سری لنکا میں عالمی سیاست کی شطرنج چل رہی ہے۔ کولمبو پر امریکی دباؤ بڑھتا جارہا ہے کہ وہ چین کے ساتھ اپنے تعلقات میں کمی لائے اور اپنی سرزمین پر امریکی فوجی اڈّے بنانے کی اجازت دے۔سری لنکا کی موجودہ حکومت امریکی مطالبات ماننے سے گریزاں ہے۔دوسری طرف‘ چین اور روس کوشش کررہے ہیں کہ بحر ِہند کے تجارتی راستے پر واقع یہ چھوٹا سا لیکن اہم ملک امریکہ کے تسلط سے بچا رہے۔ گزشتہ دنوں امریکہ نے سری لنکا کے آرمی چیف لیفٹیننٹ جنرل شوندر سلوا اور ان کے قریبی اہل خانہ پر پابندی عائد کردی کہ وہ امریکہ میں داخل نہیں ہوسکتے۔ ظاہر ہے کہ کسی ملک کے فوجی سربراہ پر ایسی ممانعت عائد کرنااس ملک کے لیے خاصی توہین آمیز بات ہے۔ امریکہ نے بہانہ یہ بنایا کہ جنرل سلوا نے فوجی کمانڈر کی حیثیت سے تاملوں کے خلاف عسکری کارروائی کے دوران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا ارتکاب کیا تھا اوروہ تامل باغیوں کے ماورائے عدالت قتل میں ملوث تھے۔ امریکی وزیر خارجہ مائک پومپیو نے اس معاملہ کو اتنی اہمیت دی کہ بذات ِخود ٹویٹ کرکے اس پابندی کا اعلان کیا۔امریکہ کا یہ وطیرہ ہے کہ جب بھی کوئی ملک اس کے کسی بڑے مطالبہ کو ماننے سے انکار کردے تووہ اس پر جمہوریت نہ ہونے یاانسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگا کر پابندیاں عائد کرنا شروع کردیتا ہے۔ حالانکہ مشرق ِوسطیٰ میں متعدد ایسے ممالک ہیں جہاں نہ جمہوریت ہے نہ انسانی حقوق کی پابندی لیکن امریکہ کے اُن سے گہرے دوستانہ تعلقات ہیں کیونکہ وہ امریکہ کی ہر بات مانتے ہیں۔ واشنگٹن کاسری لنکا کے آرمی چیف پر پابندی لگانے کاحالیہ اقدام ان کوششوں کی ایک کڑی ہے جو وہ اس چھوٹے سے لیکن ایک جغرافیائی طور پر اہم ملک کو دباؤ میں لانے کے لیے کررہا ہے ۔گزشتہ چند برسوں سے واشنگٹن کاکولمبو کی حکومت سے مطالبہ ہے کہ وہ اس سے ایک معاہدہ پر دستخط کرے جس کے تحت امریکہ کو سری لنکا کی سرزمین پر عملی طور پر فوجی اڈّے بنانے کی اجازت ہوگی ‘امریکی عملہ بلا روک ٹوک‘ ویزا کے بغیر اس ملک میں آجا سکے گا‘ امریکہ کے بحری‘ فضائی جہاز اس سرزمین کواجازت کے بغیر استعمال کرسکیں گے‘ سری لنکا کی سیکیورٹی فورسز امریکی عملہ کا معائنہ نہیں کرسکیں گی خواہ وہ امریکی ہوں یا اس کے مقامی ملازمین۔ اس معاہدہ کے تحت امریکہ کے ہر ملازم کو سری لنکا میںسفارتی عملہ ایسی مراعات حاصل ہونگی۔کولمبو کی حکومت اس مجوزہ دستاویز پر دستخط کرنے کو تیار نہیں‘ اِسے اپنے ملک کی خود مختاری کے خلاف سمجھتی ہے ۔ ایک بڑے جزیرہ پر رہنے والے تقریباً سوا دو کروڑ افراد پر مشتمل سری لنکا بحرِ ہند کا ایک اہم ملک ہے۔ دنیا کا دو تہائی تیل اور دیگر تجارتی سامان کا نصف بحری جہازوں کے ذریعے اس کے قریب سے گزرتا ہے۔اہم بات یہ ہے کہ بحر ہند اور بحر اوقیانوس آپس میں جڑے ہوئے ہیں ۔ مشرق بعید اور چین سے یورپ اور افریقہ آنے جانے والا سامان ان سمندروں سے گزرتا ہے۔