آل پاکستان ایمپلائز گرینڈ آرگنائزیشن کے زیر اہتمام وفاقی و صوبائی سرکاری ملازمین کے اپنے مطالبات کے حق میں کئے گئے مظاہرے کے بعد حکومت اور مظاہرین کے درمیان تنخواۃوں میں اضافہ کے سلسلہ میں مذاکرات کامیاب ہو گئے ہیں۔سرکاری ملازمین نے تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ لے کر وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں مظاہرہ کیا۔ جس پر وفاقی کابینہ نے گریڈ ایک سے لے کر گریڈ16تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں 40فیصد اضافے کا اعلان کیا، تاہم سرکاری ملازمین نے اپنے مطالبات میں اضافہ کرتے ہوئے گریڈ 17سے 22تک کے ملازمین کی تنخواہوں میں بھی اضافے کا مطالبہ کر دیا، جس کے باعث احتجاج میں شدت آئی اور مظاہرین نے پولیس پر پتھرائو شروع کر دیا،جوابی کارروائی میں پولیس نے بے دریغ آنسو گیس کا استعمال کیا، جس کے باعث نہ صرف وہاں کے رہائشیوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑا بلکہ مظاہرین کو بھی سانس لینے میں دقت پیش آئی۔ درحقیقت جس دن سے پی ڈی ایم کی قیادت نے سرکاری ملازمین کے احتجاج کی حمایت کا اعلان کیا، اس دن سے خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ سیاسی جماعتیں سرکاری ملازمین کے احتجاج کو ہائی جیک کر لیں گی۔ گزشتہ روز وہی ہوا جس کا خدشہ تھا کیونکہ جب سرکاری ملازمین اور حکومت کے مابین مذاکرات کامیاب ہو گئے تھے اور وفاقی کابینہ نے باقاعدہ طور پر اس کی منظوری بھی دے دی تھی، اس کے بعد گریڈ 17سے 22کے افسران کی تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ لے کر ریڈ زون میں گھسنا سمجھ سے بالاتر ہے جبکہ گریڈ 17سے 22تک کے افسران اس احتجاج میں شامل بھی نہیں تھے۔ اسلام آباد میں موجود کسی بھی گریڈ 21یا 22کے افسرنے اس پرتشدد مظاہرے میں شرکت نہیں کی۔پی ڈی ایم نے اس مظاہرے کی حمایت بھی کی تھی اور مظاہرین کو افسران بالا کی بھی حمایت حاصل تھی ۔وفاقی وزیر داخلہ شیخ رشید مظاہرین کو متنبہ کیا تھاکہ اگر مظاہرین کو سیاسی جماعتوں کی پشت پناہی ہو گی تو اس سے سرکاری ملازمین کوہی نقصان ہو گا، یہ سوچ حقائق پر مبنی ہے کہ انتظامی معاملات تبھی بہتر انداز میں آگے بڑھ سکتے ہیں جب انہیں سیاست سے جدا رکھا جائے۔ ا دھر ایپکا کے مرکزی صدر نے دو ٹوک الفاظ میں کہا تھا کہ اگیگا کے رہنما تمام سرکاری ملازمین کو ہائی جیک کر رہے ہیں، جس کا ان کے پاس مینڈیٹ نہیں۔ یہی وجہ تھی کہ سرکاری ملازمین کی تنظیم اپیکا اس احتجاج میں شامل نہیں ہوئی۔ سرکاری ملازمین کی یونیئنزمیں اتحاد ہو سکتا ہے، جب ان کا احتجاج سیاسی پشت پناہی سے مبرا ہو۔ وفاقی حکومت کے پاس صوبائی ملازمین کی تنخواہوں میں اضافے کا اختیار نہیں، اس لئے سرکاری ملازمین جو صوبائی حکومتوں کے زیر انتظا م اداروں میں کام کرتے ہیں ،انہیں صوبائی حکومتوں سے مطالبہ کرنا چاہیے تھا تاکہ ان کے مسائل حل ہوں۔ سرکار سے لڑائی مول لینا اور سرکاری امور سرانجام دینے سے انکار کرنا مسائل حل نہیں ۔ مسائل کے حل کے لئے حکومت سے بات چیت کرنی چاہیے تاکہ سرکاری امور نمٹانے میں کسی قسم کا تعطل نہ آئے۔ اس سلسلے میں آل پاکستان ایمپلائز گرینڈ آرگنائزیشن کی قیادت میں اپنے موقف میں لچک پیدا کی جو خوش آئند ہے اسی کے باعث معاملات افہام و تفہیم سے حل ہو ئے ۔ ادھروفاقی حکومت نے گزشتہ بجٹ میں ملازمین کی تنخواہیں نہ بڑھا کر خود اپنے آپ کے لئے مشکلات پیدا کی ہیں۔ اگر تب اضافہ کر دیا جاتا تو آج سرکاری ملازمین کے پاس مظاہرے او دھرنے کا جواز نہ ہوتا، حکمران جماعت نے مشیر خزانہ کی بریفنگ پر جو فیصلہ کیا تھا آج اس کے نتائج بھگت رہی ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نہ صرف سرکاری ملازمین بلکہ عام مزدور کی تنخواہ بڑھانے کے بارے خود فیصلہ کریں۔ مہنگائی کے تناسب سے تنخواہوں میں اضافہ کرنا چاہیے لیکن اگر حالات اس کی اجازت نہیں دیتے تو یونینز کے ساتھ بیٹھ کر بات چیت کی جا سکتی ہے۔ اگر اب بات ہو سکتی ہے تو قبل از وقت بیٹھ کر اس مسئلے کا حل بھی نکالا جا سکتا تھا۔ بڑے افسران خود تو مظاہرے میں شریک نہیں لیکن ان کی آشیر باد مظاہرین کو ضرور حاصل تھی ،جس بنا پر مظاہرے میں شدت آئی ۔ وزیر اعظم عمران خان مشکل وقت میں وکٹ پر جم کرکھیلنے کے ساتھ ساتھ اپنی پوری ٹیم کو متحرک کریں تاکہ وہ خلق خدا کو ریلیف پہنچانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگائے،اس وقت مہنگائی بہت حد تک بڑھ چکی ہے غریب آدمی کا موجودہ تنخواہ میں گزر بسر نہیں ہو سکتا ،حکومت یا تو مہنگائی پر قابو پاکر عوام کو ریلیف فراہم کرے ،یا پھر مہنگائی کے تناسب سے ہی ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا جائے ، عام مزدور کی دیہاڑی وہی پرانی ہے ،ڈیلی ویجز ملازمین کی تنخواہ بھی پرانی ہے ،حکومت ا س بارے میںبھی کوئی فیصلہ کرے ،تاکہ حکومت کو کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہ کرنا پڑے ،معاشی حالات بڑے گھمبیر ہو چکے ہیں ۔ایسے حالات میں مشکل فیصلے کرکے ہی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔حکومت نے جس طرح سرکاری ملازمین کے ساتھ احسن انداز میں معاملات کو پایہ تکمیل تک پہنچایا ہے ،اگر یہ سلسلہ پہلے کر لیا جاتا تو سرکاری ملازمین کو احتجاج کی ضرورت پیش آتی نہ ہی وفاقی دارلحکومت میں رہنے والے لوگوں کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ،اس لیے حکومت سستی کرنے یا پھر سر کے اوپر سے پانی گزر جانے کے بعد ہوش میں آنے کی بجائے ،قبل ازوقت انتظام کرے تو یہ حکومت کے حق میں بھی بہتر ہے اور عوام کو بھی کسی قسم کی پریشان کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا ۔