پچھلے سال فروری سے مقتدر ادارے کہہ رہے ہیں کہ انہوں نے سیاست سے دور رہنے کا حتمی اور اٹل فیصلہ کر لیا ہے لیکن کسی نے کان نہیں دھرا۔ نہ سیاسی پارٹیوں نے اور نہ ہی "چیف تیرے جانثار "کے فلک شگاف نعرے لگانے والے کاروباری اور سماجی گروہوں نے۔ سب سے زیادہ بے یقینی کی کیفیت تحریک انصاف پر چھائی ہے جس نے اپنی حکومت کے خلاف رچائی سازش کو ناکام نہ کیے جانے پر احتجاجاً قومی اسمبلی سے ہی استعفیٰ دے ڈالا اور اب وہ صوبائی اسمبلیوں کو بھی خیر باد کہنے جارہی ہے۔ پاکستان جمہوری تحریک کی درجن بھر پارٹیوں نے حکمران پارٹی کا کیمپ لوٹ کر اپنی عددی اکثریت بنائی اور انکی قیادت اپنے اوپر دس سالہ کرپشن کے الزامات سمیت ایوان اقتدار میں بیٹھ گئی۔ عمران خان قومی مفاد کی دہائیاں دیتے رہے لیکن ادارے ٹس سے مس نہ ہوئے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ اس قوم سے شکوہ کرتے ہوئے رخصت ہوئے ہیںکہ افواجِ پاکستان کے سیاست سے دور رہنے کے فیصلے، جس کا کہ موروثی پارٹیاں دھوم دھڑکے سے مطالبہ کرتی آرہی تھیں، ملک کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی نے نہ صرف قدر نہیں کی بلکہ الٹا اسکی غیر جانبداری کاکھلے عام مذاق اڑا یا ہے۔ اقوام متحدہ کی پچھلے سال شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی اشرافیہ ( کارپوریٹ سیکٹر، جاگیردار، سیاسی اور کاروباری طبقے) کو دی گئی مراعات 15.7ارب ڈالر، یا ملک کی معیشت کا تقریباً 6 فیصد ہیں۔ کارپوریٹ سیکٹر مراعات ( ٹیکس چھوٹ، سستے خام مال ،سرمائے ، زمین اور خدمات) اور مہنگی پیداوار کی مد میں چار اعشاریہ سات ارب ڈالر لیتا ہے۔ مراعات کے دوسرے اور تیسرے نمبر پر سب سے زیادہ وصول کنندگان ملک کے امیر ترین لوگ ہیں جو ملکی آبادی کا ایک فیصد ہیں اور ملک کی مجموعی آمدنی کے 9 فیصد کے مالک ہیں۔ جاگیردار ہیں جو آبادی کا 1.1 فیصد ہے لیکن تمام بائیس فیصد قابل کاشت زمین کے کے مالک ہیں۔ دونوں طبقوں کی پاکستانی پارلیمنٹ میں مضبوط نمائندگی ہے، زیادہ تر بڑی سیاسی جماعتوں کے امیدوار جاگیردار ، زمیندار طبقے یا ملک کی کاروباری ملکیت رکھنے والے اشرافیہ سے ہیں۔ مجموعی طور پر، 20 فیصد امیر ترین پاکستانی قومی آمدنی کا 49.6 فیصد رکھتے ہیں، جبکہ غریب ترین 20 فیصد، جن کے پاس صرف 7 فیصد ہے۔ مراعات کے اس کھیل میں عسکری اداروں کا حصہ (شہری ترقی اور صنعتی حوالے سے ) پونے دو ارب ڈالر ہے۔ اقوام متحدہ کے ترقیاتی ادارے کی اس رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ مراعات کا خاتمہ کرکے تعلیم اور صحت پر توجہ دی جائے۔ ایسا معاشرے میں میں انسانیت کی تکریم اور وقار کے لیے ضروری ہے جو اقوام متحدہ کے چارٹر کا بنیادی نقطہ اور ریاستوں کی رکنیت کے لیے بنیادی شرط ہے۔ سیاسی نظام کوئی بھی ہو اس سے فرق نہیں پڑتا ۔ برطانوی راج نے یہاں جاگیرداریاں برصغیر کی تاریخ میں پہلی دفعہ وراثتی کر دی تھیں اور خانقاہوں کو لنگر کے لیے ہبہ کیے گئے رقبے بھی۔ اس جاگیردار نسل کو محصولاتی اور مجسٹریسی اختیار بھی عنایت ہوئے تھے اور حق نمائندگی بھی۔