گزشتہ دنوں چین میں سعودی عرب اور ایران کے مابین ایک معاہدہ ہوا ہے۔جس کے تحت دونوں ملک ایک دوسرے کے خلاف اقدامات میں حصہ نہیں لیں گے اور اس کے علاوہ آپس میں اقتصادی تعلقات میں بحالی بھی ہو گی۔ 2016ء میں جب سعودی عرب نے ایک شیعہ لیڈر کو پھانسی دی تو تہران میں سعودی عرب کے سفارت خانہ پر حملہ ہو گیا تھا اور اس وقت سے دونوں ملکوں کے درمیاں تعلقات کافی کشیدہ تھے۔ 2019ء میں سعودی عرب کی آئل ریفائنری پر حملہ ہوا اور اور اس کے تیل کی نصف پیداوار متاثر ہوئی سعودیہ نے حملے کا الزام ایران پر لگایا تھا۔ ایران نے ان الزامات کی تردید کی۔ یمن کے ہوثی باغیوں نے اس حملہ کی ذمی داری قبول کر لی تھی۔ سات سال کے بعد ایران اور سعودیہ کے تعلقات میں بہتری آئی ہے اس کا اثر پورے خطہ پر پڑ سکتا ہے۔ عراق، شام ، لبنان اور یمن میں ایران اور سعودی عرب پراکسی وار میں مصروف ہیں۔ اب دیکھنا ہوگا کہ کہ اس معاہدہ کے اثرات ان ملکوں میں جاری خانہ جنگی پر کیا ہونگے۔ اب یمن میں ہوثی باغیوں کا کیا مستقبل ہو گا۔ اس معاہدہ سے سب سے زیادہ تکلیف اسرائیل کو ہوئی ہے اسرائیل ایران کے خلاف ایک محاذ بنانے کی کوشش میں تھا۔اس سلسلہ میں اسرائیل اور سعودیہ کے تعلقات میں کافی بہتری آچکی تھی۔ اب ایران اور سعودیہ کے تعلقات نارمل ہونے کی صورت میں اسرائیل کی کاوشوں کو کافی جھٹکا لگا ہے۔ اسرائیل کے وزیر اعظم نے اس معاملے کا کافی سنگین قرار دیا ہے۔ امریکہ کی مشرق وسطیٰ میں بالا دستی کو بھی کافی نقصان پہنچا ہے۔ امریکہ پہلی بار کسی بڑی پیش رفت میں حصہ دار نہیں ہے۔ چین کا قد کاٹھ بطور عالمی طاقت بہت بڑھا ہے۔ چین نے پہلی بار اس خطہ کے دو متحارب ممالک کو مذاکرات کی میز پر بٹھایا ہے اور بطور ضامن کا فی معاملات کو درست کیا ہے۔چین کی تیل کی درآمدات کا چالیس فی صد ان دو ممالک سے پورا ہوتا ہے۔ اس طرح چین ان دو ممالک کا بہت بڑا تجارتی حلیف ہے اور اب اس نے اپنے اثر ورسوخ کو استعمال کیا ہے ،گزشتہ سال کے آخر میں چین کے صدر نے سعودیہ کا دورہ کیا تھا جہاں پر سعودی ولی عہد پرنس محمد بن سلمان کے ساتھ چینی صدر کی ملاقات نے عالمی سیاست کو کافی حد تک بدل دیاتھا۔ اب چین پاکستان ، افغانستان، ایران اور سعودی عرب کے ساتھ اپنے سیاسی اور تجارتی تعلقات کو کافی بہتر بنا رہا ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد پرنس محمد بن سلمان نے سعودی عرب کی خارجہ پالیسی کا رخ کافی بدل دیا ہے۔ اب سعودیہ نے ترکی، اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنایا ہے۔ پاکستان اور سعودیہ کے تعلقات اس وقت کافی سرد مہری کا شکار ہوئے جب پاکستان نے یمن اور سعودیہ کی جنگ میں غیر جانبدار رہنے کا فیصلہ کیا۔سعودی عرب کا انحصار پہلے امریکہ اور پاکستان پر تھا۔ اب وہ خطہ کے دوسرے ممالک کے ساتھ بھی اچھے تعلقات بنا رہاہے۔ماضی میں جس بھی مسلمان حکمران نے امریکہ کے خلا ف جانے کی کوشش کی اس کو اپنے اقتدار سے ہاتھ دھونا پڑے اب دیکھتے ہیں محمد بن سلمان کیسے بچ پاتے ہیں۔ورنہ، شاہ فیصل، ذو الفقار علی بھٹو، صدر صدام، کرنل قدافی اور حالیہ دنوں میں عمران خان سب کا ایک ہی حشر ہوا ہے۔ ایران اور سعودیہ کے تعلقات میں بہتری کے اثرات پاکستان پر کافی زیادہ ہو سکتے ہیں۔ پاکستان نے ایران سے 2009 ء میں ایران سے گیس لینے کا معاہدہ کیا تھا۔ جو بعد میں امریکہ کے دباؤ کے باعث کھٹائی میں پڑگیا۔ اب ایران نے پاکستان کو کہا ہے یا تو وہ 2024ء تک پائپ لائن کو مکمل کرے ورنہ 18 ارب ڈالر کا ہرجانہ ادا کرے۔اب پاکستان میں ایک تو داخلی استحکام پیدا ہو سکتا ہے۔ایران اور سعودی عرب پاکستان میں مختلف گروپس کو سپورٹ کرتے ہیں جن کی بنا پر یہاں مختلف قسم کے مسائل ابھرتے ہیں۔ اس وقت پاکستان داخلی مسائل کا شکار ہے۔ سیاسی عدم استحکام نے ملک کی معیشیت کو مکمل طو ر پر تباہ کر دیا ہے۔پاکستان کے اکابرین صورتحال کی سنجیدگی کو نہیں سمجھ سکے۔ اس وقت کچھ لوگ عمران خان کو سیاست سے غائب کرنے کی کاوش میں ہیں۔ یہ لوگ اس بات کو نہیں سمجھ سکے۔ کہ بھٹو پھانسی چڑھ کے بھی سیاست سے نہیں مٹ سکا۔ اسی طرح بے نظیر بھٹو قتل ہو گئی مگر ان کی جماعت کسی نہ کسی طرح وفاق میں تیسری بار حکومت میں شامل ہے۔ مشرقی پاکستان میں مجیب الرحمان کو قتل کر دیا گیا اور اسکی بیٹی آج بھی اقتدار میں ہے۔ کوئی کسی کو ختم نہیں کر سکتا صرف انسان خود اپنے زوال کا باعث بنتا ہے۔ عمران خان کو حکومت کرنے دو۔ اگر وہ عوام کی امید پر پورا نہیں اترے گا عوام خود اس کو مسترد کر دیں گے۔اس وقت عمران خان پر سو کے قریب مقدمات ہیں اور ان مقدمات میں جان نہیں ہے۔ بھٹو نے ایک وقت میں چوہدری ظہور الہی پر بھینس چوری کا مقدمہ درج کرویا تھا۔ توشہ خانہ میں سب لوگ ننگے ہو چکے ہیں کوئی بھی اس قابل نہیں ہے کہ وہ دوسرے پر انگلی اٹھا سکے۔ اس وقت پاکستان کے عوام موروثی سیاست کو مسترد کر چکے ہیں۔ اب باپ کے بعد بیٹا اور باپ کے بعد بیٹی کا دور نہیں ہے جو نوجوان سیاست دان اب آگے آرہے ہیں۔وہ ایک نیا باب ہے۔ اب جو الیکشن ہو نگے انکی مثال 1970 ء کے الیکشن کی جیسی ہوگی۔ عوام اس وقت مہنگائی کے ہاتھوں کس حد تک تنگ ہے ان کو چور چور کی راگنی سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ عوام کا مسئلہ اس وقت دو وقت کی روٹی، بجلی کا بل ہے۔ بچوں کی فیس اور بیمار کی دوائی بھی بہت پیچھے رہ گئی ہے۔ ہماری اشرافیہ آج بھی 1777ء کے انقلاب فرانس سے پہلے کے دور میں رہ رہی ہے۔ واجد علی شاہ کی شاعری لکھنو کو نہیں بچا سکی تھی۔اشرافیہ کے سوٹ اور ٹائیاں اب عوام کو زہر لگتی ہیں۔