مسرت زہرا سری نگرکی فوٹو جرنلسٹ ہیں جومقبوضہ کشمیرسے متعلق حق گوئی اوربھارتی فوج کی بربریت کی اصل اورسچی تصویرکشی کی پاداش میںبھارتی عتاب کی شکار بنی ہیں اوراس کے خلاف یہ کہتے ہوئے کیس درج کیاجاچکاہے کہ انھوں نے سوشل میڈیاپر اپنی پوسٹس کے ذریعے کشمیری نوجوانوں کو بھارت کے خلاف مسلح جدوجہد میں شامل ہونے کے لئے اکسایا ۔واضح رہے کہ مسرت زہرا نے اپریل 2020ء کے وسط میںکشمیری خواتین میں نفسیاتی تنا ئوسے متعلق ایک سٹوری شیئرکردی جس کے لیے سری نگرسے ملحق گاندربل ضلع کی ایک خاتون کا انٹرویو کیا تھا جنھوں نے بتایا کہ ان کے شوہر کو بھارتی فوج نے ایک جعلی مقابلے میں شہیدکیا گیا ۔ مسرت نے اس سٹوری سے متعلق تصاویر بھی پوسٹ کی تھیں۔ مقبوضہ کشمیرمیں یہ کوئی انہونی بات نہیں کیونکہ یہاں کے باسی قابض بھارتی فوج کے ہاتھوں اپنے گردوپیش میں رونماہونے والے سانحات پرچاہئے زبان ،قلم یاتصاویرکے ذریعے آوازبلندکریں تو لا زماََبھارتی سفاک فوج کی بربریت کے شکاربن جاتے ہیں ۔ تاہم یو اے پی اے کے قانون کے تحت مسرت کے خلاف کارروائی کشمیری صحافیوں کے خلاف اپنی نویت کا پہلا واقعہ ہے۔ یہ کالا قانون گزشتہ برس بھارتی پارلیمان سے منظور ہوا تھا اور اس قانون کے تحت وادی کشمیر میں ہزاروں مسلمانوں کو بلالحاظ عمروجنس پابند سلاسل کیا گیا ہے۔ مسرت زہرا مقبوضہ کشمیرکی اس تیسری پیڑی سے ہیںکہ جس نے بھارتی جبروقہرمیں آنکھ کھولی اوربندوقوں کے سائے میں پلی بڑی ہے اورکشمیر ی مسلمانوں کی یہ پیڑی بے خوف ہے جسے سچ کہنے ،سچ لکھنے اورسچ کاساتھ دینے میں کوئی تامل نہیںہے۔تاریخ بزدلوں کی بزدلی اوربہادروں کی بہادری کے واقعات سے اٹی پڑی ہے ۔تاریخ میں ایسے لوگوں کاباب ہمیشہ آب زرسے لکھاگیاہے کہ جونہایت پامردی کے ساتھ ظالموں کے ہاتھوںمظلوموں پربیت جانے مظالم طشت از بام کرتے ہیںاورعشاق کے قافلے کے پرعزم سپاہی کی طرح کبھی کسی سستی کو اپنے مقصد کے آڑے آنے نہیں دیتے ۔ہرباضمیرصحافی قلم اورکیمرہ اٹھانے سے قبل خوف کواپنے پیکرخاکی سے کاٹ کرپھینک دیتاہے کیونکہ اس نے اپنے ضمیرسے عہد کرلیاہوتاہے کہ وہ قطعاََگونگاشیطان نہیں بنے گا۔وہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ ،ظالم کو ظالم اور مظلوم کو مظلوم ہی لکھے گا۔حق میں باطل اور نہ باطل میں حق کواکٹھے کرکے کچھڑی پکائے گااوروہ حقائق حق اور ابطال باطل ثابت کرکے رکھ دے گا۔ظالم کے مقابلے میںہمیشہ مظلوم کے حق کی جنگ لڑے گا اس نے یہ عزم باندھاہوتاہے کہ اپنے پیشے کی آبرو پر کبھی آنچ نہیں آنے دے گااور قوم وملت کی عزت اورقلم کی حرمت پامال ہونے نہیں دے گا۔ 1947ء کے بعدمقبوضہ کشمیرکی صحافت شیخ عبداللہ کی گردگھومتی رہی اوروادی کشمیرکے دوبڑے اردواخبار،روزنامہ آفتاب اورروزنامہ سری نگرٹائمزشیخ عبداللہ کی غداری کے علیٰ الرغم انکی تعریف وتوصیف میں رطلب اللسان رہے اوران کے قصیدے گاتے رہے۔