مکرمی !ایک وقت تھاکہ صرف پاکستان ٹیلی ویژن دیکھنے کوملتاتھاپھرپرائیویٹ چینل آئے تونیوز وغیرہ دیکھنے میں تیزی آ گئی مگرپھرفیس بک نے ایک انقلاب پیدا کر دیا ، بعد ازاں تیز رفتار انٹرنیٹ کی آمد سے الیکٹرانک میڈیا کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا کومتعارف کروا دی گیا۔ ہم اپنا پیغام وہ بھی ویڈیومیں دنیا کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک بآسانی سیکنڈوں میں پہنچا سکتے ہیں گویا کہ دنیا ایک گلوبل ولیج بن گئی ہے۔ سوشل میڈیا کے بہت سے فوائد ہیں۔ ہر شخص کو اظہار رائے کی مکمل آزادی ٔ مگر یہ آزادی مشروط ہے ۔ دنیا بھر میں انہی شرائط اور اصولوں کے ساتھ سوشل میڈیا کا استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کیا جائے تو یہ ایک نعمت ہے اس کے بہت سے فوائد ہیں جیسے کہ تعلیم حاصل کرنا آج کل کے دور میں بہت آسان ہو گیا ہے مثلاً یوٹیوب کے ذریعے معلوماتی ویڈیوز دیکھ کر ہم اپنی معلومات میں بے پناہ اضافہ کر سکتے ہیں جو شخص بھی جس قسم کی معلومات حاصل کرنا چاہتا ہے اس تک اس کی پہنچ بہت آسان ہو گئی ہے فیس بک، انسٹا گرام، ٹک ٹاک، سنیک ویڈیو، ٹیوٹر، لائکی، بیگو، سنیپ چیٹ، لنکڈان وغیرہ کے ذریعے ہم اپنی اوراپنے کاروبار سیاسی پارٹیوں، سکولز کالجز، وغیرہ کی باآسانی تشہیر کر سکتے ہیں۔اس حوالے سے نوجوانو کے بنائے ہوئے گلوبل یوتھ پاور کا ایک پہلا آن لائن اجلاس ہوا جس میں گلوبل یوتھ پاور کے تمام شعبوں کے انچارج اور دیگر ممبران نے شرکت کی اجلاس میںبانی و چیف ایگزیکٹو عمر اشفاق، لائبہ الیاس مہمان خصوصی اور میزبان طوبیٰ رشید نے اجلاس سے خطاب کرتے ہو ئے کہا کہ دور جدید سے جب سے ہمارا واسطہ پڑا ہے، ہمارا سارا نظام ِ عالم سمٹ کر ایک مٹھی میں آ چکا ہے۔ اس جدید دور کی ایک کڑی انٹرنیٹ ہے جس نے پاس والوں کو تو قریب کیا ہی ہے، اب سات سمندر پار والے بھی قریب ہو چکے ہیں۔ صرف ایک کلک کا فاصلہ ہے جو ہم پلک جھپکتے عبور کر لیتے ہیں۔ سماجی ویب سائٹس نے دنیا کو اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے ۔ ان ویب سائٹس کا گھیرا اتنا لچکدار ہو گیا ہے کہ اس میں نوجوان تو نوجوان بوڑھے بھی اس کے گرویدہ ہوچکے ہیں۔اور یہ ویب سائٹس سوشل میڈیا، فیس بُک، انسٹاگرام، اور واٹس ایپ تک محدود نہیں رہیں، اس جدیدیت کی ایک نئی کڑی ٹک ٹاک بھی ہے۔ فیس بُک نے ہمیں جس مقام پہ لا کر کھڑا کیا ہے اس سے کوئی بھی نظریں نہیں چرا سکتا ۔ فوائد اتنے نہیں جتنے نقصانات ہیں۔ جسے گنتے ہوئے بھی خوف آتا ہے۔ اس نے گھروں کے گھر اجاڑ کے رکھ دئیے ہیں لیکن ہماری نوجوان نسل کو چاہئے کہ وہ سوشل میڈیا کا استعمال سماجی تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے کرے اور اسے صرف مثبت مقاصد کے حصول کے لئے کام میں لائے ۔ جدت پسندی میں اتنا آگے نہ جایا جائے کہ واپسی کا راستہ اور بیچارگی کے سوا ہمارے پاس کچھ باقی نہ رہے۔ (رخسانہ اسد،لاہور)