وطن عزیز کے حالات 76 برسوں میں ایسے بُرے اور مشکل کبھی بھی نہیںتھے ۔جیسے ا ٓج کل ہیں۔ ماسوائے اشرافیہ کے اِس ملک میں ہر آدمی مشکل میں ہے عوام کا خون چوسنے والے ڈریکولا نما رہنما ئوں کو کوئی پروا نہیں ہے کہ قوم کا صبر اب جواب دے چکا ہے ۔جس مملکت خداداد کو حاصل کرنے کے لیے قوم نے لازوال قربانیاں دی تھیں اس کا یہ صلہ مل رہا ہے۔ کہ مفت آٹا کے حصول کے لیے لوگ اپنی جانیں دے رہے ہیں۔ ابھی گزشتہ روز ملتان میں ایک بزرگ شہری آٹا لینے کے لیے ایک طویل قطار میں کھڑے کھڑے گر پڑے اور پھر جان کی بازی ہا ر گئے ۔ ابتک مفت آٹا کے حصول کے لیے پانچ افراد وفات پا چکے ہیں ۔ یہ خون حکمرانوں کے سر ہے۔ قیامت کے روز جب یہ قوم کا خون چوسنے والے حکمران اللہ تعالیٰ کے سامنے پیش کئے جائیں گے ۔تو یہ بزرگ شہری اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی غربت اور بے بسی کا ذکر کریں گے آخر قوم کے ساتھ یہ بھیانک مذاق کب بند ہو گا۔ فرد واحد کی حکمرانی کب ختم ہو گی ہماری آج کی زندگی غلامی سے بھی بد تر ہے۔ حکمرانوں کی غلط پالیسوں کی وجہ سے آج ہر شخص پریشان ہے یہ لوگ اپنی مراعات کسی صورت کم نہیں کرتے اور سارا بوجھ غریب پر ڈال رہے ہیں۔ حکمرانوں کے پروٹوکول اور شاہ خرچیاں پھر ہماری بیورو کریسی کی مراعات عدلیہ کی مراعات کسی بھی ضلع کا ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کا پروٹوکول اِن کی حفاظت کے لیے پولیس کی ڈیوٹیاں کمشنر اور آر پی او کے ساتھ پروٹوکول کی تین تین گاڑیاں اُن پر تیل کا خرچہ اور پھر اِن اعلیٰ افسران کی پانچ پانچ ایکڑ کی کوٹھیاں اور اُن میں نوکروں کی بھر مار ایک ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کی کوٹھی پر کم از کم دس سے پندرہ لوگ ڈیوتی دیتے ہیں ۔اسی طرح دیگر بڑے ا علیٰ اداروں کے اعلیٰ افسران کہ جن کی مراعات کا ذکر کرنے سے ’’فرد جرم ‘‘عائد ہونے کا خطرہ ہے اور جن اداروں کے آڈٹ تک نہیں ہوتے اُن کا ذکر کس طرح سے ہو سکتا ہے اِس وقت ملک کے معاشی حالات انتہائی ابتر ہو چکے ہیں۔ لیکن کسی بھی حکمران سے لے کر وزیر، مشیر اور اعلیٰ افسران نے نہ تو اپنے پروٹوکول میں کمی کی ہے اورنہ ہی اپنی عیاشیوں میں عوام کی طرح یہ بھی ذرا لائن میں لگ کر آٹا لیں تو پتہ چلے گا کہ زندگی کتنی مشکل ہو چکی ہے ۔یہ ڈرامہ بازی زیادہ عرصہ نہیں چل سکتی ۔اپنی عیاشیوں کی خاطر قوم پر تیل بم گرایا گیا ہے جو پانچ روپے فی لیٹر کم ہوئے تھے اب دوبارہ اضافہ کر دیا گیا ہے ۔پوری قوم سے کھانے پینے کی چیزوں سے لے کر ہر چیز پر ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے اور ٹیکس کی رقم یہ حکمران صرف اور صرف اپنے آپ پر خرچ کر رہے ہیں ۔وزیر اعظم میاں شہباز شریف کو قوم کا اگر درد ہے تو سینکڑوں کینال میں بنایا گئے وزیر اعظم ہاؤس میں رہنا ترک کر دیں۔