یہ اخبارات کشمیری زبان میںاہل کشمیرکو’’ال کرے گاوانگن کرے گاشیخ کرے گاشیخ کرے گا‘‘جس کاترجمہ یوں ہے کہ شیخ عبداللہ جوکچھ ہمارے ساتھ کرے بلاچون و چراہمیںقبول ومنظورہے ۔ان دونوں روزناموں کے علاوہ چٹان کے نام سے بھی ایک او ر ہفت روزہ اردومیگزین شائع ہوتارہااوروہ عبدالغنی لون مرحوم کے زیراثرتھااگرچہ اس نے دونوں روزناموں کے برعکس راستہ چن لیاتھااوروہ شیخ عبداللہ کے بجائے غنی لون کوقائد کشمیرکے طورپرابھارتارہالیکن غنی لون بھی اس وقت بھارت کے زیرسایہ والی سیاست کررہے تھے یہ کشمیرمیں مسلح جدوجہدشروع ہونے سے قبل کی بات ہے ۔ اس لئے اس ہفت روزہ سے بھی کشمیری عوام کوبھارت سے آزادی حاصل کرنے کے لئے تحریک شروع کرنے کی کوئی راہنمائی نہیں مل سکی ۔تاہم بعد میں جب غنی لون تحریک آزادی کشمیرکاحصہ بنے توچٹان نے بھی حالات کے مطابق کروٹ بدلی اورکئی ایسے قلمکاروں کولکھنے کاموقع فراہم کیاجوتحریک آزادی کواپنے رشحات قلم سے آنچ دیتے رہے ۔ 1990ء میں کشمیری کی دوسری پیڑی کے ایک ناموروکیل خواجہ محمدشعبان وکیل مرحوم جو سیلوسوپور کے رہنے والے تھے نے روزنامہ ’’الصفا‘‘کے نام سے اخبارنکالااوراس نے شیخ عبداللہ کے فلسفے کویکسر مسترد کر دیا اور تحریک آزادی کشمیر کے آغازپراسکی آبیاری کی۔ جس کے باعث اول الذکرروزناموں کی اشاعت کم ہوکررہ گئی اورعوام الناس آخرالذکرروزنامے کوہاتھوں ہاتھ لیتے رہے ۔تحریک آزادی کشمیرکاڈنکابج اٹھاتواس کے ساتھ ہی کشمیرمیں تیسری پیڑی کے نوجوان صحافیوںکی وجہ سے اخبارات میں شیخ عبداللہ کی قصیدہ گوئی ختم ہوئی،سری نگرکے انگریزی اوراردواخبارات کی برمارشروع ہوئی اور تحریک آزادی کشمیر، انکی شہہ سرخیوں کی زینت بنتی رہی ۔تاہم بھارتی دبائوکے باعث یہ سلسلہ اس طرح قائم نہ رہ سکاکہ جوتحریک آزادی کشمیرکامطلوب ومقصوداوراس کا تقاضا اورعملی مطالبہ تھا۔کچھ اخبارمالکان کوخوفزدہ کردیا اوربعض از خود ڈرگئے ۔ اخبارات نے ففٹی ففٹی کی پالیسی اختیارکرتے ہوئے قاتل انتظامیہ کے ہمنوا،اور مقتول کے بھی نوحہ خواں بنے رہے یوں کہیں آدھا تیتر آدھا بٹیروالی صورتحال اختیارکی ۔ اس بزدلانہ پالیسی کے باعث اخبارات میں ان کالم نویسوں کوجگہ ہی نہیں مل سکی جوقوم کی رہبری اوررہنمائی کرسکیںتاہم اس دوران کشمیرکی تیسری پیڑی کے صحافی جوکئی اخبارات سے وابستہ ہوئے نے پوری مستعدی کے ساتھ حق گوثابت ہوئے اورمجھ ناچیزکے بشمول کئی ایسے قلمکاروںکوایڈٹیوریل میں لکھنے کاموقع فراہم کیا۔تحریک آزادی کے حوالے سے جوصرف اورصرف کشمیریوں کی ذہن سازی کرتے رہے اوراس حوالے سے یہ نوجوان صحافی کوئی بھی خطرہ مول لینے کے لئے کمربستہ رہے ۔