شدت پسندی کا ہر ممکن اظہار ، رواداری کا فقدان اور اعلی اخلاقی اقدار سے دوری ایک بڑا سماجی مسئلہ بن کر سامنے آرہا ہے ۔لاہور کے اچھرہ بازار میں جس طرح ایک خاتون کو بدترین انداز میں ہراساں کیا گیا یہ اس حوالے سے تازہ ترین واقعہ ہے۔ جس شخص نے لوگوں کو اکسایا اس کا ایک انٹرویو دیکھا اور مجھے حیرت تھی کہ اسے یہ تماشا لگانے اور عورت کو ہراساں کرنے پر رتی برابر شرمندگی نہیں۔ اس شخص کو دیکھ کر اندازہ ہوا کہ متاثرہ خاتون سے ویڈیو میں جو معافی منگوائی گئی تھی اس کے پیچھے کون سے حساس محرکات تھے۔دہشت گردی کی شکار خاتون سے معافی منگوانا ایک طرح سے لوگوں میں غم و غصہ پیدا کر گیا ۔ لیکن اس کا جواب اے ایس پی شہربانو نے یہ دیا کہ اس وقت موقع کی نزاکت کا تقاضا یہی تھا کہ اس خاتون سے یہ الفاظ کہلوائے جاتے تاکہ بپھرے ہوئے لوگ کو ٹھنڈا کیا جاسکتا اور لانگ ٹرم میں خاتون کی جان کی حفاظت کو یقینی بنایا جاسکتا۔ دہشت گردی کا شکار ہونے والی متاثرہ خاتون سے معافی منگوا کر معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی حکمت عملی اس حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے کہ مذہب کو بدنام کرتی یہ انتہا پسندی ہمارے معاشرے میں۔ کتنا بڑا حساس مسئلہ ہے کہ خود قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی ایسے انتہا پسندوں سے ڈرتے ہیں۔ شدت پسندی اور انتہا پسند رویے ہمارے آس پاس بھی لوگوں میں نظر آتے ہیں اس کا ایک عکس آپ کو سوشل میڈیا پر بھی نظر آئے گا جہاں لوگ سیاسی حریفوں کے لتے لیتے اور ان کو لفظوں کے گھونسے مارتے نظر آتے ہیں۔ ایسے تمام لوگ شدت پسندی سے بھرے ہوں گے۔ جو دوسروں کے نقطہ نظر کو سنے ہی بغیر رد کردیں ایسے لوگ دوسروں پر ہر صورت اپنا نقطہ نظر تھوپنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی زندگی میں مکالمے کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی کیونکہ ان کے نزدیک مکالمہ صرف اور صرف انہیں اپنی بات سنانے کا حق دیتا ہے مکالمے میں بات سننے والا بھی بولنے کا حق رکھتا ہے۔ جسے ایک شدت پسند کبھی تسلیم نہیں کرتا۔سو جو لوگ عدم برداشت رکھتے ہیں وہ کبھی مکالمے پہ یقین نہیں رکھتے۔ایسے لوگ خود کو عقل کل سمجھتے ہیں۔وہ اپنے نقطہ نظر کو دنیا کی آخری سچائی سمجھ کر اس پر ڈٹ جاتے ہیں۔ ایسے لوگ اپنے تعلقاتِ میں دوسروں پر ہمیشہ حاوی رہنے کی کوشش کرتے ہیں ایسے لوگوں کے گھر والے بھی ان کی سخت گیر طبیعت اور شدت پسند نقطہ نظر سے تنگ رہتے ہیں۔ میاں بیوی کے تعلق میں اگر شوہر اس مزاج کا ہو تو سمجھ لیں وہ بیوی بچوں کا جینا حرام کیے رکھتا ہے کیونکہ وہ اپنا نقطہ نظر ہر صورت میں ان پر ٹھونسنا چاہتا ہے اور بیوی اس مزاج کی ہو تو شوہر کے ساتھ بچوں کی زندگی بھی جہنم بنادے گی ۔ مجھے دو واقعات یاد آرہے ہیں۔ ایک واقعہ لاہور کی ایک مارکیٹ کا ہے ہم لوگ گاڑی میں بیٹھے تھے میں نے دیکھا کہ ایک شخص اپنی بیوی کے ساتھ جھگڑتا ہوا آرہا ہے۔ وہ ایک موٹر بائیک کے پاس کھڑے ہو کر اونچی اونچی بول رہا تھا جبکہ بیوی اسے سمجھانے کے لیے لجاجت بھرے لہجے میں کچھ کہہ رہی تھی۔ وہ اپنی بیوی کو دھمکی دے رہا ہے کہ تمھیں یہیں بازار میں چھوڑ جاؤں گا ۔ آس پاس کے لوگوں سے بے خبر دونوں لڑ رہے تھے بیوی مسلسل منت ترلہ کر رہی تھی جبکہ شوہر نے ماتھے پر آنکھیں رکھی ہوئی تھی اور مجھے یہی لگ رہا تھا کہ یہ شخص بطور سزا اپنے بیوی کو بازار میں اکیلا چھوڑ کر چلا جائے گا ۔ تب اس کی اذیت پسند طبیعت کو سکون ملے گا۔آپ یقین کریں کہ یہ منظر دیکھ کر میں گھبرا گئی ۔ میں نے کبھی ایسا دیکھا نہیں تھا کہ ایک شخص جو لوگوں کی موجودگی میں اتنا سخت گیر اور شدت پسند ہے وہ اپنے گھر میں کس طرح کا شوہر ہوگا اس تصور سے ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایک اور واقعہ بھی مجھے ایک شاپنگ مال کا ہی یاد آتا ہے اور یہ واقعات شاید میں نے کالم میں پہلے بھی کہیں لکھے تھے۔شاپنگ مال میں کپڑوں کی سیکشن میں ایک فیملی شاپنگ کر رہی تھی ان کے ساتھ ،دس گیارہ سال کی ایک بچی بھی تھی۔ بچی نے اپنی پسند کی کوئی چیز خریدنے کا اظہار کیا یا ماں باپ کی پسند کی ہوئی چیز کو رد کیا باپ نے آو دیکھا نہ تاؤ اور اپنی بیٹی کو زناٹے دار تھپڑ جڑ دیا۔ شاپنگ مال میں آس پاس کھڑے ہوئے لوگ بھی سراسیمہ رہ گئے۔میری نگاہ اس کی بیوی کے چہرے پر گئی جو شرمندگی اور غصے سے پگھل رہی تھی۔ اس کا بس نہیں چل رہا تھا کہ جواباً ایک تھپڑ شوہر نامدار۔کو بھی جڑدے کہ پورے شاپنگ مال میں اس کی وجہ سے انہیں کتنی خفت اٹھانی پڑی۔ پھر یہی خیال آیا ہے کہ یہ غصیلا اور شدت پسند شخص بازار میں اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پا رہا تو گھر میں کتنا خوفناک باپ اور شوہر ہوگا۔ سچی بات ہے میرا جی چاہا کہ اس شخص کو سناؤں کہ تمہیں شرم نہیں آتی کہ تم نے اپنی بیٹی کو پوری دنیا کے سامنے تھپڑ دے مارا ہے اور تمہیں اندازہ ہے کہ تم نے اپنی بیٹی کی روح پہ کس قدر خراشیں ڈال دی ہیں۔ پوری زندگی بھی تم اس کے لاڈ اٹھاتے رہو گے تو اس لمحے کو اس کے ذہن سے نہیں کھرچ سکتے۔ یہ دونوں مثالیں عام زندگی میں انتہا پسند رویے کی کی عکاس ہیں۔آپ سوچیے کہ جو بچے ایسے ماحول میں پرورش پاتے ہیں۔ ان کے اندر بھی تشدد اور اذیت پسندی کا زہر اترتا رہتا ہے اور موقع ملنے پر وہ بھی اسی اذیت پسندی سے دوسروں کی زندگیاں اجیرن کرتے ہیں۔ لاہور اچھرہ میں ہونے والا یہ خوفناک واقعہ خطرے کی گھنٹی بجا رہا ہے کہ سماج آتش فشاں کے دہانے پر موجود ہے۔ پہلے تو اس حقیقت کو تسلیم کرلیں پھر اس آتش فشاں کو ٹھنڈا کرنے کی کوئی سبیل کریں والدین ،تعلیمی ادارے ،میڈیا ، کالم نگار،سیاست دان ، منبر اور محراب پر بیٹھے ہوئے علماء اپنا کردار ادا کریں تاکہ کیکٹس میں بدلتا ہوا سماج رواداری میانہ روی اور نرم خوئی کوئی سیکھ سکے۔ ٭٭٭٭