دوست نہیں تھا۔ ایوب خان کی ترجیحات میں مسلم ملک تھے ہی نہیں۔ ان کا ایشو سیٹو سینٹو تھے یعنی مغربی مفادات کے لئے بننے والے فوجی اتحاد۔1971ء میں پاکستان دو ٹکڑے ہو گیا اور ذوالفقار علی بھٹو صاحب کی حکومت باقی ماندہ ملک میں بنی۔ ان کی ترجیحات اسلامی ملک تھے۔ یوں کہہ لیجیے کہ پہلی ترجیح اور دوسری ترجیح غیر مسلم ترقی پذیر ملک۔1974ء میں انہوں نے اسلامی سربراہی کانفرنس منعقد کی اور شاہ فیصل اور کرنل قذافی جیسے حریف گلے ملوا دیے۔ بنگلہ دیش کے شیخ مجیب الرحمن کو بلوا کر انہوں نے پاکستان بنگلہ دیش دوستی کی بنیاد رکھنا چاہی لیکن امریکی لابی نے اگلے برس انہیں قتل کرا دیا اور اس دوستی کا راستہ روک دیا اور اسی برس شاہ فیصل بھی شہید کر دیے گئے۔ ایک عظیم دور کو شروع ہونے سے پہلے ہی قصہ ماضی بنا دیا گیا خود بھٹو بھی اسی کوشش کی پاداش میں موت کے گھاٹ اتار دیے گئے۔ بہرحال پاک سعودیہ دوستی کو گزند نہیں پہنچا اور ضیاء الحق کے دور میں یہ مزید گہری ہو گئی۔ دنیا کے کسی بھی ملک کی دوستی غیر متنازعہ نہیں ہوتی۔ ملک کے اندر بہت سے حلقے چین سے دوستی کے بھی کھلم کھلا ناقد ہیں لیکن پاکستان اور سعودیہ کی دوستی واحد ایسا باب تھی جو کبھی اور کسی دور میں متنازعہ نہیں رہا۔ حکومت مسلم لیگ ن کی ہو‘ پیپلز پارٹی کی ہو یا فوجی آمر ہو‘ اس دوستی پر کسی نے اعتراض کیا نہ سوال اٹھایا۔ یہ متفق علیہ ہی رہی۔ لیکن پہلی بار 2013ء کے الیکشن کے بعد اسے متنازعہ بنانے کی کوشش کی گئی۔ اس سے ملنے والی امداد کو مشتبہ بتایا۔ اور کبھی کھلے ڈلے تو کبھی ڈھکے چھپے انداز میں اس دوستی کو ہدف بنایا۔ یمن جنگ کے معاملے میں سیاستدانوں کا لہجہ جارحانہ تھا تو کچھ پارٹیوں کے دوسرے لیڈروں کا جارحانہ سے بھی بڑھ کر۔ سوشل میڈیا پر تو ایسی باتیں بھی کی گئیں جو اخبار میں چھاپی ہی نہیں جا سکتیں۔ قومی اسمبلی میں جو قرار داد پاس کی گئی اس میں توہین آمیز پیرا شامل کر کے نوازشریف نے سخت غلطی کی۔ اور اس غلطی کا خمیازہ بھی انہیں بھگتنا پڑا۔ تاریخ کا الٹ پھیر دیکھیے‘ اب موجودہ حکومت سے بڑھ کر سعودی عرب کا کوئی وکیل نظر نہیں آتا۔خوب بات یہ ہے کہ سجدہ سہو خوب ادا ہوا۔ ٭٭٭٭٭ سعودی عرب اور پاکستان کا تعاون اور بھی بامعنی ہو جائے اگر ترکی اور قطر سے سعودیہ کے اختلاف دور ہو جائیں۔ ایک تو یہ دونوں موخر الذکر ملک پاکستان کے بھی دوست ہیں‘ دوسرے یہ کہ یہ دونوں ماضی قریب میں سعودیہ کے بھی دوست رہے ہیں۔فی الحال یہ بات دور ازکار نظر آتی ہے لیکن ہو جائے تو مشرق وسطیٰ اور مشرق قریب میں بھارتی بالادستی کا خواب بنا کوئی ہتھوڑا چلا کے چور چور ہو جائے گا۔ کیا پتہ۔ کسی مرحلے پر‘ کسی مناسب موڑ پر ایسا ہو بھی جائے۔ بظاہر امکان کم ہے لیکن موجود ہے۔