دنیا پر اپنا غلبہ قائم رکھنے کی خاطرامریکہ کے لیے ضروری ہے کہ بحری تجارتی راستوںپر اسکی تھانیداری قائم رہے۔وہ جب چاہے کسی ملک کی تجارت بندکرسکے۔بحر ہند میں ہی ڈیگو گارشیا کے جزیرہ پر امریکہ کے فوجی اڈّے موجود ہیں۔ انہی اڈّوں سے افغانستان اور عراق جنگ میں امریکی جنگی جہاز اُڑان بھرتے تھے۔ انہی اڈّوں کو جنوبی بحیرۂ چین (ساؤتھ چائنا سی) کی نگرانی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ تاہم حال ہی میں عالمی عدالت ِانصاف اس جزیرہ پر امریکی قبضہ کو غیر قانونی قرار دے چکی ہے ۔عدالت یہ فیصلہ سنا چکی ہے کہ امریکہ یہ جزیرہ ماریشس کے حوالے کردے۔اب امریکہ کو ان کا بہترین متبادل سری لنکا نظر آتا ہے۔ وہ سری لنکا کو اپنے بحری اور فضائی جنگی جہازوں کے قیام اور انٹیلی جنس کارروائیوں کے مستقل ٹھکانہ کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔دوسری طرف‘ روس بھی سری لنکا سے تعلقات کو اہمیت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ روس کے وزیر خارجہ لاوروف نے گزشتہ ماہ جنوری میںسری لنکا کا دورہ کیا۔روسی حکومت سری لنکا کو کوجدید ہتھیار اور اسلحہ فراہم کرتی ہے۔ امریکہ کی ایک تشویش یہ بھی ہے کہ گزشتہ ایک دہائی میںسری لنکا کی چین سے قربت بڑھ گئی ہے۔ چین نے سری لنکا میں بھاری سرمایہ کاری کی اور ڈیڑھ ارب ڈالر کے قرض میں رعایت دینے کے عوض سری لنکا کی گہرے پانیوںکی ایک اہم بندرگاہ ــہمبن توتا(ہم بَن توتا) کو نناوے سال کے لیے کرائے پر حاصل کرلیا ہے تاکہ وہ بحر ہند میں اپنے تجارتی اور طویل مدتی مفادات کا تحفظ کرسکے۔ چین کولمبو میں سمندر خشک کرکے ایک نیا ساحلی شہربھی آباد کررہا ہے۔ امریکہ چین سے سری لنکا کے معاہدوں کا سخت مخالف ہے۔ سری لنکا کی ایک بندرگاہ میں چین کی مستقل موجودگی خطہ میں امریکی غلبہ کے لیے ایک چیلنج ہے۔واشنگٹن سری لنکا میں چین کی سرمایہ کاری سے اتنا ناخوش تھا کہ اس نے دو ہزار چودہ میں بھارت اور برطانیہ کی مدد سے اس ملک میں خفیہ کارروائیاں کروائیں‘ چین کے دوست سمجھے جانے والے سری لنکا کے صدر مہندا پاکسے کی حکومت گروائی اور جنوری دو ہزار پندرہ کے انتخابات کے ذریعے امریکہ کے دوست سیاستدان میتھری پالا سِری سناکی حکومت بنوائی۔ تاہم گزشتہ سال د و ہزار انیس میں امریکہ نواز صدر کو شکست ہوگئی اور ایک بار پھر چین سے بہتر تعلقات رکھنے والی پارٹی کے گوتابیا راجاپاکسے صدر منتخب ہوگئے۔نئے صدر سے تعلقات استوار کرنے اور ان کو امریکی مطالبات سے آگاہ کرنے کے لیے امریکہ کی نائب وزیر خارجہ ایلس ویلزنے وسط جنوری میں کولمبو کا دورہ کیا اور سری لنکا کے صدر راجاپاکسا کے نام امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا خط ان کے حوالہ کیا۔ لگتا ہے کہ ایلس ویلز اپنے مشن میں کامیاب نہیں ہوئیں ‘ سری لنکاکی حکومت نے امریکہ کو مثبت جواب نہیں دیا ۔ اسی لیے ان کے دورہ کے فوراًبعد امریکہ نے سری لنکا کے آرمی چیف پر اپنے ملک میں داخلہ پر پابندی عائد کرکے اپنی ناراضگی کا اظہار کردیا۔