سری نگر نے برف کی چادراوڑھ لی ، برف باری سے وادی کے قدرتی حسن کو چارچند لگ جاتے ہیں، برف کے ڈھکے درختوںسے جھک جانے سے ایسا لگ رہاہے کہ شجرات الارض رب الکریم کے سامنے سجدہ ریزہوچکے ہیںجبکہ کشمیر کے تاج میں نگینہ قرار دی جانے والی دل جھیل بھی سردی کی شدت کے باعث کئی مقامات پر منجمد ہوچکی ہے۔ وادی کشمیر میں طویل خشک سالی کے بعد برفباری نے امیدوں کو ایک نئی جِلا بخشی ہے، کیونکہ مسلسل خشک موسم کے سبب وادی میں خشک سالی کا سلسلہ ٹوٹ جانے سے آلودہ ہوائیں بھی صاف ہونے کی امید پیدا ہوئی ہے اور ظاہرہے کہ صحت عامہ کے حوالے سے لوگوں کی مشکلات میں کمی واقع ہوگی۔ لیکن قابض بھارتی فوج کی بربریت لگاتارجاری ہے جواہل وادی کے لئے بدستور سوہان روح بنی ہوئی ہے ۔ اس کی رنگارنگ وادیوں اوردل فضا ٹھنڈی ہوائوں میں سانس لینے سے مردہ رگوں میں جان آجاتی ہے اس کے صحت افزا مقامات کی سیر سے مریض تندرست ہو جاتے ہیں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اس سے بہتر روئے زمین پر کوئی مقام ہی نہیں اس کے ارد گرد پہرے دار پہاڑ سبز وادی میں ملبوس کھڑے ہیں ۔کشمیر ان کے بیچ میں گویا پتھر کی انگو ٹھی میں زمرد کا نگینہ جڑا ہوا ہے ۔یہ خطہ بلا شبہ دنیا کا حسین ترین خطہ ہے پہاڑوںمیں چھپے ایک کثیررنگ خود رو پھول کی طرح ۔ جس کی نوک پلک صرف موسم نے سنواری ۔ یہ قدرتی طورپرسج دھج کے رونق افروز ہیں۔ بلاشبہ کشمیری کی خوبصورتی ،زیبائش اوردلکش مناظر برف کے نزول سے ہی منسلک ہے۔ چپے چپے پہ آبشار ،ہر طرف سایہ دار درخت ،عمدہ اور لذیذ پھل کے ڈھیر پڑے ہیں کیا کوہستان اور کیا میدان غرض تمام خطہ سدا بہار گلزار ،کوسوں تک سبزہ ہی سبزہ زار ہیں پھر سبزہ بھی ایسا گویا اس پر سفید موتی بکھرے پڑے ہیں زمین ایسی مخمل جیسی کہ اس پر سوئے رہنے کو جی چاہتا ہے پھر کیا مجال کہ کپڑوں پہ داغ لگ جائے ۔ایک ایسا خطہ ہے جو قدرتی مناظروں سے مالا مال ہے جسے زمین پر جنت کا ٹکڑا کہا جاتا ہے۔ اس کی ایک جھلک پانے کے لئے پوری دنیا کے لوگ بے تاب اور بے قرار رہتے ہیں ۔ جن لوگوں نے کشمیر کی سیر وسیاحت کی ہے یا جن لوگوں نے اپنی آنکھوں سے کشمیر کے حالات دیکھے ہیں اسے متاثر ہوئے بغیر ہوئے نہ رہ سکتے۔ کشمیر کو کشیر بھی کہتے ہیں اور کشور بھی کہا گیا ہے مورخیں کا خیال ہے کہ کشمیر کے چاروں طرف پہاڑ ہی پہاڑ اور پانی ہی پانی تھا اور یہ ستی سر کے نام سے مشہور تھا۔ پھر ہزاروں سال پہلے اس کے شمال میں کچھ چٹانین کھسکیں ،کچھ مٹی کے تودے گرے اور پہاڑوں میں شگاف پیدا ہونے کے سبب قدرتی طورپر پانی کی نکاسی ہوئی اور پانی بہہ نکلا کہیں جہلم سے ملا تو کہیں چناب سے ،کہیں راوی سے تو کہیں ستلج اور کہیں ولر کی شکل اختیار کی اور کشمیر کے خطے میں خشک زمین وجود میں آگئی اور یہ خطہ انسانی زندگی کے لیے ساز گار ہو گیا ۔ کشمیر جس کا مقدر ابتدا سے ہی ظلم و جبر رہا ہے لیکن ہر ظلم و جبر کے اندر سے ہی آخر کار احتجاج اور بغاوت کی چنگاریاں بھی پھوٹتی رہی ہیں ۔ 1931ء سے لے کر1947ء تک کشمیر کی عوامی تحریک نہ صرف برصغیر میں بلکہ عالمی سطح پر بھی تسلیم کر لی گئی۔انگریزوں اور ڈوگرہ عہد میں کشمیر میں جو صورتحال پیدا ہوگئی تھی اس کی عکاسی کی جائے تو پوری صورتحال پردئہ فلم کی طرح آنکھوں کے سامنے گھوم جاتی ہے۔چنانچہ بھارت کے ایک آزادملک بن کرابھرنے سے کشمیرایک بہت بڑے انسانی سانحہ کاشکارہوا، انسانیت سوزواقعات سے لبریزاس سانحہ کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے والوں اور اس کے نتائج کو سہنے والوں کی آنکھوں کا دھواں سالہا سال تک گردو پیش کو دھند لاتا رہے گا ۔تقسیم برصغیرسے ہندو پاک دونوں ممالک میں یک گو نہ اطمنان کی لہر دوڑادی مگر اس بد نصیب ریاست جموں و کشمیر کی تاریکی دور نہ ہو سکی،پہلے ڈوگرہ استبدادمیں گری پڑی تھی اور اب بھارتی استبدادنے اسے چہارطرف گھیرے رکھا ہے۔ اس اتبدادکی شروعات عین ایسے موقع پرہوئی کہ جب کشمیر میں ڈوگرہ استبدادی دورکا خاتمہ عین قریب تھا لیکن اس کے ساتھ ہی نئے استبداد اور مظالم کا زمانہ شروع ہوا۔ بھارت نے انگریزسے آزادی حاصل کرنے کے بعد جوسب سے پہلاکام کیاوہ کشمیریوں کوبالجبرغلام بنیایاجاناتھا۔اس طرح کشمیر کے عوام نے صدیوں کی کے بعد جو آزادی کا خواب دیکھا تھا وہ محض ایک خواب ہی ر ہا۔جس کے نتیجے یہاں کے خواص و عوام دونوں طبقے کے انسان نفسیاتی طور پر بے بسی کا شکار ہوگئے۔ یہ وہی کشمیر ہے جو کبھی جنت ارضی کے نام سے جاناجاتا تھا لیکن بھارتی استبدادکے نتیجے میں اب اسی کشمیرمیں خون خرابا،فتنہ فساد،مار دھاڑ،قتل وغارت،آتش زنیاں،عصمت دریاںاور افرا تفری ہر جگہ پائی جاتی ہے۔ گو کہ جس جنت کی فضائیں روحانی مہک سے معطر رہتی تھیں اسی جنت میں گولیوں اور دھماکوں کی گن گرج سنائی دینے لگی۔ ہر طرف چیخ وپکار،تباہی،افراتفری،سڑکین سنسان ،گلی کوچے سرخ اور بربادی کا سلسلہ پھیلتا چلا گیا۔ انسانی خون جہلم کے پانی کی طرح بہنے لگا۔ہر کسی کے لئے ہر نیا دن ایک نیا جنم لے کر آتا ہے صبح کو گھر سے نکل کر شام کو صحیح سلامت واپس گھر پہنچنے کی امید کم ہی ہوتی ہے ۔پوری وادی عملی طور پر ایک میدان جنگ میں تبدیل ہو گئی ہے۔بھارتی قابض فوج کی جانب سے گھروں پر چھاپے، گرفتاریاں، کریک ڈاون،کرفیو،ٹارچر اور بم دھماکے روز کا معمول بن گیا۔یہ سب کچھ ہونے کے باوجود بھی لوگ اپنے ارادوں پہ اٹل، کسی بھی طرح کی قربانی دینے سے پیچھے نہیں ہٹتے بلکہ بندوقوں، گولیوں، توپوں کے سایے تلے اپنی زندگی کے تلخ اورمشکل ترین روزوشب گزاررہے ہیں۔