وزیراعلیٰ پنجاب سردار محمد عثمان بزدار کی ہدایت پر وزیر اطلاعات و ثقافت پنجاب فیاض اُلحسن چوہان نے لاہور میں 18 دسمبر 2018ء کو پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہُوئے اعلان کِیا کہ ’’ پنجاب میں بسنت پر پابندی ختم کردِی گئی ہے اور فروری 2019ء کے دوسرے ہفتے میں بسنت منائی جائے گی‘‘۔ اُنہوں نے کہا کہ ’’ بسنت سے پابندی اُٹھانا سِول سوسائٹی او ثقافتی حلقوں کا مطالبہ تھا، بسنت کا تہوار آخری بار 2009ء میں منایا گیا تھا ‘‘۔ اُدھر "Lahore Basant Festival" کے منتظم سیّد ذوالفقار علی شاہ نے کہا کہ ’’ حفاظتی اقدامات کے تحت بسنت کے موقع پر اُڑائے جانے والے پتنگوں (Kites) کے دو سائز مقرر کئے جائیں گے اور اُن کے لئے 8 پلائی دھاگا استعمال کِیا جائے گا اور نائیلون کی باریک ڈوری پر مانجھا لگانے کی پابندی کو یقینی بنایا جائے گا ‘‘۔ معزز قارئین!۔ سنسکرت زبان کے لفظ ’’ وَسنت‘‘ کو ہندی میں ’’ بسنت‘‘ کہا جاتا ہے اور بسنت ؔ کا مطلب فارسی اور اردو میں ہے بہارؔ۔ بسنت ؔکی طرح ساون ؔبھی موسمی تہوار ہے جو، متحدہ ہندوستان میں ہندو اور مسلمان اکٹھے مناتے تھے ۔دو قومی نظریہ کے علمبردار ، سر سیّد احمد خان نے ۔ موسمی تہوار۔ بسنتؔ کے خلاف بھی کوئی فتویٰ نہیں دِیا تھا۔ مولانا الطاف حسین حالیؔ نے ۔’’حیاتِ جاوید‘‘۔ کے عنوان سے سر سیّد احمد خان کی سوانح عُمری لِکھی اور اُس میں لِکھا کہ۔ ’’ جوانی میں سرسیّد احمد خان دوسرے مسلمانوں کی طرح بسنتؔ کے ہنگاموں میں شریک ہوتے رہے‘‘۔ مولانا الطاف حسین حالیؔ لِکھتے ہیں کہ۔’’ سر سیّد کا عُنفوانِ شباب ۔ زندہ دِل اور رنگیں صحبتوں میں گُزرا تھا۔ وہ راگ رنگ کی مجلسوں میں بھی شریک ہوتے تھے ۔(ہندوئوں کے تہوار ) ہولی ؔ کے جلسوں اور تماشوں میں جاتے تھے ۔ پھولوں کی سیر اور وہاں کی صحبتوں میں شریک ہوتے تھے ۔ دہلی میں بسنتؔ کے میلے جو موسمِ بہار میں درگاہوں میں ہوتے ، وہاں جاتے تھے ۔ خود اُن کے نانا ۔(خواجہ فرید اُلدّین احمدؒ) ۔ کی قبر پر بسنتؔ کا میلہ ہوتا تھا ۔ سرسیّد خُود اپنے بھائیوں کے ساتھ اُس کے منتظم و مہتمم ہوتے تھے‘‘۔ معزز قارئین!۔ موسم بہار کی آمد پر متحدہ ہندوستان کے کئی اولیائے کرامؒ اور درویشوں کے مزاروں پر بسنتؔ کا میلا صدیوں سے منایا جا رہا ہے۔ لاہور میں پنجابی کے نامور صُوفی شاعر شاہ حسینؔ ۔(1539ئ۔ 1560ئ) ۔ کے مزار پر منائے جانے والا بسنتؔ میلا ۔ اب ۔’’ میلا چراغاں‘‘ ۔کہلاتا ہے۔ کئی مسلمان شاعروں نے بسنتؔ کو اپنی ثقافت کا حِصّہ بنانے میں اہم کردار ادا کِیا ہے ۔ گذشتہ سال 10 نومبر 2017ء کے روزنامہ ’’92 نیوز‘‘ میں ، شاعر ،ادیب، دانشور ، اور کالم نویس برادرِ عزیز اشرف شریفنے اپنے کالم ۔’’شہر نامہ‘‘۔ میں قارئین کو جولائی ۔ اگست میں بیتے ساون ؔ کی یاد دلائی،تو ،مجھے اُن کے کالم کا یہ پیراخاصے کی چیز نظر آیا ۔ ’’ کالم نگار نے لکھا کہ ’’ہم موسموں سے لطف اُٹھانے کی صلاحیت کھو رہے ہیں۔ ہماری زندگی اِس طرز پر ڈھلتی جا رہی ہے کہ ہم مُفت میں ملنے والے بے حد و حساب پیار کا ہرروپ خریدنے پربضد ہیں، ساونؔ نظر آتا ہے تو، نظیرؔ اکبر آبادی کی برسات پر کہی گئی نظم، دہلی اور لکھنؤ کے رئیسوں کے وظیفہ خوار ، شاعروں اور پنجاب کے اُن درویشوں کے اشعار یاد آنے لگتے ہیں جو کسی نواب، جاگیر دار اور صاحب بہادر سے وظیفہ قبول کرنے کو تیار نہیں ہوئے۔ ساونؔ تو بلا امتیاز ہر زمین پر برستا ہے اور ہر زمین پر اثر بھی کرتا ہے۔ ساونؔ محض ایک موسم نہیں ساونؔ تو ،ایک روایت ہے ۔ یہ اِس دھرتی کے لوگوں کے مابین رِشتوں کا نام ہے ۔ یہ گرمی اور لُو کے جبر سے رہائی کی تحریک ہے، یہ ہماری دیسی محبتوں کی خُوشبو ہے جو ابھی تک کشید کر کے بازار میں فروخت نہیں کی جاسکی!‘‘ ۔ معزز قارئین!۔ مَیں اشرف شریف صاحب کا ،کالم پڑھاتو میرے ذہن میں ساونؔ کے کئی گیت گونج اُٹھے۔ اُستاد بڑے غلام علی خان کا گایا ہُوا یہ ماہِیا تو خاص طور پر … باغوں میں پڑے جُھولے تُم ہمیں بُھول گئے ہم تُم کو نہیں بُھولے …O… راوی کا کِنارہ ہو موسم کے ہونٹوں پر افسانہ ہمارا ہو … O… دُور گئے محبوب کے فراق میں گاتی ہُوئی ایک فلمی ہیروئن کا یہ گیت … ہائے ، ہائے ، یہ مجبوری یہ موسم اور یہ دُوری مجھے روز ، روز تڑپائے تیری دو ٹکیا کی نوکری میرا لاکھوں کا ساون جائے 1983ء سے لندن میں مقیم 1961ء میرے سرگودھوی دوست صحافی ، دانشور ، بزنس مین اور برطانوی لیبر پارٹی کے اہم رُکن سیّد علی جعفر زیدی نے بھی وہ کالم پڑھا اور مجھ سے فرمائش کی کہ ۔’’برادرمِ اثر چوہان!۔ ساونؔ تو بیت گیا کیوں نہ آپ بسنتؔ کی آمد سے پہلے ہی بسنتؔ پر کالم لکھ دیں اور مجھے سرگودھا میں ہمارے مشترکہ دوستوں کے ساتھ بسنتؔ منانے کی دعوت دیں؟‘‘۔ چنانچہ 15 نومبر 2017ء کو میرے کالم کا عنوان تھا ۔’’ساونؔ بیت گیا۔ بسنتؔ کی آمد آمد!!!‘‘ ۔ مَیں نے اپنے کالم میں اُستاد شاعر صُوفی مِیرن ؔسائیں کے یہ شعر بھی شامل کئے … حُوریں کنواری بسنت ؔلے آئو! علی ؑمرتضیٰ گھر ، دُھوم مچائو! عرش کے تارے توڑ ، کے سارے! اچھے نیکی ، پُھولوں ، منڈھا چُھوائو ! چاند ،سُورج ، کے چِیرے بندھا کر! حسن ؑ، حسین ؑ ، دو ،دو پہنائو ! مَیں آج کے کالم میں بسنت کے موقع پر پتنگ اُڑانے والوں کی ترجمانی کرتے ہُوئے تین ( مسلمان ) اساتذہ کے پُرجوش شعر شامل کر رہا ہُوں ۔ حضرت داغ ؔ دہلوی کہتے ہیں کہ … جلی جو شمع تو دم بھر نہ ،اُس کو تاب آئی! پتنگ تھا کہ پتنگا تھا ، اُڑ کے جل ہی گیا! …O… اُستاد حیدر علی آتش ؔ نے کہا کہ … اِس شوق سے بڑھا کہ ،شفق سے مِلا دِیا! جس دِن قریب ِ شام اُڑایا پتنگ ِ سُرخ! …O… بسنت کے موسم کو موسمِ بہار قرار دیتے ہُوئے حضرت مِیر تقی مِیر ؔنے کہا کہ … کرتا ہے باغ ِ دہر میں ، نیرنگیاں بسنت! آیا ہے لاکھ رنگ سے ،اب باغباں بسنت! یہ امر قابل ِ ذکر ہے کہ ’’ نااہل وزیراعظم میاں نواز شریف اور سابق صدر ِ پاکستان آصف زرداری اور اُن کے فرزند بلاول بھٹو زرداری ، خالصتاً ہندوانہ تہوار ۔ دیوالیؔ اور ہولیؔ کو منانے کا تو، کھلے دِل سے اعلان کرتے ہیں ‘‘۔ ہندو دیو مالا کے مطابق دیوالیؔ کا تہوار وِشنو دیوتا کے اوتار شری رام ؔ کے ، لنکا کے راجا راون کو قتل کر کے اور اپنی اہلیہ سِیتا جیؔ کو رہا کرا کے ایودھیا لانے کی یاد میں گھر گھر چراغاں کر کے منایا جاتا ہے اور ہولیؔ ایک۔ ’’ راکشسنی‘‘ ۔( چڑیل) ۔ کی یاد میں ۔ معزز قارئین!۔ دراصل پاک پنجاب میں بسنتؔ پر پابندی کی بڑی وجہ یہ تھی کہ ’’ بسنت کے موقع پر پتنگ اُڑانے کے لئے شیشے کے مانجھے سے سونتی گئی ڈور کے ذریعے کئی راہ چلتوں کے گلے کٹ جاتے تھے ، اِس پر میرا مؤقف ہے کہ ’’جب شادیوں پر فائرنگ سے کئی بے گناہ لوگ جاں بحق ہو جاتے ہیں تو ،کیا بیاہ ، شادیوں پر بھی پابندی لگا دِی جائے؟ ‘‘۔ اصل مسئلہ تو یہ ہے کہ ’’ بسنت کے موقع پر ایسی ڈور کا استعمال ممنوع قرار دِیا جائے جس سے بے گناہ لوگوں کے گلے کٹ جاتے ہُوں ‘‘۔ اگر حکومت ِ پنجاب اِس طرح کا انتظام کردے تو ، بسنت کے موقع پر پتنگ باؔزی بھی ہوسکتی ہے بصورتِ دیگر بسنت منانے والے لوگ کبوتر بازؔی کر تے ہُوئے بسنتؔ منائیں اور وہ لوگ جن کا یہ کہنا ہے کہ ’’ فضا میں اُڑنے والے پرندے ، سرحدوں کی پروا نہیں کرتے تو، کیوں نہ بسنت کے موقع پر کبوتر بازی کی جائے؟۔ اِس طرح ’’مودی نواز ‘‘ نااہل وزیراعظم محمد نواز شریف اپنے پالتو کبوتر کے ذریعے مودی جی کو اپنا کوئی ذاتی پیغام بھی بھجوا سکتے ہیں؟۔ حرفِ آخر کے طور پر کیوں نہ مَیں ایک پنجابی فلمی گیت کا یہ مُکھڑا (مطلع ) پیش کردوں جس میں پنجاب کی ایک الہڑ مٹیار ، اپنے ڈھول (محبوب) کو کبوتر کے ہاتھ اپنی چٹھی (خط) بھجوانے سے پہلے ربّ کا یوں واسطہ دیتی ہے کہ … واسطہ اِی ربّ دا ،تُوں جاوِیں وَے کبوترا! چٹھی میرے ڈھول نُوں پچاوِیں ، وَے کبوترا!