ایک انسان کے لیے ا تنا بڑا محل اور پھر اُس وزیر اعظم ہاؤس کا سالانہ کروڑوں روپے کا خرچہ۔ میاں شہباز شریف یا اُن سے قبل جتنے بھی وزیر اعظم آئے وہ اپنی جیب سے ادا کرتے ہیں ؟ ہرگز نہیں وزیر اعظم ہاؤس سے لے کر صدر ہاؤس اور آرمی ہاؤس تک اِن سب محالات کی سیکورٹی اور اَن گنت اخراجات کو عوام ہی کے خون پسینہ سے پورا کیا جاتا ہے کسی بھی غریب ملک میں حکمرانوں پر اتنے زیادہ اخراجات نہیں کئے جاتے جتنے اخراجات ہمارے ملک کے حکمران اور اعلیٰ افسران اپنے اُوپر کرتے ہیں۔ چونکہ اِن حکمرانوں کو اعلیٰ افسران سے کام لینا ہوتے ہیں اپنی عیاشیوں کی خاطر بیورو کریسی اور پولیس کے ذریعے ٹیکس وصول کرنے ہوتے ہیں۔ اس لیے اِن افسران کو حکمرانوں نے مکمل فری ہینڈ دیا ہوتا ہے اِس وقت ہمارے ملک کی بیورو کریسی کمشنر ، آ ر پی او ، ڈی سی او ، ڈی پی او اور سیکرٹری حضرات اعلیٰ ترین مراعات حاصل کر ر ہے ہیں ۔ملک کے انتہائی ابتر حالات کے باوجود بھی کسی اعلیٰ افسر نے یہ اعلان نہیں کیا کہ مجھے اتنی زیادہ مراعات کی ضرورت نہیں ہے یا پھر اتنی بڑی کوٹھی نوکر اور پروٹوکول نہیں چاہیے ۔اِن افسران کی پروٹوکول گاڑیوں پر ہر ماہ کروڑوں روپے کا تیل جلایا جاتا ہے۔ اِسی طرح میڈیکل اور دیگر مراعات بھی اِن کو فری ملتی ہیں اگر یہ اعلیٰ افسران اور اِن کے بچے بیمار ہو جائیں تو ہسپتال کا ایم ایس اُس وقت ایل پی (لوکل پر چیز ) کے نام پر اِن کے لیے مفت ادویات کا بندوبست کر دیتا ہے جبکہ غریب جو دن رات محنت مزدوری کر کے اِس ملک کی اشرافیہ کے لیے ٹیکس دے رہا ہے اُن کے لیے فری ادویات کے دروازے بندہیں ۔اب رمضان المبارک شروع ہو چکا ہے مہنگائی اپنے پورے عروج پر ہے مفت آٹا کے نام پر لوگوں کو سارا سارا دن ذلیل کیا جا رہا ہے ۔ لوگ ایک دس کلو آٹا کے تھیلہ کے لیے سارا سارا دن قطاروں میں کھڑے بے ہوش ہو رہے اور مر رہے ہیں وزیر اعظم اور وزیر خزانہ کی غلط پالیسوں نے عوام کو برباد کر رکے رکھ دیا ہے۔ غریبوں اور سفید پوش طبقے کو بھکاری بنادیا گیا ہے حضرت عمرؓ تو فرمایا کرتے تھے کہ میرے دور حکومت میں اگر دریائے فرات کے کنارے کتا بھی پیاسا مر گیا ۔تو قیامت کے روز اللہ تعالیٰ کو جواب دینا پڑے گا ۔اتنی بڑی شان اور عظمت والے صحابی اللہ تعالیٰ کے خوف سے یہ کہہ رہے ہیں اور دوسری طرف شہباز شریف جیسے حکمران کے دور میں لوگ بھوکے مر رہے ہیں اور اُسے پروا تک ہی نہیں ہے اور نہ ہی اللہ تعالیٰ کے سامنے جواب دینے کا خوف ہے۔ حکمرانوں اور اعلیٰ اداروں کے اعلیٰ افسران اب بھی وقت ہے کہ اِس قوم پر رحم کرو اور عوام کے خون پسینے سے حاصل ہونے والی رقوم سے اپنی مراعات ختم کر دو اور اپنے اربوں ڈالر فوراً اپنے ملک میں لے آؤ تا کہ ملک کی معاشی حالت بہتر ہو سکے اور ملک میں خوشحالی کا آغاز ہو سکے ۔