لکھنا تو میں کسی اور موضوع پر چاہتا تھا مگر سراج درانی کے استفسار نے ہمیں کھینچ لیا کہ انہوں نے ایم کیو ایم کے عبدالرئوف صدیقی سے پوچھ لیا ’’کیا کبھی گدھے کا گوشت کھایا ہے‘‘ تفصیل میں دیکھا تو ان کے درمیان دلچسپ مکالمہ تھا۔ رئوف صدیقی نے اپنی بجٹ تقریر میں گدھوں کا تذکرہ چھیڑ دیا تو سپیکر آغا سراج درانی نے پوچھا، کیا آپ نے بھی گدھے کا گوشت کھایا ہے کیونکہ آپ نے بجٹ تقریر میں سب سے اہم بات یہ کی کہ گدھے بہت ہو چکے ہیں اور ہر طرح کا گدھا موجود ہے۔ رئوف صدیقی نے کہا کہ یہ درست نہیں کہ گدھے کی کھالیں وہ لے جائیں اور گوشت ہم کھائیں۔ رئوف صدیقی نے کہا کہ اس دفعہ آپ نے اور منظور وسان نے انہیں مشکل میں ڈال دیا۔ دیکھا جائے تو یہ مکالمہ ادب پارہ ہی تو ہے۔ معنی کا اک جہاں اس میں ہے۔ آپ اسے حقیقت نگاری کہیں یا افسانہ سازی۔ بات بڑی دلچسپ ہے۔ ہر طرح کا گدھا موجود ہونے میں کیا کیا حسن اظہار ہے۔ کھالوں کا ذکر بھی خوب کہ کراچی میں گن پوائنٹ پر کھالیں اکٹھی کی جاتی ہیں۔ مجھے غالب یاد آئے کہ ایک مرتبہ ان کے کسی مہمان نے ایک گدھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے غالب سے پوچھا ’’دلی میں گدھے بہت ہیں‘‘ غالب نے برجستہ کہا ’’باہر سے آ جاتے ہیں۔‘‘ دوسرا واقعہ تو آپ کو بھی ازبر ہو گا کہ غالب کو آم بہت پسند تھے کہ وہ کہا کرتے تھے آم میٹھے ہوں اور بہت زیادہ ہوں۔ میرا بیٹا اس بات پر کہنے لگا زیادہ چیز کھانے کو ویسے ہی دل نہیں چاہتا۔ لیکن واقعہ یہ کہ غالب دوستوں کی محفل میں آم چوس رہے تھے اور چھلکے پھینکتے جاتے تھے۔ قریب ہی ایک گدھے نے آم کے چھلکے کو منہ لگایا اور آگے کو ہولیا۔ کسی نے کہا غالب، دیکھو گدھے بھی آم نہیں کھاتے۔ غالب نے فرمایا جی گدھے آم نہیں کھاتے۔ گدھے کا تذکرہ سندھ اسمبلی میں چلا تو ہمیں یاد آیا کہ اس حوالے سے لاہور بھی بہت مشہورہوا تھا۔ گدھوں کی سینکڑوں کھالیں منڈی سے پکڑی گئی تھیں۔ گوشت تو بڑے بڑے ہوٹلوں کے بڑے بڑے لوگ ہضم کر گئے۔ شکر ہے کہ پتہ چل گیا وگرنہ تو قصائی گدھے کی نسل ختم کردیتے۔ آپ کو یاد ہے ناں جب کورین موٹروے کے لیے آئے تھے وہ پانچ صد روپے میں کیا خریدتے تھے۔ چنانچہ سب بے روزگار کتے مارنے نکل کھڑے ہوئے۔ کتا مارتے اور دم کاٹ کر کورین کو دیتے اور وہ جائے وقوعہ سے کتا اٹھا لاتے۔ نہ جانے ہم گدھے کا ذکر مذاق میں کیوں کرتے ہیں۔ امریکہ میں تو اسے بہت قدر سے دیکھا جاتا ہے کہ وہاں پارٹی نشان بھی ہے اور اسے Animal of Burden کہا جاتا ہے۔ وہ بے چارہ ساری عمر ہمارا بوجھ اٹھاتا ہے اور اسے ہم احمق اور بے وقوف سمجھتے ہیں بلکہ وہ حماقت کا استعارا ہے۔ ہم نے اس کے محاورے بنائے ہوئے ہیں۔ مثلاً گرا گدھے سے اور غصہ کمہار پر۔ نہ جانے اچانک میرے ذہن میں اس محاورے سے شہبازشریف کا بیان آ گیا کہ نوازشریف کا انٹرویو کروانے والا ان کا سب سے بڑا دشمن ہے۔ نہ جانے شہباز صاحب نوازشریف کا غصہ سرل المیڈا پر کیوں نکال رہے ہی۔ وہ یہ نہیں سوچتے کہ اس کو پورے پروٹوکول سے کس نے بلایا تھا۔ مزید براں یہ کہ اس نے تو وہ سوال ہی نہیں کیا جس کا جواب نوازشریف صاحب سوچے بیٹھے تھے۔ تیسری بات یہ کہ وہ اپنے بیانیے پر ڈٹے ہوئے ہیں۔ مجھے امیر نواز خان نیازی نے بتایا کہ مشرقی پاکستان میں ایک ڈیم کا کام تھا تو اس مقصد کے لیے مغربی پاکستان سے گدھوں کا پورا جہاز وہاں لے جایا گیا۔ دیکھئے ہم اپنے مقصد کے لیے گدھوں کو بھی جہازوں کی سہولت مہیا کردیتے ہیں۔ مجھے ایک اور دلچسپ واقعہ یاد آیا کہ ایک مرتبہ صبح کے وقت میں اسمبلی ہال کے قریب سے گزر رہا تھا تو کچھ گدھے نظر پڑے۔ گدھوں والا انہیں ان لوڈ کر رہا تھا۔ کہیں کوئی پٹاخہ چلا تو گدھے بدک گئے۔ کچھ پنجاب اسمبلی کی طرف دوڑ لگا گئے اور کچھ مال روڈ پر گورنر ہائوس کی طرف۔ ایک دو ثابت قدم مال روڈ پر ہی کھڑے ہو گئے اور ٹریفک رکنے لگی۔ سارجنٹ بھی منہ دوسری طرف کرکے ہنسنے لگا۔ معزز قارئین! آپ بھی سوچتے ہوں گے کہ میں نے پورا کالم ہی گدھے کی نذر کردیا ہے۔ اصل میں ہم نے سیکھا ہے کہ اپنے موضوع پر رہ کر ہی لکھنا چاہیے مگر کوئی گدھے پر آخر کتنا لکھ سکتا ہے۔ مزید یہی لکھ سکتے ہیں کہ گدھے کا بچہ بھی گدھا اور پھر اس کا بچہ بھی گدھا ہی ہوتا ہے۔ ویسے گدھے کو حقیر نہ جانیے کہ یہ پیغمبروں اور درویشوں کی سواری رہی ہے۔ اس کے پیچھے پیغمبروں اور فقیروں کا عجز ہے کہ اس پر بیٹھ کرتکبر نہیں آتا۔ شیخ سعدی کے بارے میں بھی یہی ہے کہ وہ گدھے پر سوار ہو کر جگہ جگہ جاتے اور پھر اپنے مشاہدات حکایات کی صورت میں لکھتے۔ لیبر کی عظمت تو اس کے پاس ہے۔ دیکھا جائے تو گدھا اسی کام کے لیے تخلیق ہوا۔ اگر اس کے پاس چوائس ہوتی تو وہ سیاستدان ہوتا یا کچھ اور۔ سیاستدان ہی تو بعض اوقات کوئی چوائس نہیں رکھتے۔ مجھے یاد ہے ایک مرتبہ غالباً منور ظریف نے ایک فلم بنائی تھی ’’انسان اور گدھا‘‘ بہرحال دونوں کا ایک ربط بہم تو ہے۔ بچپن میں ہماری دادی جان کہا کرتے ’’لگدا اے توں ساری عمر گدھے ای چارنے نیں۔‘‘ یعنی تم نے ساری عمر گدھے ہی چرانے ہیں۔ تاہم یہ بات محل نظر ہے کہ کہا گیا یہاں ہر طرح کا گدھا ہے۔ معلوم نہیں اس سے کیا مراد ہے۔ گدھا تو گدھا ہی ہوتا ہے یا پھر زیبرے کو آپ مختلف کہہ سکتے ہیں۔ گدھے کی گرڈیشن ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ شاید واقعی گدھوں کاسوشل سٹیٹس اور اس میں درجہ بندی ہو۔ ہوسکتا ہے ایک گدھا اور دوسرا بہت گدھا ہو۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کوئی عوامی گدھا ہو اور کوئی سرکاری گدھا۔ بہرحال یہ معصوم اور بے زبان مخلوق ہے جو خوشی کا اظہار ڈھیچوں ڈھیچوں کر کے کرتی ہے اور ناراضگی کا اظہار دولتی مار کر۔ اس کی آواز کو سب سے بری آواز کہا گیا ہے۔ اس کو ریڑھیوں میں جوتا جاتا ہے جس ننھے گدھے کو اس کے ساتھ جوت کرٹریننگ دی جاتی ہے اسے ’’پخ‘‘ کہا جاتا ہے۔ جو بھی ہے گدھا سندھ اسمبلی میں اپنے تذکرے پر خوش تو ہوگا کہ مجھ سے پہلے اس گلی میں میرے افسانے گئے۔ عبدالرئوف صاحب کی بجٹ تقریر گدھے کی وجہ سے یادگار اور تاریخی بن گئی۔ ویسے تو بجٹ جن کے لیے بنایا جاتا ہے انہیں بھی تو یہ حکمران انسان نہیں سمجھتے اور عوام بھی ان کی خرمستیاں سمجھتے ہیں۔ آپ گدھوں کو جو بھی کہیں مگر کسی گدھے پر غداری کا الزام نہیں لگتا اور نہ اس کے پاس شیطانی ذہن ہے کہ وطن کے خلاف سازش کرسکے۔ وہ تو اپنے کام سے کام رکھتا ہے۔ بوجھ اٹھاتا ہے اور سر جھکا کر چل پڑتا ہے۔ اس کی یہی بات اس کے مالک کو بہت پسند ہے۔