ساٹھ فیصد کے لگ بھگ آبادی کے پاس ووٹ کا حق تو ہے لیکن بھوک اور بیماری سے ڈرے سہمے یہ لوگ اسکا آزادانہ استعمال ہی نہیں کر پاتے۔ سیاست اور جرم ساجھے داری میں یہ مہرے کے طور پر استعمال ہوتے ہیں۔ واعظ کے وعیدیں اور کوتوال کے کوڑے انہیں پر برستے ہیں۔ صرف ایک فیصد آبادی ہے جس کا کہ مارکیٹ پر بھی قبضہ ہے اور سیاست کی ڈوریں بھی اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ اوپر سے علاقائی تجارت کا ستیاناس ہے۔ ہمسائیہ ملک سے دشمنی ہے ، نہ سرمایہ آسکتا ہے ، نہ خام مال اور سستی اشیائے ضرورت۔ عوام کو باندھ کر مارنے والی بات۔ اتنی اونچ نیچ کے شکار معاشرے میں انصاف کہاں سے آیا ؟ جاگیردار گروپ کے پاس ثبوت مٹانے کا ہنر ہے تو سرمایہ دار جج ہی خرید لیتا ہے۔ اس ایک فیصد طبقے کو اب کہیں سے خطرہ نہیں۔ دو سیاسی پارٹیوں کی چپقلش پر شور اٹھا تو میثاق جمہوریت کرا دیا۔ جمہوریت کی ساکھ کی خاطر تیسری پارٹی پیدا کر لی۔ نیا کھیل یہ ہے کہ ایک سیاسی جتھے کی حکومت ہوگی تو دوسرا سڑکوں پر ہوگا۔ آخر کیا مسئلہ تھا کہ تحریک انصاف کو کہ پارلیمان میں بیٹھی رہتی اور معاشرے کے ان طبقات کی ہی نمائندگی کرلیتی جوبنیادی انسانی حقوق، مساوات اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کی بات کرتے ہیں اور جنہوں نے اس پارٹی کو اپنے کندھے پر اٹھایا۔ بہت سارا مسئلہ ٹیکس نظام کی اصلاح اور مقامی حکومتوں سے متعلق آئینی تقاضے پورے کرکے بھی حل کیا جاسکتا ہے۔ اب آپ صوبائی حکومتیں بھی چھوڑ رہے ہیں۔ قومی اور صوبائی انتخابات بھی ہو جائیں گے جو صرف امیر طبقے کو فائدہ دیتے ہیں۔ اگر آپ کو یقین ہے کہ آپکی واضح اکثریت سے واپس آئیں گے توجانے سے پہلے پنجاب اور آزاد کشمیر کو مقامی حکومتیں تو دے جائیں۔ سیاست میں عدم مداخلت کا نعرہ ویسے ہی ہے جیسے کہ مارکیٹ اور منڈی میں ریاست کا عمل دخل نہیں ہونا چاہیے تاکہ طلب اور رسد کے آفاقی قانون پر عمل پیرا ہوا جاسکے۔ مشرف دور سے یہ دوسری شرط بھی پوری ہے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ سرمایے کی ملک میں آمدو روفت پر کوئی پابندی نہیں ہے۔ سرمایہ آتا تو نہیں کہ یہاں لاقانونیت ہے، بڑے بڑے مافیا سرگرم ہیں، البتہ دھڑا دھڑ باہر ضرور جارہا ہے۔ ڈالر اوپر اور روپیہ بے قدر۔ اشیائے ضرورت کی اشیا لوگوں کی پہنچ سے ہی دور ہوچکی ہیں۔ ٹیکسوں کا بوجھ غریب طبقے پر ہے۔ قرض اتارنا ہے تو بھی اسی کی چمڑی ادھیڑی جائے۔ کیا ملک کو معاشی ، فکری اور معاشرتی بحران سے سے نکالنے کا اشرافیہ کے پاس کوئی قابل عمل ایجنڈا ہے۔ قانون کی عملداری اور احتساب کا کیا ہوگا؟ ڈھانچہ جاتی اور معاشی اصلاحات کا کیا ایجنڈا ہے؟ کیا پارلیمان اپنے اصلی کام، یعنی آئین سازی ، کرے گی اور انسانی ترقی کا کام مقام حکومتوں کے حوالے ہوگا؟ پارلیمان کی دیگر اداروں پر اجارہ داری قائم ہوگی؟ کیا اس سال کے شروع میں اعلان شدہ ، شہری حقوق پر مرتکز، قومی سلامتی پالیسی ، اسکے تقاضوں اور ادارہ جاتی اصلاحات پر سیر حاصل بحث ہوگی اور اسکا نفاذ کا کوئی لائحہ عمل سامنے آئیگا؟